سوال:
زید کی کھیتی راج نیپال ترائی میں ہے اور زید انڈیا میں رہتا ہے فصل فصل پر جایا کرتا ہے اس لیے اپنے کھیت کو اسی گاؤں کے مسلم اور غیر مسلم کاشتکار کو حسب ذیل شرائط پر دیا کرتا ہے۔
- کھیت کو لگان یعنی مال گزاری پر طے کر کے دینا کہ ایک سال میں ایک بار صرف دو من دھان لوں گا جبکہ کاشتکار اسی کھیت میں دو فصل بوتا کاٹتا ہے یہ بھی طریقہ جائز ہے کہ نہیں؟ سرکار کو لگان زید خود ہی دیتا ہے۔
- کھیت کو ہنڈا پر دینا مثلا ایک بیگھہ کھیت ہے سال میں ایک بار صرف دو من دھان لوں گا جبکہ کاشتکار اسی کھیت میں دو فصل بوتا کاٹتا ہے یہ بھی طریقہ جائز ہے کہ نہیں؟ سرکار کو لگا ن زید خود دیتا ہے۔
- کھیت کو بٹائی پر کمی و زیادہ مقدار میں طے کر کے دینا جائز ہے کہ نہیں؟
جواب:
- اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان اسی قسم کے ایک سوال (جس میں ہر سال چار من دھان دینا طے ہوا) کا جواب لکھتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ یہ اجارہ فاسد اور عقد حرام و واجب الفسخ ہے کہ اس میں مالک زمین کے لیے ایک مقدار معین دھان کی شرط کی گئی اور وہ قاطع شرکت ہے کہ ممکن ہے کہ چار ہی من دھان پیدا ہوں یا اتنے بھی نہ ہوں۔فی تنویر الابصار المزارعۃ تصح بشرط الشرکۃ فی الخارج فتبطل ان شرط لاحدھما قفزان مسماۃ اھ ملتقطا۔ بلکہ یوں کہنا لازم ہے کہ مثلا نصف یا ثلث یاربع پیداوار پر یہ زمین تیرے اجارہ میں دی۔ پھر اگر کچھ پیدا ہو تو حسب قرارداد اس کا نصف یا ثلث یا ربع مالک زمین کے لئے ہوگا اور کچھ نہ پیدا ہو تو کچھ نہیں ۔ یہ شرط لگانا کہ کچھ نہ پیدا ہو جب بھی مجھے اتنا ملے یہ بھی مفسد و حرام ہے۔
- یہ صورت بھی اجارہ فاسد اور عقد حرام کی ہے جیسا کہ جواب نمبر1 سے ظاہر ہے۔
- زمینوں میں بیج ایک شخص کے اور دوسرا شخص اپنے ہل بیل سے جوتے بوئے گا یا ایک کی فقط زمین باقی سب کچھ دوسرے کا یعنی بیج بھی اسی کے اور ہل بیل بھی اسی کے اور کام بھی وہی کرے گا یا کھیتی کرنے والا صرف کام کرے گا باقی سب کچھ مالک زمین کا یہ تینوں صورتیں جائز ہیں۔ اور اگر یہ طے ہو کہ زمین اور بیل ایک شخص کے اور کام و بیج دوسرے کے یا بیل و بیج ایک کے اور زمین و کام دوسرے کا یا یہ کہ ایک کے ذمہ فقط بیل باقی سب کچھ دوسرے کے ذمہ ۔ یا ایک کے ذمہ فقط بیج باقی سب دوسرے کے ذمہ ۔ یہ چاروں صورتیں ناجائز و باطل ہیں۔ اور کھیت کو بٹائی پر جن صورتوں میں دینا جائز ہے ان میں کمی بیشی کی ہر مقدار میں جائز ہے۔
(فتاوی فیض الرسول،کتاب الربا،جلد2،صفحہ 415،شبیر برادرز لاہور)