ARTICLES

محرمہ کا کسی عورت کی تقصیر کرنا

الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک خاتون کہ جو عمرہ کی سعی کررہی تھی اور پانچ چکر پورے ہوئے تھے کہ اس حال میں اسے ایک عورت (جس کا احرام کھلنا صرف تقصیر پرموقوف تھا )نے کہا کہ میری تقصیر کردو تو اس عورت نے اس کے کہنے پر تقصیر کر ڈالی تو اب ایسی عورت پرکیا کچھ شرعا لازم ائے گا کہ جس نے تقصیر کرڈالی؟ (السائل : ایک حاجی، مکہ مکرمہ)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں ایسی عورت پر صدقہ کرنا لازم ہے اس کی وجہ یہ کہ اس نے محرمہ کی تقصیر اس حال میں کردی کہ ابھی اس کے اپنے احرام کا کھلنا صرف تقصیر پر موقوف نہیں ۔ چنانچہ امام ابو عبد اللہ محمدبن حسن شیبانی متوفی189ھ لکھتے ہیں : وان حلق المحرم راس حلال تصدق بشیء وان حلق راس محرم بامرہ او بغیر امرہ فعلی المحلوق دم وعلی الحالق صدقۃ ۔ (134) یعنی،اگر محرم نے غیر محرم کے سر کاحلق کیا تو وہ کچھ صدقہ کرے اور اگر محرم کے سر کو اس کے حکم سے یا بغیر حکم کے حلق کیاتو محلوق(جس کا حلق کیا گیا ہے )پردم لازم ہے اور حالق(حلق کرنے والے ) پر صدقہ کرنا لازم ہے ۔ علامہ شیخ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی970ھ لکھتے ہیں : ان المحرم اذا حلق راس حلالٍ تصدق بشیء ٍ، واذا حلق راس محرمٍ فعلیہ صدقۃ۔ (135) یعنی،بیشک محرم نے جب غیر محرم کے سرکاحلق کیا تو وہ کچھ صدقہ کرے اور جب محرم کا سر حلق کیا پس اس پر (یعنی حلق کرنے والے پر)صدقہ کرنا لازم ہے ۔ علامہ نظام الدین حنفی اور علماء ہند کی جماعت نے لکھا : وان حلق راس محرمٍ او حلالٍ وہو محرم علیہ صدقۃ سواء کان بامرہ او بغیر امرہ طائعًا کان المحلوق راسہ او مکرہًا کذا فی ’’غایۃ السروجی شرح الہدایۃ‘‘۔(136) یعنی،اگر محرم یاغیر محرم کے سر کا حلق کیا اس حال میں کہ وہ (حلق کرنے والا) احرام والا ہو تو اس(حالت احرام میں حلق کرنے والے پر) پر صدقہ کرنا لازم ہے برابر ہے کہ حلق اس کے حکم سے کیا ہو یا بغیر حکم کے اس(حلق کروانے والے نے خود) سر خوشی سے مونڈایاہویا مجبورہوکر ،اسی طرح ’’ہدایہ ‘‘کی شرح ’’غایۃ السروجی‘‘ میں ہے ۔ ہاں اگراس تقصیر کرنے والی عورت کا احرام کھلنا صرف تقصیر پر موقوف ہوتا تو اب اسے سو ال میں ذکر کی گئی محرمہ کی تقصیر کرنا شرعا جائز ہوتا ۔اور نہ صرف یہی بلکہ دونوں کوایک دوسرے کی تقصیر کرنا جائز ہوتا۔اور اگر اپنی اپنی خود تقصیر کرنا چاہتیں توبھی کرسکتی تھیں ۔ چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993 ھ اورملا علی بن سلطان قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں : (واذا حلق)ای المحرم(راسہ)ای راس نفسہ(او راس غیرہ)ای ولو کان محرما(عند جواز التحلل)ای الخروج من الاحرام باداء افعال النسک (لم یلزمہ شیء)الاولی لم یلزمھماشیء وھذا حکم یعم کل محرم فی کل وقت۔(137) یعنی،جب محرم نے مناسک کے افعال کی ادائیگی کے ساتھ احرام سے نکلتے وقت اپنے سر کو حلق کیایا اپنے علاوہ کے سرکو اگر چہ وہ(حلق کرنے والا)محرم ہوتو پہلے والے (حالت احرام میں اپنے سر کو مونڈنے والے پر)کو کوئی شے لاز م نہ ہوگی نہ ہی ان دونوں (حالق ومحلوق)کو،اور یہ حکم ہر وقت میں ہر محرم کو عام ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب یوم الاربعاء،25 ذو الحجۃ
1439ھ۔5سبتمبر2018م FU-47

حوالہ جات

(134) کتاب الاصل المعروف بالمبسوط ،کتاب المناسک،باب الحلق،2/361

(135) البحر الرائق،کتاب الحج،باب الجنایات،تحت قولہ : وفی شارب حلال۔۔۔۔۔الخ، 3/20

(136) (الفتاوی الھندیۃ،کتاب المناسک،الباب الثامن فی
الجنایات۔۔۔۔۔الخ،الفصل الثالث : فی حلق الشعر ۔۔۔۔۔الخ،1/243)

(137) لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط ، باب مناسک منی ، فصل فی الحلق والتقصیر،ص : 324

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button