مذکورہ بالا صورت کے ناجائز ہونے کی تحقیقی علت و تشریح وہی ہے جو قیمت کی ادائیگی سے پہلے کم قیمت پر واپس خریدنے کے ناجائز ہونے کی علت کے تحت بیان کی گئی ہے۔ البتہ بعض فقہاء نے یہاں شبہہ ربا کی وضاحت ایک دوسرے انداز بھی کی ہے۔ قیمت کی ادائیگی سے پہلے کم قیمت پر واپس خریدنے کے ناجائز ہونے کی علت کی وضاحت: پہلے جب زید نے بکر کو ایک ہزار کی کتاب بیچی اور ابھی ہزار وصول نہیں کئے تھے، اس حالت میں ممکن تھا کہ بکر کو اس کتاب میں کوئی عیب نظر آتا جس کی وجہ سے وہ کتاب واپس کردیتا اور یوں زید کو ہزار روپے بھی نہ ملتے ، تو اس احتمال کو ختم کرنے کے لئے زید نے دوسری بیع کے ذریعے وہی کتاب آٹھ سو میں واپس خرید لی گویا اس نے آٹھ سو دے کر اپنے ہزار پکے کر لئے ، یہ شبہہ ربا ہے جس سے بچنے کا حکم ہے۔ شبہہ ربا کی مذکورہ وضاحت بھی اگرچہ بعض فقہاء کی طرف سے بیان کی گئی ہے لیکن محقق علی الاطلاق صاحب فتح القدیر حضرت علامہ کمال ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے یہی فرمایا کہ اس توجیہ کے بجائے بہترین توجیہ وتشریح وہی ہے جو ربح ما لم یضمن کے عنوان سے بیان ہوئی ۔ بنایہ میں ہے:”وبيان ذلك ما ذكره الإمام قاضي خان - رحمه الله - وهو أن المسألة الأولى إنما لم يصح شراء ما باع بأقل مما باع لشبهة الربا، وذلك لأن الألف وإن وجب البائع بالعقد الأول لكنها على شرف السقوط لاحتمال أن يجد المشتري بها عيبا فيرده فيسقط الثمن عن المشتري، وبالبيع الثاني يقع الأمن عنه فيصير البائع بالعقد الثاني مشتريا ألفا بخمسمائة من هذا الوجه. والشبهة ملحقة في الحقيقة في باب الربا احتياط “ترجمہ: امام قاضی خان رحمہ ا للہ نے جو صورت بیان کی ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ پہلی صورت میں شبہ ربا کی وجہ سے شراء ما باع باقل مما باع صحیح نہیں ہے، وہ اس لیے کہ اگرچہ بائع کے لیے پہلے عقد کی وجہ سے ایک ہزار لازم ہوا تھا لیکن وہ ساقط ہو سکتا تھا کیونکہ کہ یہ احتمال تھا کہ مشتری مبیع میں عیب پائے اور اسے رد کر دے اور مشتری سے ثمن ساقط ہو جائے لیکن دوسرے عقد کے ذریعے اس احتمال سے امن حاصل ہو گیا تو ایک لحاظ سے بائع عقد ثانی کے ذریعے ایک ہزار کو پندرہ سو کے بدلے میں خرید رہا ہے اور سود کے معاملے میں شبہ کا حکم احتیاطا ً حقیقت والا ہوتا ہے۔[1] امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں :” ثالثاً شراء ماباع باقل مما باع عندالتحقیق ربح ما لم یضمن کے سبب حرام ہے یعنی جو چیز اپنی ضمان میں نہ آئی اس پر نفع لینا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔۔۔۔۔ہاں ثمن اول وثانی ایک ہی جنس ہو تو شبہہ ربا بھی ہے بعض نے اسی سے مسئلہ کی تعلیل کی، یوں کہ اس نے ہزار کو بیچی اور ابھی قیمت وصول نہ ہوئی ممکن تھا کہ عیب کے سبب واپس ہوکر ثمن نہ ملے اب کہ خود اس نے پانچ سو کو خرید لی، احتمال سقوط ساقط ہوگیا تو اس نے پانچ سو دے کر اپنے وہ ہزار پکے کرلئے یوں شبہہ ربا آیا “[2] صاحب فتح القدیر لکھتے ہیں:”أن الفساد في الأولى لشبهة الربا وسلامة الفضل للبائع الأول بلا عوض ولا ضمان يقابله ۔۔۔۔۔وهذا أحسن من تقرير قاضي خان اعتبار الشبهة بأن الألف وهو الثمن الأول على شرف السقوط لاحتمال أن يجد المشتري بها عيبا فيرده فيسقط الثمن عن المشتري، وبالبيع الثاني يقع الأمن عنه فيكون البائع بالعقد الثاني مشتريا ألفا بخمسمائة “ملتقطا ترجمہ: پہلی صورت میں فساد شبہہ ربا کی وجہ سے تھا اور اس لئے کہ بائع اول کے لئے بلاعوض ایک ایسا اضافہ (نفع) ثابت ہو رہا ہے کہ جس مقابل میں کوئی ضمان نہیں ہے ۔ اور یہ قاضی خاں کی اس تقریر سے بہترہے جو شبہ ربا کا اعتبار کرتے ہوئے انہوں نے کی بایں طور کہ ہزار درہم جو کہ ثمن اول تھا وہ ساقط ہوسکتا تھا اس احتمال کی بنا پر مشتری اس لونڈی میں کوئی عیب پاکر واپس کردیتا تو اس طرح مشتری سے ثمن ساقط ہوجاتا اور بیع ثانی کی وجہ سے سقوط کا خوف جاتا رہا تو اس طرح بائع عقد ثانی کےذریعے پانچ سو درہم کے عوض ہزار درہم خریدنے والا ہوا۔[3] [1] : البناية شرح الهداية ، جلد8 ، صفحہ 176، دار الکتب العلمیہ، بیروت [2] : فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ547 ، رضا فانڈیشن، لاہور [3] : فتح القدير للكمال ابن الهمام ، جلد6، صفحہ 438، دار الفکر، بیروت