استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہم عرفات میں تھے اور وہاں مچھر کافی تھے ، ایک بار مچھر نے گردن کے پیچھے کاٹا اور ہاتھ مارنے سے مر گیا، اس صورت میں جب کہ ہم احرام میں تھے اور میدان عرفات میں تھے ، کچھ لازم ائے گا یا نہیں ؟
(السائل : محمد الیاس، لبیک حج و عمرہ سروسز، کراچی)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں کچھ بھی لازم نہیں کیونکہ حشرات الارض کو حل، حرم اور احرام میں قتل کرنے پر کچھ لازم نہیں اتا، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ لکھتے ہیں :
و لا شیء بقتل ہوام الارض (42)
یعنی، حشرات الارض کے قتل پر کچھ لازم نہیں ۔ اور اس کے تحت ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں کہ
ای حشراتہا فی الحل و الحرم و الاحرام و لا جزاء و لا اثم علی فعلہا (43)
یعنی، حل، حرم اور احرام کی حالت میں ہوام الارض (یعنی حشرات الارض) کو قتل کرنے کی صورت میں کوئی جزاء نہیں اور نہ اس فعل پر کوئی گناہ ہے ۔ اور علامہ محمد بن عبد اللہ تمرتاشی حنفی متوفی 1004ھ لکھتے ہیں :
لا شيء بقتل غراب وحداۃ و ذئب و عقرب، وحیۃ، فارۃ، کلب عقور و بعوض الخ (44)
یعنی، کوے (45) چیل، بھیڑئیے ، بچھو، سانپ، چوہے ، باولے کتے اور مچھر کو مارنے میں کچھ نہیں ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
باکے نباشد بقتل موذیات از حشرات الارض چنانکہ مار و کژدم و موش خانگی الخ (46)
یعنی، موذی حشرات الارض کو قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسے سانپ، بچھو، گھریلو چوہا۔ اور فقہاء کرام نے مچھر کے لئے عربی زبان میں ’’بعوض‘‘ کا لفظ لکھا ہے اس کے تحت علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :
قولہ : و ’’بعوض‘‘ و ہو صغیر البق، و لا شيء بقتل الکبار و الصغار، ’’شرنبلالیۃ‘‘(47)
یعنی، اور مچھر وہ چھوٹا مچھر ہے ،اور چھوٹے اور بڑے کو مارنے میں کوئی جزاء نہیں ہے ۔ ’’شرنبلالیۃ‘‘ فقہاء کرام نے لکھا ہے ان کے قتل میں جس طرح کوئی جزاء نہیں ہے اسی طرح کوئی گناہ بھی نہیں ہے ، چنانچہ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :
و لا جزاء بقتلہا و لا اثم علی فعلہا (48)
یعنی، ان کے مارنے میں نہ کوئی جزاء ہے اور نہ اس فعل پر کوئی گناہ ہے ۔ اور اگر یہ ایذاء نہیں پہنچاتے تو ان کو قتل نہیں کرنا چاہئے ، چنانچہ علامہ علاؤ الدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :
لکن لا یحل قتل ما لا یوذی (49)
یعنی، لیکن جو ایذاء نہیں دیتے انہیں قتل کرنا حلال نہیں ہے ۔ اس کے تحت علامہ شامی لکھتے ہیں :
استدراک علی الاطلاق فی النمل، فان ظاہرہ جواز اطلاق قتلہ بجمیع انواعہ مع ان فیہ ما لا یوذی، و ہذا الحکم عام فی کل ما لا یوذی کما صرحوا بہ فی غیر موضع۔ (50)
یعنی، یہ چیونٹی میں مطلق جواز کے اطلاق پر استدراک ہے ، پس بے شک اس کا ظاہر (حشرات الارض کی) جمیع انواع کے قتل کے جواز کا مطلق ہونا ہے اس میں وہ بھی ہیں جو ایذاء نہیں دیتے ، یہ حکم ہر اس میں عام ہے جو ایذاء نہیں پہنچاتے جیسا کہ اس کی تصریح اس جگہ کے غیر میں فقہاء کرام نے کی ہے ۔ اس حقیر کی اس باب میں رائے یہ ہے کہ وہ حشرات الارض کہ جن سے ایذاء کا امکان قوی ہوتا ہے جیسے سانپ، بچھو وغیرہ تو ان کو مارنے میں قباحت نہ ہو اور وہ کہ جن سے ایذاء کا امکان بہت کم ہوتا ہے جیسے چیونٹی وغیرہ تو اسے مارنے سے اجتناب کرنا چاہئے ، انہیں اس وقت تک نہ مارا جائے جب تک ایذا نہ دیں ۔ اور مچھر ان ہی سے ہے کہ جن سے ایذاء کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی عادت سے ہے کہ جب بھی جسم پر بیٹھتا ہے تو کاٹتا ضرور ہے اور اس کے کاٹنے سے ملیریا اور ڈینگی جیسے خطرناک امراض کے پیدا ہونے کا ڈر رہتا ہے ۔
واللٰہ تعالی اعلم بالصواب
یوم الاحد، 15 ذو الحجۃ 1434ھـ، 20 اکتوبر 2013 م 884-F
حوالہ جات
42۔ لباب المناسک و عباب المسالک، باب الجنایات، فصل : فیما لا یجب شیء بقتلہ فی الاحرام و الحرم، ص234
43۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، فصل : فیما لا یجب شيء بقتلہ فی الاحرام و الحرم، تحت قولہ : و لا شيء بقتل ہوام الارض، ص536
44۔ تنویر الابصارمع شرحہ للحصکفی، کتاب الحج، باب الجنایات، ص169
45۔ کوے سے مراد وہ کوا ہے جوگندگی کھاتا ہے جیسا کہ علامہ ابو الحسن مرغینانی حنفی متوفی 593ھ لکھتے ہیں : و المراد بالغراب الذی یاکل الجیف الخ (الہدایۃ، کتاب الحج، باب الجنایات)
46۔ حیات القلوب فی زیارت المحبوب، باب در بیان احرام، فصل ششم در بیان محرمات احرام، ص91
47۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قول التنویر : و بعوض، 3/690
48۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، فصل : فیما لا یجب شيء فی قتلہ الخ، ص536
49۔ الدر المختار، کتاب الحج، باب الجنایات، ص169
50۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قول التنویر : بعوض و نمل، و تحت قول الدر : لکن لا یحل الخ، 3/690