ARTICLES

مزدلفہ میں مغرب و عشاء کے مابین تکبیر تشریق

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حاجی کو مزدلفہ میں مغرب و عشاء دونوں نمازیں عشاء کے وقت میں ملا کر پڑھنے کا حکم ہے اور یہ حکم ہے کہ مغرب و عشاء کے فرضوں کے درمیان سنت و نفل وغیرہ نہ پڑھے او رنہ کسی اور کام میں مشغول ہو، اب سوال یہ ہے کہ مغرب کی نماز سے فراغت کے بعد تکبیرات تشریق کہے یا نہ کہے حالانکہ تکبیر کہنے میں بہت ہی کم وقت صرف ہوتا ہے ۔

(السائل : حافظ بلال قادری، مکہ مکرمہ)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : بعض علمائ کرام کا اس بارے میں کہنا ہے کہ فقہاء کرام کی جمع بین الصلاتین کے بارے میں یہ عبارت کہ ’’امام و مقتدی کے لئے مکروہ ہے دونوں نمازوں کی مابین سنن ونوافل یا کسی اور کام میں مشغول ہونا‘‘ یہ اپنے عموم کے ساتھ تکبیر تشریق کو بھی شامل ہے ، اس لئے وہ دونوں کے بعد تکبیرات تشریق کہے یعنی دونوں نمازوں کے مابین کسی بھی عمل کے ساتھ فصل نہ کرے اور ان کی دلیل نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ کا عمل ہے جو حدیث شریف میں وارد ہے چنانچہ ’’صحیح مسلم‘‘ میں عرفات کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہے کہ

’’ثم اذن، ثم اقام فصلی الظھر، ثم اقام فصلی العصر و لم یصل بینھما شیئًا‘‘

یعنی، پھر اذان ہوئی، پھر اقامت ہوئی تو نماز ظہر پڑھائی، پھر اقامت ہوئی تو نماز عصر پڑھائی اور ان کے مابین کوئی نماز ادا نہ فرمائی۔ اور مزدلفہ کے بارے میں ہے کہ

’’حتی اتی المزدلفۃ، فصلی بھا المغرب و العشائ باذانٍ واحد و اقامتین، و لم یسبح بینھما شیئًا‘‘ (251)

یعنی، یہاں تک کہ مزدلفہ تشریف لائے ، پس وہاں ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھائیں اور ان کے درمیان کوئی نماز ادا نہ فرمائی۔ اور ’’مصنف ابن ابی شیبۃ‘‘ میں ہے کہ حضرت جابر فرماتے ہیں :

’’صلی رسول اللٰہ ﷺ المغرب و العشائ باذانٍ واحدٍ و اقامتین، و لم یسبح بینھما‘‘ (252)

یعنی، رسول اللہ ﷺ نے ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھائیں اور ان کے مابین کوئی نماز ادا نہ فرمائی۔ اور کچھ علماء کرام کے نزدیک ان نمازوں کے مابین تکبیرات تشریق کہنے میں حرج نہیں کیونکہ حدیث شریف میں تو یہ ہے کہ اپ ﷺ نے دونوں نمازوں کے مابین کوئی نماز نہ پڑھی، اس سے تکبیر تشریق کا ترک لازم نہیں اتا اور اس لئے ان کے نزدیک نماز نہ پڑھنے پر تکبیر نہ کہنے کو قیاس نہیں کیا جائے گا کیونکہ تکبیرات تشریق کا وجوب علیحدہ ہے اور پھر تکبیر کہنے میں جو وقت صرف ہوتا ہے وہ اتنا قلیل ہے جسے دو فرضوں کے مابین فاصل قرار نہیں دیا جائے گا اور تکبیرات تشریق کا وجوب ہم احناف کے نزدیک ثابت ہے اور اس کے سقوط کے لئے دلیل کی ضرورت ہے اور سقوط کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے ، چنانچہ علامہ حسین بن محمد سعید بن عبد الغنی مکی حنفی متوفی 1366ھ لکھتے ہیں کہ سید محمد امین ابن عابدین نے فرمایا کہ

قلت : فیہ نظر، فان الوارد فی الحدیث ’’انہ ﷺ صلی الظہر ثم اقام فصلی العصر، و لم یصل بینہما شیئا‘‘، ففیہ التصریح بترک الصلاۃ بینہما، و لا یلزم منہ ترک التکبیر، و لا یقاس علی الصلاۃ لوجوبہ دونہا، لان مدتہ یسیرۃ، حتی لم یعد فاصلا بین الفریضۃ الاتیۃ، (253) و الحاصل : ان التکبیر بعد ثبوت وجوبہ عندنا لا یسقط ہنا الا بدلیلٍ، و ما ذکر لا یصح (254) للدلالۃ کما علمتہ، ہذا ما ظہر لی و اللٰہ اعلم۔ اھ (255)

یعنی، (علامہ شامی (256) فرماتے ہیں ) میں کہتا ہوں کہ اس میں (یعنی دونوں نمازوں کے مابین تکبیر تشریق نہ کہنے کے قول میں ) نظر ہے ، پس بے شک وارد حدیث شریف میں تویہ کہ حضور ﷺ نے (عرفہ کے روز) ظہر کی نماز ادا فرمائی پھر اقامت ہوئی پس عصر کی نماز ادا فرمائی اور ان دونوں کے مابین کوئی نماز نہ پڑھی، پس اس میں تو دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہ پڑھنے کی تصریح ہے جس سے ترک تکبیر لازم نہیں اتا اور نماز نہ پڑھنے پر قیاس نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ اس کا وجوب علیحدہ ہے ، کیونکہ تکبیر کی مدت تھوڑی ہے یہاں تک کہ اسے دوسرے فرض میں فاصل شمار نہیں کیا جاتا، حاصل کلام یہ ہے کہ ہمارے نزدیک تکبیر کے وجوب کے ثبوت کے بعد سوائے دلیل کے ساقط نہ ہو گا اور (دلیل کے طور) جو ذکر کیا گیا وہ دلالت کے لئے درست نہیں ہے جیسا کہ تم اسے جانتے ہو، یہ وہ ہے جو (اس باب میں ) میرے لئے ظاہر ہوا اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ۔ اس کے بعد علامہ حسین بن محمد سعید مکی حنفی لکھتے ہیں :

و لم یتعقبہ العلامۃ الرافعی فی تقریرہ علیہ، فیظہر انہ موافقہ، ثم رایت العلامہ طاہر سنبل قرر ایضا نحو ما فی ’’رد المحتار‘‘ (257)

یعنی، اور (علامہ شامی نے جب دونوں نمازوں کے مابین تکبیر تشریق کے عدم سقوط کو ثابت کیا تو) علامہ رافعی نے اپنی تقریر (یعنی تقریرات رافعی) میں اس پر تعقب نہ فرمایا تو ظاہر ہوا کہ وہ اس کے موافق ہیں ، پھر علامہ طاہر سنبل نے بھی اسے ثابت رکھا (یعنی وجوب کے عدم سقوط کو) مثل اس کے جو ’’رد المحتار‘‘ (258) میں ہے ۔ لہٰذا جس پر(یعنی مقیم پر) تکبیرات تشریق واجب ہیں اس پر عرفہ کے روز ظہر و عصر ملا کر پڑھنے کی صورت میں ان دونوں نمازوں کے مابین اور مزدلفہ میں مغرب و عشاء ملا کر پڑھتے وقت دونوں کے مابین واجب رہیں گی۔

واللٰہ تعالی اعلم بالصواب

یوم الاربعاء، 18 ذوالحجۃ 1431ھ، 24 نوفمبر 2010 م 692-F

حوالہ جات

251۔ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی علیہ الصلوۃ و السلام ﷺ، 147۔ (1218)،2/891

252۔ المصنف لابن ابی شیبۃ، کتاب المناسک، باب من قال : لا یجزئہ الاذان بجمع وحدہ او یوذن او یقیم، برقم : 14247، 8/361

253۔ و فی ’’الرد‘‘ : ’’الراتبۃ‘‘ مکان ’’الاتیۃ‘‘

254۔ وفی ’’الرد‘‘ : ’’لا یصلح‘‘ مکان ’’لا یصح‘‘

255۔ ارشاد الساری الی مناسک الملا علی القاری، باب الوقوف بعرفۃ و احکامہ، فصل : فی الجمع بین الصلاتین بعرفۃ، ص275

256۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، فصل فی الاحرام، مطلب : فی الرواح الی عرفاتٍ، تحت قولہ : علی المذھب، تنبیہ، 3/593

257۔ ارشاد الساری الی مناسک مناسک الملا علی القاری، باب الوقوف بعرفات و احکامہ، فصل الجمع بین الصلاتین بعرفۃ، ص275

258۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، فصل : فی الاحرام، مطلب : فی الرواح الی عرفاتٍ، تحت قولہ : علی الواجب، تنبیہ، 3/593

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button