سوال:
زید نے لوہا امپورٹ کیا اور 5 ٹن مال یہاں پورٹ پر آگیا۔ بکر سے کہا تم مال دیکھ لو اور میں اسے 100 روپے ٹن کے حساب سے فروخت کروں گا۔ چنانچہ بکر نے دیکھ کر سودا طے کر لیا ۔ زید کا اس طرح سود کرنا کیسا؟ بکر کے لئے کیا حکم ہے؟ کاغذات سب زید کے نام ہیں۔ ضروری کاروائی کے بعد مال بکر کو دے دیا گیا۔ آیا یہ جائز یے یا ناجائز؟ ملخصا
جواب:
کسی شے منقول کو یعنی جو ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھا کر لے جائی جا سکتی ہے ، خریدار جب تک اس پر قبضہ نہ کر لے کسی کے ہاتھ فروخت نہیں کر سکتا۔ حدیثوں میں اس کی ممانعت ہے۔ اسی بناء پر ہمارے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ تولنے ناپنے والی منقولات کی بیع خریدار قبضہ لینے سے پہلے دوسرے کے ہاتھ فروخت نہیں کر سکتا۔ در مختار میں ہے "فسد بیع المنقول قبل قبضۃ”بیع فاسد کا حکم یہ ہے کہ قبضہ ہونے سے پہلے بائع اور مشتری دونوں پر واجب ہے کہ اس بیع کو فسخ کر دیں اور اگر قبضہ کر لیا ہے تو بھی جب تک وہ مبیع باقی ہے اس کو فسخ کرنا واجب ہے۔
بہر صورت قبضے سے پہلے منقولات کو فروخت کرنا بیع فاسد ہے۔ اور بیع فاسد کرنے والا گنہگار ہے ۔ اور بیع فاسد میں قبضہ کرنے کے بعد بھی مبیع بعد ثمن میں خبث رہتا ہے۔ اور اس مبیع کو فسخ کرنا واجب ہوتا ہے۔
(وقار الفتاوی، جلد 3، صفحہ 264، بزم وقار الدین، کراچی)