مرض الموت میں وصیت
بیٹے کا اپنے مرض الموت میں اپنے باپ کی وصیت کو جائز کرنے اور اپنے اوپر یا اپنے باپ کے اوپر دین (ادھار) کا اقرار کرنے کے متعلق مسائل
مسئلہ ۱: ایک شخص کاانتقال ہوا اور اس نے تین ہزار روپے اور ایک بیٹا چھوڑا اور دو ہزار روپے کی کسی شخص کے لئے وصیت کی پھر بیٹے نے اپنے مرض الموت میں اس وصیت کو جائز کر دیا اور مرگیا اور بیٹے کا بجز اس وراثت کے اور کوئی مال بھی نہیں تو اس صورت میں موصی لہ ایک ہزار روپے تو بیٹے کی اجازت کے بغیر ہی پانے کا مستحق ہے اور بقیہ دو ہزار میں سے ایک ثلث اور پائے گا جو کہ بیٹے کے مال کا تہائی حصہ ہوتا ہے (محیط السرخسی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۸)
مسئلہ ۲ : وارث کی طرف سے مرض الموت میں اپنے مورث کی وصیت کو جائز کرنا بمنزلہ وصیت کرنے کے ہے اسی طرح مرض الموت میں اپنی موت کے بعد غلام کو آزاد کرنا بھی بمنزلہ وصیت کے ہے اور جب دو وصیتیں جمع ہوں جن میں سے ایک عتق (آزاد کرنا) ہو تو عتق مقدم و اولی ہے اور دین (یعنی ادھار) مقدم ہے وصیت پر (محیط السرخسی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۸)
مسئلہ ۳: وارث نے اگر بحالت صحت و تندرستی اپنے مورث کی وصیت کو جائز کر دیا تو وہ اولی اور مقدم ہے عتق سے، اور ادھار کے اقرار سے اور وصیت سے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۸)
مسئلہ ۴ : وارث نے اگر بحالت صحت اپنے باپ کی وصیت کو جائز کر دیا پھر اپنے باپ پر ادھار ہونے کا اقرار کیا تو پہلے باپ کی وصیت پوری کی جائے گی اس کے بعد اگر کچھ بچے گا تو ادھار والوں کو ادا کیا جائے گا لیکن وارث کمی کی صورت میں ان ادھار والوں کے ادھار کی کامل ادائیگی کا ذمہ دار نہ ہوگا ہاں اگر وصیت پوری کرنے کے بعد اتنا مال بچ رہا کہ ادھار کی کامل ادائیگی ہو جائے تو ادھار کا اقرار کرنے کے بعد وہ اس کی کامل ادائیگی کا ذمہ دار ہے اور اگر وہ بچا ہوا مال قرض کی ادائیگی کے لئے پورا نہ ہو تو اقرار کرنے والا وارث اتنا ادا کرنے کا ضامن ہوگا جتنے کا اس نے اقرار کیا ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۸)
مسئلہ ۵: ایک شخص نے اپنے باپ پر دین کا دعوی کیا اور موصی لہ نے میت کی طرف سے دعوی کیا کہ اس نے اپنے باپ کی وصیت کو جائز کر دیا ہے اور اس شخص نے ان دونوں باتوں کی تصدیق کی تو دین کی ادائیگی مقدم ہوگی اور وہ صاحب اجازت کے لئے کسی چیز کا ذمہ دار نہ ہوگاخواہ اس نے یہ تصدیق بحالت صحت کی ہو یا بحالت مرض (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۸)
مسئلہ ۶ : مریض وارث نے اپنے باپ کی وصیت کو جائز کیا پھر اس نے اپنے باپ پر دین ادھار) کا اقرار کیا اور اپنی ذات پر بھی دین کا اقرار کیا تو پہلے باپ کا دین ادا کیا جائے گا پھر اس کا اپنا دین ادا کیا جائے گا (محیط السرخسی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۸)
مسئلہ ۷: وارث نے اپنے باپ کی وصیت کی اجازت دے دی پھر اپنی ذات پر دین کا اقرار کیا تو دین مقدم و اولی ہے، پہلے دین ادا ہوگا اس کے بعد دیکھا جائے گا اگر دین کی ادائیگی کے بعد کچھ بچ رہا تو اگر اس وارث کے ورثہ نے اس وصیت کو جائز نہیں کیا جس کو وارث نے جائز کر دیا تھا تو بقیہ مال کا ثلث اس وصیت میں دیا جائے گا (محیط از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۸)
مسئلہ ۸ : ایک مریض جس کے پاس دو ہزار روپے ہیں اور اس کے پاس ان کے علاوہ اور کوئی مال نہیں ، اس کا انتقال ہوا اس نے کسی شخص کے لئے ان میں سے ایک ہزار روپے کی وصیت کر دی اور ایک دوسرے شخص کے لئے بقیہ ایک ہزار کی وصیت کر دی اور اس کے وارث بیٹے نے اس کی ان دونوں وصیتوں کو یکے بعد دیگرے اپنی بیماری کی حالت میں جائز کر دیا اور اس وارث بیٹے کے پاس سوائے ان دو ہزار روپے کے جو وراثت میں ملے اور مال نہیں ہے تو اس صورت میں ان دو ہزار کا تہائی حصہ ان دونوں کو نصف نصف تقسیم کر دیا جائے گا جن کے لئے میت اول نے وصیت کی تھی (محیط از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۸)
مسئلہ ۹: ایک شخص کے پاس ایک ہزار درہم ہیں اس نے ان کی کسی شخص کے لئے وصیت کر دی اور انتقال کر گیا اس کا وارث جو اس کے مال کا مالک ہوا اس کی ملکیت میں بھی ایک ہزار درہم تھے (یعنی اس کے پاس کل دو ہزار درہم ہوگئے) پھر اس وارث نے کسی شخص کے لئے اپنے ذاتی ایک ہزار درہم کی اور ان ایک ہزار درہم کی جو وراثت میں ملے تھے دونوں کی وصیت کر دی پھر اس وارث کا انتقال ہوگیا اور اس نے اپنا ایک وارث چھوڑا اس نے اپنے باپ اور اپنے دادا کی وصیت کو اپنے مرض الموت میں جائز کر دیا اور مرگیا اور اس مرنے والے کا بجز اس ترکہ کے اور کوئی مال نہیں تو اس صورت میں پہلے والے موصی لہ کو یعنی دادا کے موصی لہ کو پہلے ایک ہزار درہم کا ایک ثلث وصیت جائز کئے بغیر ہی ملے گا پھر باقی دو تہائی کو دوسرے ایک ہزار درہم میں ملا دیا جائے گا اور اس مجموعہ کا ایک ثلث موصی لہ دوم کو یعنی اس میت کے باپ کے موصی لہ کو ملے گا اور یہ بھی وصیت کو جائز کئے بغیر ہی دے دیا جائے گا۔ یہ ثلث ادا کرنے کے بعد اس تیسری میت کے بقیہ مال کو دیکھا جائے اور اسے موصی لہ اول اور موصی لہ دوم کے درمیان وصیت جائز کر دینے کے بعد بقدر اپنے اپنے بقیہ حصے کے تقسیم کر دیا جائے گا (محیط از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۹)
کس حالت میں وصیت معتبر ہے
مسئلہ ۱: مریض نے کسی عورت کے لئے دین (ادھار) کا اقرار کیا یا اس کے لئے وصیت کی یا اسے کچھ ہبہ کیا اس کے بعد پھر اس سے نکاح کر لیا اس کے بعد اس مریض کا انتقال ہوگیا تو اس کا اقرار جائزہے اور وصیت اور ہبہ باطل ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۹)
مسئلہ ۲: مریض نے اپنے کافر بیٹے یا غلام کے لئے وصیت کی یا اسے کچھ ہبہ کیا اور اسے سونپ دیا، یا اس کے لئے دین کا اقرار کیا، بعد میں وہ کافر بیٹا مسلمان ہوگیا یا غلام آزاد ہوگیا اور یہ مریض کی موت سے پہلے پہلے ہوگیا تو یہ وصیت یا ہبہ یا اقرار باطل ہو جائے گا(کافی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۹)
مسئلہ ۳ : مریض نے وصیت کی اس حالت میں کہ وہ ضعف و ناطاقتی کی وجہ سے بات کرنے پر قادر نہ تھا، اس نے سر سے اشارہ کیا اور یہ معلوم ہو کہ اگر اس کا اشارہ سمجھ لیا گیا تو وہ جان لے گا کہ اس کا اشارہ سمجھ لیا گیا ہے تو اس کی وصیت جائز ہے ورنہ نہیں ۔ یہ اس صورت میں ہے کہ وہ مریض کلام کرنے پر قدرت حاصل ہونے سے قبل ہی انتقال کر جائے کیوں کہ اس صورت میں یہ ظاہر ہوگا کہ اس کے کلام کرنے سے ناامیدی ہوگئی ہے لہذا وہ اخرس یعنی گونگے کی طرح ہے (خزانتہ المفتیین از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۹)
مسئلہ ۴ : جس کے ہاتھ مارے گئے ہوں یا جس کے پیر مارے گئے ہوں ، فالج زدہ اور تپ دق کا مارا جبکہ ان کے امراض کو لمبی مدت گزر جانے اور ان مرحلوں کی وجہ سے موت کا اندیشہ نہ رہے تو یہ صحیح الجسم کے حکم میں ہیں کہ اگر یہ اپنا تمام مال ہبہ کر دیں تو یہ ہبہ کرنا صحیح ہے۔ لیکن اگر دوبارہ ان کو مرض ہو تو وہ بمنزلہ نئے مرض کے ہے اگر اس وقت ان کی موت کا اندیشہ ہو تو یہ ان کا مرض الموت ہوگا لہذا ایسی صورت میں ان کا ہبہ کرنا صرف تہائی مال میں معتبر ہوگا یعنی وہ اپنا تہائی مال ہبہ کرسکتے ہیں زیادہ نہیں (کافی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۹) اگر اسے ان امراض میں سے کوئی مرض لاحق ہوا اور وہ صاحب فراش ہوا تو یہ اس کا مرض الموت ہوگا اور اس کا ہبہ ثلث مال میں جاری ہوگا (کافی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۹)
مسئلہ ۵ : کسی نے وصیت کی پھر اس پر جنون طاری ہوگیا اگر اس کا جنون مطبق ہے (یعنی ہمہ وقت مستقل ہے) تو معاملہ قاضی کی رائے پر ہے اگر وہ اس کی وصیت کو جائز قرار دے تو جائز ہے ورنہ باطل، اور اگر جنون سے اچھا ہونے کی میعاد مقرر کرنے کی ضرورت ہو تو فتوی اس پر ہے کہ حق تصرفات میں جنون مطبق کی مدت ایک سال مقرر کی جاتی ہے۔ (خزانتہ المفتیین از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۹)
مسئلہ ۶ : جو شخص قید خانے میں محبوس ہے، قصاص میں قتل کیا جائے یا رجم (سنگسار) کیا جائے وہ مریض کے حکم میں نہیں ہے (عالمگیری) لیکن جب وہ قتل کرنے کے لئے نکالا جائے اس حالت میں وہ مریض کے حکم میں داخل ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۹)
مسئلہ ۷ : جو شخص میدان کار زار میں قتال کرنے والوں کی صف میں ہو وہ صحیح و تندرست کے حکم میں ہے لیکن جب وہ جنگ و قتال شروع کر دے تو وہ مریض کے حکم میں ہیں ۔ (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۹)
مسئلہ ۸: جو شخص کشتی میں سفر کررہا ہے اس کا حکم صحیح و تندرست آدمی کا ہے لیکن اگر دریا میں زبردست تموج ہوکر کسٹی ڈوب جانے کا اندیشہ ہو تو اس حالت میں وہ مریض کے حکم میں ہے۔(عالمگیری ج ۶ ص۱۰۹)
مسئلہ ۹ : قیدی قتل کے لئے لایا گیا لیکن قتل نہیں کیا گیا قیدخانہ واپس بھیج دیا گیا یا جنگ کرنے والا جنگ کے بعد بخیریت اپنی صف میں واپس آگیا یا دریا کا تموج ٹھہر گیا اور کشتی سلامت رہی تو ان صورتوں میں اس شخص کا حکم اس مریض جیسا ہے جو اپنے مرض سے شفا پاگیا اچھا ہوگیا اب اس کے تمام تصرفات اس کے تمام مال میں نافذ ہوں گے (شرح الطحاوی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۹)
مسئلہ ۱۰ : مجذوم (کوڑھی) اور باری سے بخار والا خواہ چوتھے دن بخار آتا ہو یا تیسرے دن، یہ لوگ اگر صاحب فراش ہوں تو اس مریض کے حکم میں ہیں جو مرض الموت میں ہے (عینی شرح الہدایہ از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۹)
مسئلہ ۱۱ : کسی شخص پر فالج گرا اور اس کی زبان جاتی رہی یعنی بیکار ہوگئی یا کوئی شخص بیمار ہوا اور کلام کرنے پر قدرت نہیں پھر اس نے کچھ اشارے سے کہا یا کچھ لکھ دیا اور اس کا یہ مرض طویل ہوا یعنی ایک سال تک چلتا رہا تو وہ بمنزلہ گونگے کے ہے (خزانتہ المفتیین از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۹)
مسئلہ ۱۲ : عورت کو دردزہ ہو اس حالت میں وہ جو کچھ کرے اس کا نفاذ ثلث مال میں ہوگا اور اگر وہ اس دردزہ سے جانبر ہوگئی تو جو کچھ اس نے کیا پورا پورا نافذ ہوگا (شرح الطحاوی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۹)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔