لقیط (لا وارث بچے) کے متعلق مسائل
احادیث:
حدیث ۱: امام مالک نے ابو جمیلہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ میں ایک پڑا ہوا بچہ پایا کہتے ہیں میں اسے اٹھا لایا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لے گیا انھوں نے فرمایا تم نے اسے کیوں اٹھایا جو اب دیا کہ میں نہ اٹھاتا تو ضائع ہوجاتا پھرا ن کی قوم کے سردار نے کہا اے امیرالمومنین یہ مرد صالح ہے یعنی یہ غلط نہیں کہتا فرمایا اسے لے جاؤیہ آزاد ہے اس کانفقہ ہمارے ذمہ ہے یعنی بیت المال سے دیاجائے گا ۔
حدیث۲: سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لقیط لایا جاتا تو اس کے مناسب حال کچھ مقرر فرمادیتے کہ اس کا ولی ( ملتقط) ماہ بماہ لیجا یا کرے اور اس کے متعلق بھلائی کرنے کی وصیت فرماتے اور اس کی رضاعت کے مصارف اور دیگر اخراجات بیت المال سے مقرر کرتے ۔
حدیث۳: تمیم رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک لقیط پایا اسے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لائے انھوں نے اسے اپنے ذمہ لیا ۔
حدیث ۴: امام محمد رضی اللہ تعالی عنہ نے حسن بصری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نے لقیط پایا اسے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لایا انھوں نے فرمایا یہ آزاد ہے اور اگر میں اس کا متولی ہوتا یعنی میں اٹھانے والا ہوتا تو مجھے فلاں فلاں چیز سے یہ زیادہ محبوب ہوتا ۔
عرف شرع میں لقیط اس بچہ کا کہتے ہیں جس کو اس کے گھر والے نے اپنی تنگدستی یا بدنامی کے خوف سے پھینک دیا ہو۔
مسائل فقہیہ:
مسئلہ۱: جس کو ایسا بچہ ملے اور معلوم ہو کہ نہ اٹھالائے تو ضائع و ہلاک ہو جائیگا تو اٹھالانا فرض ہے اور ہلاک کا غالب گمان نہ ہو تو مستحب۔( ہدایہ)
مسئلہ۲: لقیط آزاد ہے اس پر تمام احکام وہی جاری ہوں گے جو آزاد کے لیئے ہیں اگر چہ اس کا اٹھا لانے والا غلام ہو ہاں اگر گواہوں سے کوئی شخص اسے اپنا غلام ثابت کردے تو غلام ہوگا ۔( ہدایہ، فتح)
مسئلہ۳: ایک مسلمان اور ایک کافر دونوں نے پڑا ہوا بچہ پایا اور ہر ایک اس کو اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو مسلمان کو دیا جائے۔(فتح )
مسئلہ۴: لقیط کی نسبت کسی نے یہ دعوی کیا کہ یہ میرا لڑکا ہے تو اسی کا لڑکا قرار دیدیا جائے اور اگر کوئی شخص اسے اپنا غلام بتائے تو جب تک گواہوں سے ثابت نہ کردے غلام قرار نہ دیا جائے ۔(ہدایہ )
مسئلہ۵: ایک کے دعوی کرنے کے بعددوسراشخص دعوی کرتا ہے تو وہ پہلے ہی کا لڑکا ہوچکا دوسرے کا دعوی باطل ہے ہاں اگر دوسرا شخص گواہوں سے اپنا دعوی ثابت کردے تو اس کانسب ثابت ہو جائے گا ۔ دوشخصوں نے بیک وقت اس کے متعلق دعوی کیا اور ان میں ایک نے اس کے جسم کا کوئی نشان بتایا اور دوسرانہیں تو جس نے نشانی بتائی اسی کا ہے مگر جبکہ دوسرا گواہوں سے ثابت کردے کہ میرا لڑکا ہے تو یہی مستحق ہوگا اور اگر دونوں کوئی علامت بیان نہ کریں نہ گواہوں سے ثابت کریں یا دونوں گواہ قائم کریں تو لقیط دونوں میں مشترک قرار دیا جائے اور اگر ایک نے کہا لڑکا ہے دوسرا کہتا ہے لڑکی توجو صحیح کہتا ہے اسی کا ہے ۔مجہول ۔ النسب بھی اس حکم میں لقیط کی مثل ہے یعنی دعوی النسب میں جو حکم لقیط کا ہے وہی اس کا ہے ۔( ہدایہ وغیرہا)
مسئلہ۶: لقیط کی نسبت دوشخصوں نے دعوی کیا کہ یہ میرا لڑکا ہے ان میں ایک مسلمان ہے ایک کافر تو مسلمان کا لڑکا قرار دیا جائے ۔یونہی اگر ایک آزاد ہے اور ایک غلام تو آزاد کا لڑکا قرار دیا جائے ( ہدایہ )
مسئلہ۷: خاوند والی عورت لقیط کی نسبت دعوی کرے کہ یہ میرا بچہ ہے اور اس کے شوہر نے تصدیق کی یا دائی نے شہادت دی یا دومرد یا ایک مرداور دو عورتوں نے ولادت پر گواہی دی تو اسی کا بچہ ہے اور اگر یہ باتیں نہ ہوں تو عورت کا قول مقبول نہیں ۔ اور بے شوہر والی عورت نے دعوی کیا تو دو مردوں کی شہادت سے اس کا بچہ قرار پائیگا۔( درمختار)
مسئلہ۸: ملتقط ( یعنی اٹھا لانے والے )سے لقیط کو جبراً کوئی نہیں لے سکتا قاضی و بادشاہ کو بھی اس کا حق نہیں ہاں اگر کوئی سبب خاص ہو تو لیا جاسکتا ہے مثلاًاس میں بچہ کی نگہداشت کی صلاحیت نہ ہو یا ملتقط فاسق فاجر شخص ہے اندیشہ ہے کہ اس کے ساتھ بدکاری کرے گا ایسی صورتوں میں بچہ کواس سے جدا کرلیا جائے ۔( ہدایہ فتح القدیر)
مسئلہ۹: ملتقط کی رضا مندی سے قاضی نے لقیط کو دوسرے شخص کی تربیت میں دیدیا پھر اس کے بعد ملتقط واپس لینا چاہتا ہے توجب تک یہ شخص راضی نہ ہو واپس نہیں لے سکتا ۔(خلاصۃ الفتاوی)
مسئلہ۱۰: لقیط کے جملہ اخراجات کھانا کپڑا رہنے کا مکان بیماری میں دو ایہ سب بیت المال کے ذمہ ہے اور لقیط مرجائے اور کوئی وارث نہ ہو تو میراث بھی بیت المال میں جائے گی ۔( درمختار)
مسئلہ۱۱: ایک شخص ایک بچہ کو قاضی کے پاس پیش کرکے کہتا ہے یہ لقیط ہے میں نے ایک جگہ پڑا پایا ہے تو ہوسکتا ہے کہ محض اس کے کہنے سے قاضی تصدیق نہ کرے بلکہ گواہ مانگے اس لئے کہ ممکن ہے خود اسی کا بچہ ہواور لقیط اس غرض سے بتاتا ہے کہ مصارف بیت المال سے وصول کرے اور یہ ثبوت بہم پہنچ جانے کے بعد کہ لقیط ہے نفقہ وغیرہ بیت المال سے مقرر کر دیا جائے ۔(عالمگیری)
مسئلہ۱۲: لقیط کے ہمراہ کچھ مال ہے یا لقیط کسی جانور پر ملا اور اس جانور پر کچھ مال بھی ہے۔ مال لقیط کا ہے لہذا یہ مال لقیط پر صرف کیا جائے مگر صرف کرنے کے لئے قاضی سے اجازت لینی پڑے گی۔ اور وہ مال اگر لقیط کے ہمراہ نہیں بلکہ قریب میں ہے تو لقیط کانہیں بلکہ لقطہ ہے( جس کے متعلق مسائل آگے آتا ہے) ۔( درمختار وغیرہ)
مسئلہ۱۳: ملتقط نے بغیر حکم قاضی جو کچھ لقیط پر خرچ کیا اس کا کوئی معاوضہ نہیں پاسکتا اور قاضی نے حکم دے دیا ہو کہ جو کچھ خرچ کرے گا وہ دین ہوگا اور اس کا معاوضہ ملے گا اگر لقیط کا کوئی باپ ظاہر ہو ا تو اس کو دینا پڑے گا ور نہ بالغ ہونے کے بعد لقیط دے گا۔( فتح‘ عالمگیری)
مسئلہ۱۴: لقیط پر خرچ کرنے کی ولایت ملتقط کو ہے اور کھانے پینے لباس وغیرہ ضروری اشیأ خریدنے کی ضرورت ہوتو اس کا ولی بھی ملتقط ہے لقیط کی کوئی چیز بیع نہیں کرسکتا نہ کوئی چیز بے ضرورت ادھار خریدسکتا ہے ۔( ہدایہ فتح القدیر)
مسئلہ۱۵: لقیط کو کسی نے کوئی چیز ہبہ کی یا صدقہ کیا تو ملتقط کو قبول کرنے کا حق ہے کیونکہ یہ تو نرا فائدہ ہی فائدہ اس میں نقصان اصلاً نہیں ۔( ہدایہ‘ فتح)
مسئلہ۱۶: لقیط کو علم دین کی تعلیم دلائیں اور علم حاصل کرنے کی صلاحیت اس میں نظر نہ آئے تو کام سکھانے کے لئے صنعت وحرفت کے استادوں کے پاس بھیج دیں تاکہ کام سیکھ کر ہوشیار ہو اور کام کاآدمی بنے ورنہ بیکار ی میں نکما ہو جائے گا۔( ردالمحتار وغیرہ )
مسئلہ۱۷: ملتقط کو یہ اختیار نہیں کہ لقیط کانکاح کردے اور اصح یہ ہے کہ اسے اجارہ پربھی نہیں دے سکتا ( ہدایہ)
مسئلہ۱۸: لقیط اگر سمجھ دار ہونے سے پہلے مر جائے تو اس کے جنازہ کی نماز پڑھی جائے گی اس کو مسلمان اٹھالایاہو یا کافر (خلاصہ) ہاں اگر کافر نے اسے ایسی جگہ پایا ہے جوخاص کافروں کی جگہ ہے مثلاًبت خانہ میں تو اس کے جنازہ کی نماز نہ پڑھی جائے ۔( فتح)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔