شرعی سوالات

مرہونہ چیز چوری ہوگئی، اگر یہ قرض سے زیادہ قیمت کی ہے تو زائد بلا معاوضہ ضائع ہوگئی اور اگر قرض زیادہ ہے تو مستفرض پر زائد کا لوٹانا لازم ہے

سوال:

روپے کے عوض مرہون زیور چوری ہوا تو قرض اور مرہون کا کیا حکم ہے؟

جواب:

 ازروئےمذہب مہذب حنفیہ وہ طلائی بالیاں رہن لیں ، رہن ہونے کے لئے مستقرض کا ملک شرط نہیں اور نہ اجازت۔ خصوصا یہ صورت کہ راہنہ زید کی نہایت قریب اور پھر وکیل برائے قبض قرض بھی ہے اور لفظ رہن بھی شرط نہیں۔ وہ کوٹھہ محل حفاظت ہے پیچھے سے خالی تھا تو دروازے پر پانچ آدمی تھے۔ بکر کا بہنوئی کی اجازت سے بہن کے پاس رکھنا تعدی اور خیانت نہیں جبکہ انہیں قابل اعتبار جانتا ہے اور اپنا مال بھی ان کے پاس بغرض حفاظت رکھتا ہے۔خصوصا جبکہ بکر و راہنہ کو قرائن سے معلوم تھا کہ غالبا انہی کے پاس رکھے گا اور چپ رہے۔ بلکہ ظاہر سوال تو یہ ہے کہ ان دنوں میں بکر کی عارضی سکونت اسی مکان میں تھی اور ان کےساتھ رہتا تھا تو وہ مکان حکما اس کا اپنا مکان مشترک بنا اور وہ دونوں من فی عیالہ اصطلاحا داخل ہوئے۔ تو ایداع عند الاجنبی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رہا اپنے ساتھ لے جانا پھر واپس لانا تو وہ بھی قابل اعتراض نہیں ۔ بلکہ یہ لے جانا اور لانا الٹے دلیل احتیاط و تحفظ خاص ہے۔ پس اندریں حالات رہن چوری ہو گیا تو بکر کا قرض ساقط ہو گیا کہ رہن ساقط ہو گیا کہ رہن اس لئے مانگا اور رکھا تھا کہ قرض ادا نہ کرنے کا خطرہ نہ رہے کہ ادا نہ کرنے کی صورت میں اس سے پورا کرے گا اور یہ اسے منظور تھا۔ اور چونکہ معاوضہ رہن میں ساقط ہوا تو راہنہ کا حق ہو گیا کہ زید سے وصول کرے اور قرض سے زائد مالیت رہن کا حصہ بلا معاوضہ ضائع ہو گیا، اس کا مطالبہ راہنہ کسی سے نہیں کر سکتی بکر سے اس لئے کہ زائد حصہ کے حق میں امین محض تھا اور زید سے اس لئے نہیں کر سکتی کہ اس کے امر و اذن سے نہیں رکھا بلکہ اپنے ارادے سے رکھا۔ ہاں زید کو چاہئے کہ اس بیچاری کا نقصان پورا کر دے اور احسان کا بدلہ احسان ہی ہوتا ہے البتہ اگر راہنہ بکر کی تصدیق نہیں کرتی تو حلف مانگ سکتی ہے اور اگر حلف سے انکار کرے تو اس کے پاس ہونا ثابت ہو جائے گا۔

(فتاوی نوریہ، جلد 4، صفحہ  198، دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور ضلع اوکاڑہ)

سوال:  

سید صاحب کے پاس زیورات رہن تھے کہ ڈاکو پڑ گئے، رہن رکھنے والے زمیندار شاہ صاحب کو تنگ کرتے ہیں۔ ان کے متعلق کیاحکم ہے؟

جواب:

 منافع پر قرضہ سود کی صورت اور سود واجب الادا نہیں ، ہاں اصل قرض واجب الادا ہے اور گروی رکھا ہوا زیور وغیرہ چونکہ قرض کے عوض ہے لہذا اس کے ہلاک ہونے کی صورت میں اگر زیور قرض کا ہم قیمت ہے تو قرض بھی گیا اور زیور بھی گیا اور اگر قرض سے کم قیمت کا ہے تو وہ کمی واجب الادا ہے مثلا قرض دس ہزار ہے اور زیور نو ہزار کا ہے تو ایک ہزار اصلی قرض واجب الادا ہے اور اگر زیور کی قیمت زیادہ ہے مثلا قرض دس ہزار کے بدلے جو جو زیور رہن ہے وہ گیارہ ہزار ہے تو یہ ایک ہزار زائد امانت ہے تو یہ ساقط ہو گیا۔

بہرحال فقہ کی نہایت مستند پندرہ کتابوں سے ہمارا حنفی مذہب تحریر کیا گیا ہے تو وہ لو گ سید صاحب پر ظلم نہ کریں، اگر زیادہ تھا اور زیور کم تو زیادہ حصہ ادا کریں اور اگر زیور زیادہ تھا تو زیادہ گر گیا ، مانگ نہیں سکتے جبکہ سید صاحب کی کوئی زیادتی نہیں اور قرآن کریم کا حکم بھی یہی ہے کہ ظلم نہ کریں اور یونہی حدیث شریف کا حکم ہے۔ وہ لوگ اپنے انجام سے ڈریں کہ سید غریب کو غربت کی وجہ سے تنگ نہ کریں بلکہ ظاہر یہی ہے کہ ڈاکہ بھی ان لوگوں کی مرضی سے پڑا۔

قیامت کے دن جب سید صاحب اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ مقدمہ پیش کریں گےکہ مجھے یوں تنگ کیا گیا ہے اور حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم بھی اپنے لڑکے مظلوم کی حمایت کریں تو یہ کہاں جائیں گےِ کس سے شفاعت کرائیں گے؟

(فتاوی نوریہ، جلد 4، صفحہ  205، 207، دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور ضلع اوکاڑہ)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button