قضا نماز کے متعلق مسائل
غزوۂ خندق میں حضور اقدس ﷺ کی نمازیں مشرکین کی وجہ سے جاتی رہیں یہاں تک کہ رات کا کچھ حصہ چلا گیا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم فرمایا انہوں نے اذان و اقامت کہی حضور نے ظہر کی نماز پڑھی پھر اقامت کہی تو عصر کی پڑھی پھر اقامت کہی تو مغرب کی پڑھی پھر اقامت کہی تو عشاء کی پڑھی۔
حدیث ۱: امام احمد نے ابی جمعہ حبیب بن سباع سے روایت کی کہ غزوۂ احزاب میں مغرب کی نما ز پڑھ کر فارغ ہوئے تو فرمایا کسی کومعلوم ہے میں نے عصر کی پڑھی ہے؟ لوگو ں نے عرض کی نہیں پڑھی مؤذن کو حکم فرمایا اس نے اقامت کہی حضور نے عصر کی پڑھی مغرب کا اعادہ کیا۔
حدیث ۲: طبرانی و بیہقی ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی فرمایا جو شخص کسی نماز کو بھول جائے اور یاد اس وقت آئے کہ امام کے ساتھ ہو تو پوری کر لے پھر بھولی ہوئی پڑھے پھر اسے پڑھے جس کو امام کے ساتھ پڑھا۔
حدیث ۳: صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ جو نماز سے سو جائے یا بھول جائے تو جب یاد آئے پڑھ لے کہ وہی اس کا وقت ہے۔
حدیث ۴: صحیح مسلم کی روایت میں یہ بھی ہے کہ سوتے میں (اگر نماز جاتی رہی) تو قصور نہیں قصور تو بیداری میں ہے۔
مسئلہ ۱: بلا عذر شرعی نماز قضا کر دینا بہت سخت گناہ ہے اس پر فرض ہے کہ اس کی قضا پڑھے اور سچے دل سے توبہ کرے توبہ یا حج مقبول سے گناہ تاخیر معاف ہو جائے گا۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۷۶)
مسئلہ ۲: توبہ جب ہی صحیح ہے کہ قضا پڑھ لے۔ اس کو تو ادا نہ کرے توبہ کہے جائے تو یہ توبہ نہیں کہ وہ نماز جو اس کے ذمہ تھی اس کا پڑھنا تو اب بھی باقی ہے اور جب گناہ سے باز نہ آیا تو توبہ کہاں ہوئی۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۶۷۶) حدیث میں فرمایا گناہ پر قائم رہ کر استغفار کرنے والا اس کے مثل ہے جو اپنے رب سے ٹھٹھا کرتا ہے۔
مسئلہ ۳: دشمنی کا خوف نما زقضا کر دینے کے لئے عذر ہے مثلاً مسافر کو چور اور ڈاکوئوں کا صحیح اندیشہ ہے تو اس کی وجہ سے وقتی نماز قضا کر سکتا ہے بشرطیکہ کسی طرح نماز پڑھنے پر قادر نہ ہو اور اگر سوار ہے اور سواری پر پڑھ سکتا ہے اگرچہ چلنے ہی کی حالت میں یا بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے تو عذر نہ ہوا یونہی اگر قبلہ کو منہ کرتا ہے تو دشمن کا سامنا ہوتا ہے تو جس رخ بن پڑھے پڑھ لے ہو جائے گی ورنہ نماز قضا کرنے کا گناہ ہوا۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۶۶۷)
مسئلہ ۴: جنائی نماز پڑھے گی تو بچہ مر جانے کا اندیشہ ہے نماز قضا کرنے کے لئے یہ عذر ہے بچہ کا سر باہر آگیا اور نفاس سے پیشروقت ختم ہو جائے گا تو اس حالت میں بھی اس کی ماں پر نماز پڑھنا فرض ہے نہ پڑھے گی تو گناہگار ہو گی کسی برتن میں بچہ کا سر رکھ کر جس سے اس کو صدمہ نہ پہنچے نماز پڑھے مگر اس ترکیب سے پڑھنے میں بھی بچہ کے مر جانے کا اندیشہ ہو تو تاخیر معاف ہے بعد نفاس نماز کی قضا پڑھے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۶۶۷)
مسئلہ ۵: جس چیز کابندوں پر حکم ہے اسے وقت میں بجا لانے کو ادا کہتے ہیں اور وقت کے بعد عمل میں لانا قضا ہے اور اگر اس حکم کے بجالانے میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو دوبارہ وہ خرابی دفعہ کرنے کے لئے کرنا اعادہ ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۷۶تا۶۷۹)
مسئلہ ۶: وقت میں اگر تحریمہ باندھ لی تو نماز قضا نہ ہوئی بلکہ ادا ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۷۷) مگر نماز فجر و جمعہ و عیدین کہ ان میں سلام سے پہلے بھی اگر وقت نکل گیا تو نماز جاتی رہی۔
مسئلہ ۷: سوتے میں یا بھولے سے نماز قضا ہو گئی تو اس کی قضا پڑھنی فرض ہے البتہ قضا کا گناہ اس پر نہیں مگر بیدار ہونے اور یاد آنے پر اگر وقت مکروہ نہ ہو تو اسی وقت پڑھ لے تاخیر مکروہ ہے کہ حدیث میں ارشاد فرمایا جو نماز سے بھول جائے یا سو جائے تو یاد آنے پر پڑھ لے کہ وہی اس کا وقت ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۱) مگر دخول وقت کے بعد سو گیا پھر وقت نکل گیا تو قطعاً گناہگار ہوا جب کہ جاگنے پر صحیح اعتماد یا جگانے والا موجود نہ ہو بلکہ فجر میں دخول وقت سے پہلے بھی سونے کی اجازت نہیں ہو سکتی جب کہ اکثر حصہ رات کا جاگنے میں گزرا اور ظن ہے کہ اب سو گیا تو وقت میں آنکھ نہ کھلے گی۔
مسئلہ ۸: کوئی سو رہا ہے یا نماز پڑھنا بھول گیا تو جسے معلوم ہو اس پر واجب ہے کہ سوتے کو جگا دے اور بھولے کو یاد دلا دے۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۹: جب یہ اندیشہ ہو کہ صبح کی نماز جاتی رہے تو بلا ضرورت شرعیہ اسے رات میں دیر تک جاگنا ممنوع ہے۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۱۰: فرض کی قضا فرض ہے اور واجب کی قضا واجب اور سنت کی قضا سنت یعنی وہ سنتیں جن کی قضا ہے مثلاً فجر کی سنتیں جبکہ فرض بھی فوت ہو گیا اور ظہر کی پہلی سنتیں جب کہ ظہر کا وقت باقی ہو۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۶۸۰)
مسئلہ ۱۱: قضا کے لئے کوئی وقت معین نہیں عمر میں جب بھی پڑھے گا بری الذمہ ہو جائے گا مگر طلوع و غروب اور زوال کے وقت کہ ان وقتوں میں نماز جائز نہیں ۔
مسئلہ ۱۲: مجنوں کی حالت جنوں میں جو نمازیں فوت ہوئیں اچھے ہونے کے بعد ان کی قضا واجب نہیں جبکہ جنون نماز کے چھ وقت کامل تک برابر رہاہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۱)
مسئلہ ۱۳: جو شخص معاذ اللہ مرتد ہو گیا پھر اسلام لایا تو زمانہ ارتداد کی نمازوں کی قضا نہیں اور مرتد ہونے سے پہلے زمانہ اسلام میں جو نماز یں جاتی رہی تھیں ان کی قضا واجب ہے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۶۸۹،۶۸۸)
مسئلہ ۱۴: دارالحرب میں کوئی شخص مسلمان ہو اور احکام شرعیہ، نماز، روزہ زکوۃ وغیر ہا کی اس کو اطلاع نہ ہوئی تو جب تک وہاں رہا ان دنوں کی قضا اس پر واجب نہیں اور جب دارالاسلام میں آگیا تو اب جو نماز قضا ہو گی اسے پڑھنا فرض ہے کہ دارالسلام میں احکام کا نہ جاننا عذر نہیں اور کسی ایک شخص نے بھی اسے نماز فرض ہونے کی اطلاع دے دی اگرچہ فاسق یا بچہ یا عورت نے یا غلام نے تو اب جتنی نہ پڑھے گا ان کی قضا واجب ہے دارالسلام میں مسلمان ہوا تو جو نماز فوت ہوئی اس کی قضا واجب ہے اگرچہ کہے کہ مجھے اس کا علم نہ تھا۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۶۸۸)
مسئلہ ۱۵: ایسا مریض کہ اشارہ سے بھی نماز نہیں پڑھ سکتا اگر یہ حالت پورے چھ وقت تک رہی تو اس حالت میں جو نمازیں فوت ہوئیں ان کی قضا واجب نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۱)
مسئلہ ۱۶: جو نماز جیسی فوت ہوئی اس کی قضا ویسی ہی پڑھی جائے گی مثلاً سفر میں قضا ہوئی تو چار رکعت والی دو ہی پڑھی جائے گی اگرچہ اقامت کی حالت میں پڑھے اور حالت اقامت میں فوت ہوئی تو چار رکعت والی کی قضا چار رکعت ہے اگرچہ سفر میں پڑھے۔ البتہ قضا پڑھنے کے وقت کوئی عذر ہے تو اس کا اعتبار کیا جائے مثلاً جس وقت فوت ہوئی تھی اس وقت کھڑا ہو کر پڑھ سکتا تھا اور اب قیام نہیں کر سکتا تو بیٹھ کر پڑھے یا اس وقت اشارہ ہی سے پڑھ سکتا ہے تو اشارے سے پڑھے اور صحت کے بعد اس کا اعادہ نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۱، درمختار ج ۱ ص ۶۸۹،۶۹۰)
مسئلہ ۱۷: لڑکی نماز عشاء پڑھ کر یا بے پڑھے سوئے آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ پہلا حیض آیا تو اس پر وہ عشاء فرض نہیں اور اگر احتلام سے بالغ ہوئی تو اس کا حکم وہ ہے جو لڑکے کا ہے، پو پھٹنے سے پہلے آنکھ کھلی تو اس وقت کی نماز فرض ہے اگرچہ پڑھ کر سوئی اور پو پھٹنے کے بعد آنکھ کھلی تو عشاء کا اعادہ کرے اور عمر سے بالغ ہوئی یعنی اس کی عمر پورے پندرہ سال کی ہو گئی تو جس وقت پندرہ سال کی ہوئی اس وقت کی نماز اس پر فرض ہے اگرچہ پہلے پڑھ چکی ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۱)
مسئلہ ۱۸: پانچوں فرضوں میں باہم اور فرض و وتر میں ترتیب ضروری ہے کہ پہلے فجر پھر ظہر پھر عصر پھر مغرب پھر عشاء پھر وتر پڑھے خواہ یہ سب قضا ہوں یا بعض ادا بعض قضا مثلاً ظہر کی قضا ہو گئی تو فرض ہے کہ کہ اسے پڑھ کر عصر پڑھے یا وتر قضا ہو گیا تو اسے پڑھ کر فجر پڑھے اگر یاد ہوتے ہوئے عصر یا فجر کی پڑھ لی تو ناجائز ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۱ وغیرہ)
مسئلہ ۱۹: اگروقت میں گنجائش نہیں کہ وقتی اور قضائیں سب پڑھ لے تو وقتی اور قضا نمازوں میں جس کی گنجائش ہو پڑھے باقی میں ترتیب ساقط ہے مثلاً نماز عشاء و وتر قضا ہو گئے اور فجر کے وقت میں پانچ رکعت کی گنجائش ہے تو وتر و فجر پڑھے اور چھ رکعت کی وسعت ہے تو عشاء و فجر پڑھے۔ (شرح وقایہ)
مسئلہ ۲۰: ترتیب کے لئے مطلق وقت کا اعتبار ہے، مستحب وقت ہونے کی ضرورت نہیں تو جس کی ظہر کی نماز قضا ہو گئی اور آفتاب زرد ہونے سے پہلے ظہر سے فارغ نہیں ہو سکتا مگر آفتاب ڈوبنے سے پہلے دونوں پڑھ سکتا ہے تو پہلے ظہر پڑھ لے پھر عصر۔ (ردالمحتار ، عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۳)
مسئلہ ۲۱: اگر وقت میں گنجائش ہے کہ مختصر طور پر پڑھے تو دونوں پڑھ سکتا ہے اور عمدہ طریقہ سے پڑھے تو دونوں نمازوں کی گنجائش نہیں تو اس صورت میں بھی ترتیب فرض ہے اور بقدر جواز جہاں تک اختصار کر سکتا ہے کرے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۲)
مسئلہ ۲۲: وقت کی تنگی سے ترتیب ساقط ہونا اس وقت ہے کہ شروع کرتے وقت تنگ ہو، اگر شروع کرتے وقت ادا یا وقتی کی گنجائش تھی اور یہ یاد تھا کہ اس وقت سے پیشتر کی نماز قضا ہو گئی ہے اور نماز میں طول دیا کہ اب وقت تنگ ہو گیا تو یہ نماز نہ ہو گی ہاں اگر توڑ کر پھر سے پڑھے تو ہو جائے گی۔ اور اگر قضا یاد نہ تھی اور وقتی نماز میں طول دیا کہ وقت تنگ ہو گیا اب یاد آئی تو ہو گئی قطع نہ کرے ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۲)
مسئلہ ۲۳: وقت تنگ ہونے نہ ہونے میں اس کے گمان کا اعتبار نہیں بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ حقیقتاً وقت تنگ تھا یا نہیں مثلاً جس کی نماز عشاء قضا ہو گئی اور فجر کا وقت تنگ ہونا گمان کر کے فجر پڑھ لی پھر یہ معلوم ہوا کہ وقت تنگ نہ تھا تو نماز فجر نہ ہوئی اب اگر دونوں کی گنجائش ہو تو عشاء پڑھ کر پھر فجر پڑھے، ورنہ فجر پڑھ لے اگر دوبارہ پھر غلطی معلوم ہوئی تو وہی حکم ہے یعنی دونوں پڑھ سکتا ہے تو دونوں پڑھے ورنہ صرف فجر پڑھے اور اگر فجر کا اعادہ نہ کیا، عشاء پڑھنے لگا اور بقدر تشہد بیٹھنے نہ پایا تھا کہ آفتاب نکل آیا تو فجر کی نماز جو پڑھی تھی ہو گئی۔ یونہی اگر فجر کی نماز قضا ہو گئی اور ظہر کے وقت میں دونوں نمازوں کی گنجائش اس کے گمان میں نہیں ہے اور ظہر پڑھ لی پھر معلوم ہوا کہ گنجائش ہے تو ظہر نہ ہوئی، فجر پڑھ کر ظہر پڑھے یہاں تک کہ اگر فجر پڑھ کر ظہر کی ایک رکعت پڑھ سکتا ہے تو فجر پڑھ کر ظہر شروع کرے۔ ( عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۳،۱۲۲)
مسئلہ ۲۴: جمعہ کے دن فجر کی نماز قضا ہو گئی اگر فجر پڑھ کر جمعہ میں شریک ہوتا ہے تو فرض ہے کہ پہلے فجر پڑھے اگرچہ خطبہ ہوتا ہو اور اگر جمعہ نہ ملے گا مگر ظہر کا وقت باقی رہے گا جب بھی فجر پڑھ کر ظہر پڑھے اور اگر ایسا ہے کہ فجر پڑھنے میں جمعہ بھی جاتا رہے گا اور جمعہ کے ساتھ وقت بھی ختم ہو جائے گا توجمعہ پڑھ لے پھر فجر پڑھ لے اس صورت میں ترتیب ساقط ہے ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۲)
مسئلہ ۲۵: اگر وقت کی تنگی کے سبب ترتیب ساقط ہو گئی اور وقتی نماز پڑھ رہا تھا کہ اثنائے نماز میں وقت ختم ہو گیا تو ترتیب عود نہ کرے گی یعنی وقتی نماز ہو گئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۳) مگر فجر و جمعہ میں کہ وقت نکل جانے سے یہ خود ہی نہیں ہوئی۔
مسئلہ ۲۶: قضا نماز یاد نہ رہی اور وقتیہ پڑھ لی پڑھنے کے بعد یاد آئی تو وقتیہ ہو گئی اور پڑھنے میں یاد آئی تو نہ ہوئی۔ (عامہ کتب)
مسئلہ ۲۷: آپ نے اگر باوضو گمان کر کے ظہر پڑھی پھر وضو کر کے عصر پڑھی پھر معلوم ہوا کہ ظہر میں وضو نہ تھا تو عصر کی ہو گئی صرف ظہر کا اعادہ کرے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۳)
مسئلہ ۲۸: فجر کی نماز قضا ہو گئی اور یاد ہوتے ہوئے ظہر کی پڑھ لی پھر فجر کی پڑھی تو ظہر کی نہ ہوئی، عصر پڑھتے وقت ظہر کی یاد تھی مگر اپنے گمان میں ظہر کو جائز سمجھا تھا تو عصر کی ہو گئی غرض یہ ہے کہ فرضیت ترتیب سے جو ناواقف ہے اس کا حکم بھولنے والے کی مثل ہے کہ اس کی نماز ہو جائے گی۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۸۳)
مسئلہ ۲۹: چھ نمازیں جس کی قضا ہو گئیں کہ چھٹی کا وقت ختم ہو گیا اس پر ترتیب فرض نہیں اب اگرچہ باوجود وقت کی گنجائش اور یادکے وقتی پڑھے گا ہو جائے گی خواہ وہ سب ایک ساتھ قضا ہوئیں مثلاً ایک دم سے چھ وقتوں کی نہ پڑھیں یا متفرق طور پر قضا ہوئیں مثلاً چھ دن فجر کی نماز نہ پڑھی اور باقی نمازیں پڑھتا رہا۔ مگر ان کے پڑھتے وقت وہ قضائیں بھول ہوا تھا خواہ وہ سب پرانی ہوں یا بعض نئی بعض پرانی مثلاً ایک مہینہ کی نماز نہ پڑھی پھر پڑھنی شروع کی پھر ایک وقت کی قضا ہو گئی تو اس کے بعد کی نماز قضا ہو جائے گی اگرچہ اس کا قضا ہونا یاد ہو۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۸۲، ر دالمحتار ج ۱ ص ۶۸۲)
مسئلہ ۳۰: جب چھ نمازیں قضا ہونے کے سبب ترتیب ساقط ہو گئی تو ان میں سے اگربعض پڑھ لی کہ چھ سے کم رہ گئی تو وہ ترتیب عود نہ کرے گی یعنی ان میں سے اگر دو باقی ہوں تو باوجود یاد کے وقتی نماز ہو جائے گی البتہ اگر سب قضائیں پڑھ لیں تو اب صاحب ترتیب ہو گیا کہ اب اگر کوئی نماز قضا ہو گی تو بشرائط سابق اسے پڑھ کر وقتی پڑھے ورنہ نہ ہو گی۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۶۸۴)
مسئلہ ۳۱: یونہی اگر بھولنے یا تنگیٔ وقت کے سبب ترتیب ساقط ہو گئی تو وہ بھی عود نہ کرے گی مثلاً بھول کر نماز پڑھ لی اب یاد آیا تو نماز کا اعادہ نہیں اگرچہ وقت میں بہت کچھ گنجائش ہو۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۸۴)
مسئلہ ۳۲: باوجود یاد اور گنجائش وقت کے وقتی نماز کی نسبت جوکہا گیا ہے کہ نہ ہو گی اس سے مراد یہ ہے کہ وہ نماز موقوف ہے اگر وقتی پڑھتا گیا اور قضا رہنے دی توجب دونوں مل کر چھ ہو جائیں گی یعنی چھٹی کا وقت ختم ہو جائے گا تو سب صحیح ہو گئیں اور اگر اس درمیان میں قضا پڑھ لی تو سب گئیں یعنی نفل ہو گئیں سب کو پھر سے پڑھے۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۸۴،۶۸۵)
مسئلہ ۳۳: بعض نماز پڑھتے وقت قضا یاد تھی اور بعض میں یاد نہ رہی تو جن میں قضا یاد ہے ان میں پانچویں کا وقت ختم ہو جائے یعنی قضا سمیت چھٹی کا وقت ہو جائے تو اب سب ہو گئیں اور جن کے ادا کرتے وقت قضا کی یاد نہ تھی ان کا اعتبار نہیں ۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۶۸۵)
مسئلہ ۳۴: عورت کی ایک نماز قضا ہوئی اس کے بعد حیض آیا تو حیض سے پاک ہو کر پہلے قضا پڑھ لے پھر وقتی پڑھ لے اور اگر قضا یاد ہوتے ہوئے وقتی پڑھے گی نہ ہو گی جب کہ وقت میں گنجائش ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۴)
مسئلہ ۳۵: جس کے ذمہ قضا نمازیں ہوں اگرچہ ان کا پڑھنا جلد سے جلد واجب ہے مگر بال بچوں کی خورد و نوش اور اپنی ضروریات کی فراہمی کے سبب تاخیر جائز ہے تو کاروبار بھی کرے اور جو وقت فرصت کا ملے اس میں قضا پڑھتا رہے یہاں تک کہ پوری ہو جائیں ۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۸۸)
مسئلہ ۳۶: قضا نمازیں نوافل سے اہم ہیں یعنی جس وقت نفل پڑھ سکتا ہے انہیں چھوڑ کر ان کے بدلے قضائیں پڑھے کہ بری الذمہ ہو جائے البتہ تراویح اور بارہ رکعتیں سنت موٌکدہ کی نہ چھوڑ دے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۶۸۸)
مسئلہ ۳۷: منت کی نماز میں کسی خاص وقت یا دن کی قید لگائی تو اسی وقت یا دن میں پڑھنی واجب ہے ورنہ قضا ہو جائے گی اور وقت یا دن معین نہیں تو گنجائش ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۸۸)
مسئلہ ۳۸: کسی شخص کی ایک نما زقضا ہو گئی اور یاد نہیں کہ کونسی نماز تھی تو ایک دن کی نمازیں پڑھے یونہی اگر دونمازیں دو دن میں قضا ہوئیں تو دونوں دنوں کی سب نمازیں پڑھے یونہی تین دن کی تین نمازیں اور پانچ دن کی پانچ نمازیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۴)
مسئلہ ۳۹: ایک دن عصر کی اور ایک دن ظہر کی قضا ہو گئی اور یہ یاد نہیں کہ پہلے دن کی کون سی نماز ہے تو جدھر طبیعت جمے اسے پہلی قرار دے اور کسی طرف دل نہیں جمتا تو جو چاہے پہلے پڑھے مگر دوسری پڑھنے کے بعد جو پہلے پڑھی ہے پھیرے، اور بہتر یہ ہے کہ پہلے ظہرپڑھے پھر عصر کا اعادہ کرے اور اگر پہلے عصر پڑھی پھر ظہر پھر عصر کا اعادہ کیا تو بھی حرج نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۴)
مسئلہ ۴۰: عصر کی نماز پڑھنے میں یاد آیا کہ نماز کا سجدہ رہ گیا مگر یہ یاد نہیں کہ اسی نماز کا رہ گیا یا ظہر کا تو جدھر دل جمے اس پر عمل کرے اور کسی طرف نہ جمے تو عصر پوری کر کے آخر میں ایک سجدہ کرلے پھر ظہر کا اعادہ کرے پھر عصر کا اور اعادہ نہ کیا تو بھی حرج نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۴)
مسئلہ ۴۱: جس کی نمازیں قضا ہو گئیں اور انتقال ہو گیا تو اگر وصیت کر گیا اور مال بھی چھوڑا تو اس کی تہائی سے ہر فرض و وتر کے بدلے نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جو تصدق کرے اور مال نہ چھوڑا اور ورثا ء فدیہ دینا چاہیں تو کچھ اپنے پاس سے یا قرض لے کر مسکین پر تصدق کرکے اس کے قبضہ میں دیں اور مسکین اپنی طرف سے اسے ہبہ کر دے اور یہ قبضہ بھی کر لے پھر مسکین کو دے یونہی لوٹ پھیر کرتے رہیں یہاں تک کہ سب کا فدیہ ادا ہو جائے اوراگر مال چھوڑا مگر وہ ناکافی ہے جب بھی یہی کریں اور اگر وصیت نہ کی اور ولی اپنی طرف سے بطور احسان فدیہ دینا چاہے تو دے اور اگر مال کی تہائی بقدر کافی ہے اور وصیت یہ کی کہ اس میں سے تھوڑا لے کر لوٹ پھیر کر فدیہ پورا کر لیں اور باقی کو ورثاء یا اور کوئی لے لے تو گنہگار ہوا۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۶۸۷)
مسئلہ ۴۲: میت نے ولی کو اپنے بدلے نماز پڑھنے کی وصیت کی اور ولی نے پڑھ بھی لی تو یہ ناکافی ہے یونہی اگر مرض کی حالت میں نماز کا فدیہ دیا تو ادا نہ ہوا۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۸۷)
مسئلہ ۴۳: بعض ناواقف یوں فدیہ دیتے ہیں کہ نمازوں کے فدیہ کی قیمت لگا کر سب کے بدلے قرآن مجید دیتے ہیں اس طرح کل فدیہ ادا نہیں ہوتا یہ محض بے اصل بات بلکہ صرف اتنا ہی ادا ہو گا جس قیمت کا مصحف شریف ہے۔
مسئلہ ۴۴: شافعی المذہب کی نماز قضا ہوئی اس کے بعد حنفی ہو گیا تو حنفیوں کے طور پر قضا پڑھے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۴)
مسئلہ ۴۵: جس کی نمازوں میں نقصان و کراہت ہو وہ تمام عمر کی نمازیں پھیرے تو اچھی بات ہے اور کوئی خرابی نہ ہو تو نہ چاہئیے اور کرے تو فجر و عصر کے بعد نہ پڑھے اور تمام رکعتیں بھری پڑھے اور وتر میں قنوت پڑھ کر تیسری کے بعد قعدہ کرے پھر ایک اور ملائے کہ چار ہوجائیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۲۴)
مسئلہ ۴۶: قضائے عمری کہ شب قدر یا اخیر جمعۂ رمضان میں جماعت سے پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی قضائیں اسی ایک نماز سے ادا ہوگئیں ، یہ باطل محض ہے۔
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔