استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مزدلفہ سے کب منیٰ کو جانا چاہئے سورج طلوع ہونے سے قبل یا سورج طلوع ہونے کے بعد؟
(السائل : ایک حاجی، از لبیک حج گروپ، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : یا د رہے کہ ’’وقوفِ مزدلفہ کا وقت طلوعِ فجر سے اُجالا ہونے تک ہے اس کے درمیان میں وقوف نہ کیا تو فوت ہو گیا اگر اس وقت یہاں سے ہو کر گزر گیا تو وقوف ہو گیا بحوالہ عالمگیری (116) اس لئے حاجی کو چاہئے کہ سورج نکلنے سے قبل جب خُوب اُجالا ہو جائے تو مزدلفہ سے منیٰ کو نکل جائے ، یہی سنّت ہے اور اگر وہ طلوعِ آفتاب کے بعد نکلا تو یہ خلافِ سنّت ہوا مگر اُس پر اِس صورت میں کچھ لازم نہ ہو گا، چنانچہ ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
و الحاصل أن الإفاضۃ علی وجہ السنّۃ، أن یکون بعد الإسفار من المشعر الحرام
یعنی، حاصل کلام یہ ہے کہ مزدلفہ سے سنّت کے مطابق رجوع یہ ہے کہ وہ خُوب اُجالا ہو جانے کے بعد مشعر حرام سے ہو۔ اور لکھتے ہیں :
و کذا لو دفع بعد طلوع الشمس سواء أفاض معہ أم لا لا یلزم منہ شیٔ و یکون مسیأً لترکہ السنّۃ
یعنی اور اس طرح اگر طلوع شمس کے بعد لوٹا، چاہے امام کے ساتھ لوٹا ہو یا نہ تو اس پر کچھ لازم نہ ہوگا اور وہ سنّت کو ترک کرنے کی وجہ سے اسائت (یعنی بُرا) کرنے والا ہو گا۔ اور اس کے سنّت ہونے کی دلیل حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت ہے :
قَالَ إِنَّ الْمُشْرِکِیْنَ کَانُوْا لَا یُفِیْضُوْنَ حَتّٰی تَطْلَعَ الشَّمْسُ، وَ یَقُوْلُوْنَ : أَشْرِقْ ثَبِیْرُ، وَ إِنَّ النَّبِیَّ ﷺ خَالَفَہُمْ، ثُمَّ أَفَاضَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ (117)
یعنی، بے شک آپ فرماتے ہیں کہ مشرکین مزدلفہ سے طلوعِ آفتاب سے قبل نہیں لوٹتے تھے اور کہتے تھے اے (جبلِ) ثبیر روشن ہو جا، اور نبی ا نے ان کی مخالفت فرمائی، پھر طلوعِ آفتاب سے قبل (منیٰ کو ) لوٹے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
چون فارغ شود از وقوفِ مزدلفہ و اسفار بسیار شود پس سنّت آن است کہ افاضہ نماید از مزدلفہ ہمراہ امام قبل از طلوعِ شمس، پس اگر توقّف کرد تا طلوعِ شمس در مزدلفہ خلاف سنّت کردہ باشد و لیکن لازم نباشد بروے چیزے از کفارت (118)
یعنی، جب وقوفِ مزدلفہ سے فارغ ہو جائے اور خوب اُجالا ہو جائے تو سنّت یہ ہے کہ امام کے ساتھ مزدلفہ سے سورج نکلنے سے قبل لوٹے ، پس اگر وہ طلوعِ آفتاب تک مزدلفہ میں ٹھہرا تو خلافِ سنّت کیا لیکن اس کی وجہ سے اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں ہو گا۔ ہاں اگر طلوعِ فجر سے پہلے یہاں سے چلا گیا تو اس پر دَم واجب ہو گیا اور اس حکم سے بیماروں ، عورتوں اور ضعیفوں کو مُستثنیٰ کیا گیا ہے چنانچہ صدر الشریعہ محمد امجد علی متوفی 1367ھ ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں : طلوع فجر سے پہلے جو یہاں (یعنی مزدلفہ)سے چلا گیا اس پر دَم واجب ہے مگر جب بیمار ہو یا عورت یا کمزور کہ ازدحام (بھیڑ) میں ضرر کا اندیشہ ہے اس وجہ سے پہلے چلا گیا تو اس پر کچھ نہیں ۔ (119) اور اگر طلوعِ فجر کے بعد نماز فجر ادا کرنے سے پہلے منیٰ کو گیا تو اس نے بُرا کیا مگر دَم لازم نہ ہوا چنانچہ صدر الشریعہ ’’عالمگیری‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں : نماز سے قبل مگر طلوعِ فجر کے بعد یہاں سے چلا گیا یا طلوعِ آفتاب کے بعد گیا بُرا کیا اس پر دَم واجب نہیں ۔ (120) اور اگر وہ خُوب اُجالا ہو جانے کے بعد لوٹا اور لوگوں کے ازدحام یا کسی اور وجہ سے حدودِ مزدلفہ سے نہ نکلا تھا کہ سورج طلوع ہو گیا تو اس صورت میں وہ سنّت کا خلاف کرنے والا نہ ہو گا جیسا کہ ملا علی قاری لکھتے ہیں : حتی لو طلعت الشمس علیہ و ہو بمزدلفۃ لا یکون مخالفاً للسنّۃ (121) یعنی، (خُوب اُجالا ہو جانے کے بعد حاجی مشعر حرام سے لوٹا) حتی کہ اس پر سورج طلوع ہو گیا اور وہ مزدلفہ میں تھا تو سنّت کا مخالف نہ ہو گا ۔ اور اگر کوئی طلوعِ فجر کے بعد مزدلفہ میں پہنچا تو ترکِ سنّت ہوئی مگر دَم وغیرہ اس پر واجب نہیں کیونکہ رات مزدلفہ میں گزارنا سنّت ہے اور سنّت کے ترک پر دَم لازم نہیں آتا۔ اور یاد رہے مزدلفہ سے واپسی میں دوڑنا درست نہیں ہے بلکہ سکون اور وقار سے چلیں ، چنانچہ امام عز الدین بن جماعہ کنانی متوفی 767ھ لکھتے ہیں :
و السنّۃ : أن یتوجھوا إلی منٰی قبل طلوع الشمس و علیہم السکینۃ بالاتفاق، اقتدائً بالنبی ﷺ (122)
یعنی، سنّت ہے کہ طلوع آفتاب سے قبل لوٹیں اور لوٹتے وقت اُن پر سکون لازم ہو۔ ہاں جب وادیٔ محسّر آئے تو وہاں سے تیزی کے ساتھ گزرے چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
فإذا بلغ بطن محسّر أسرع قدر رمیۃ حجر و إن کان ماشیاً حرّک دابتہ إن کان راکباً (123)
یعنی، پس جب وادیٔ محسّر کے بطن میں پہنچے تو پتھر پھینکنے کی مقدار چلنے میں جلدی کرے اگر پیدل ہو اور اگر سوار ہو تو اپنی سواری تیز کرے ۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : جب وادی محسّر پہنچو تو پانچسو پینتالیس ہاتھ بہت جلد تیزی کے ساتھ چل کر نکل جاؤ مگر نہ وہ تیزی جس سے کسی کو ایذاء ہو۔ (124) ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :
ہذا یستحب عند الأئمۃ الأربعۃ
یعنی، یہ (یعنی اس مقام سے تیز گزرنا) ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) کے نزدیک مستحب ہے ۔
فقد روی أحمد عن جابر أن النَّبِیَّ ﷺ أَوْضَعَ فِیْ وَادِیِّ مُحَسَّرٍ أی أَسْرَعَ
یعنی، امام احمد نے حضرت جابر سے روایت کیا کہ نبی ا نے وادیٔ محسّر میں (گزرنے میں ) جلدی کی۔
و فی ’’المؤطا‘‘ أن ابن عمر کَانَ یُحَرِّکُ رَاحِلَتَہٗ فِیْ مُحَسَّرٍ قَدْرَ رَمْیَۃِ حَجَرٍ
یعنی، ’’مؤطا‘‘ میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما وادی محسّر میں پتھر پھینکنے کی مقدار اپنی سواری کو تیز کر دیتے ۔ اور لکھتے ہیں کہ
و یقول فی مرورہ : أَللَّہُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَ لَا تُہْلِکُنَا بِعَذَابِکَ و عَافِنَا قَبْلَ ذَالِکَ (125)
یعنی، اے اللہ ہمیں اپنے غضب سے ہمیں قتل نہ کر اور اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک نہ کر اور اس سے پہلے ہمیں عافیت دے ۔ اور وادی محسّرمنیٰ اور مزدلفہ کے بیچ میں ایک نالہ ہے دونوں کی حُدود سے خارج، مزدلفہ سے منیٰ کو جاتے ہوئے بائیں ہاتھ کو جو پہاڑ پڑتا ہے اس کی چوٹی سے شروع ہو کر 545 ہاتھ تک ہے یہاں اصحابِ فیل (ہاتھی والے ) آ کر ٹھہرے اور اُن پر عذاب ابابیل اُترا تھا۔ لہٰذا اس جگہ سے جلد گزرنا اور عذاب الٰہی سے پناہ مانگنا چاہئے ۔ (126)
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الثلاثاء، 28ذی القعدۃ1427ھ، 19دیسمبر 2006 م (300-F)
حوالہ جات
116۔ بہار شریعت،حج کا بیان ،منیٰ کے اعمال اور حج کے بقیہ افعال، 1/1135
117۔ ہدایۃ السالک إلی المذاہب الأربعۃ فی المناسک، الباب الحادی عشر، فصل فی الدفع من مزدلفۃ إلیٰ منٰی،3/1075
118۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب ہفتم، فصل ششم دربیان کیفیۃ رجوع از مزدلفہ بسوئے منی، ص198
119۔ بہار شریعت،حج کابیان، مزدلفہ کی روانگی اور اس کا وقوف،1/1135
120۔ بہار شریعت، حج کابیان، مزدلفہ کی روانگی اور اس کا وقوف، 1/1135
121۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب أحکام المزدلفۃ، فصل فی آداب التوجہ، إلی منی، تحت قولہ : قبل طلوع الشمس، 313
122۔ ہدایۃ السالک إلی مذاہب الأربعۃ فی المناسک : 3/1075
123۔ لباب المناسک، باب أحکام المزدلفۃ، فصل فی آداب التوجہ إلی منی،ص149۔150
124۔ بہار شریعت، حج کابیان، منیٰ کے اعمال اور حج کے بقیہ افعال، 1/1138
125۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب أحکام المزدلفۃ، فصل : فی آداب التوجہ إلی منیٰ، ص313
126۔ بہار شریعت، حج کابیان، مزدلفہ سے روانگی اور اس کا وقوف، 1/1138