استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اِس مسئلہ میں کہ قصداً و ارادۃً محظوراتِ احرام و ممنوعاتِ حج کے ارتکاب اور واجبات کو ترک کرنے والوں کے بارے میں شرع مطہرہ کا کیا حکم ہے کیونکہ مسلمان ممالک کے صدور یا وزراء اعظم یا دیگر اُمراء، وزراء اور مشیر آتے ہیں عمرہ یا حج ادا کرتے ہیں حلق تو وہ بالکل کرواتے ہی نہیں ، قصر شرعی بھی وہ شاید نہ کرواتے ہوں ان لوگوں اور ان جیسے دوسرے لوگوں کا شرعاً کیا حکم ہے ؟
(السائل : ایک حاجی، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : مامورات کا ترک ہو یا منہیات کا ارتکاب دونوں ممنوع ہیں یعنی وہ کام کہ شریعت مطہرہ نے جن کے کرنے کا حکم دیا ہے اُن کو بلا عُذر شرعی چھوڑنا یا وہ کام کہ شریعت مطہرہ نے جن کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے وہ کام بلا عُذر شرعی کرنا ممنوع ہے وہ احکام جو فرض یا واجب کے درجے میں ہیں اُن کو چھوڑنے والا اور وہ کام جو حرام قطعی یا حرام ظنّی یعنی کراہت تحریمی کے درجے میں ہیں ان کا ارتکاب کرنے والا عنداللہ گُنہگار ہے ، اور قصداً ان مامورات اور سُنن کا ترک محرمیوں کا سبب ہے اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے جو ایسا کرتے ہیں ۔ واجبات کے ترک کے متعلق مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
حکم واجب آنست اگر ترک کرد یکے از آنہا صحیح باشد حج او و لازم آید بروے دَم یا صدقہ برابر است کردہ باشد آن را عمداً یا سہواً یا نسیاناً یا جہلاً لیکن چون ترک کرد بطریق تعمّد آثم باشد اگرچہ دم دہد مرتفع نگردد آن اثم بغیر توبہ (36)
یعنی، واجبات کا حکم یہ ہے کہ اگر اُن میں سے کسی ایک کو ترک کر دے تو اُس کا حج صحیح ہو جائے گا اور اُس پر دَم یا صدقہ لازم آئے گا چاہے اُسے جان بوجھ کر، یا سہو میں یا بھول میں یا علم نہ ہونے کی وجہ سے ترک کیا ہو لیکن جب جان بوجھ کر ترک کیا ہو تو گُنہگار ہو گا اگرچہ دَم دے دے ااور وہ گُناہ بغیر توبہ کے نہ اٹھے گا۔ عمداً ممنوعات کے مُرتکب پر وُجوبِ جزاء اور لزومِ گُناہ پر علماء کرام نے قرآن کریم سے بھی استدلال کیا ہے ، چنانچہ قاضی حسین بن محمد سعید بن عبد الغنی مکی حنفی متوفی 1366ھ لکھتے ہیں :
فالقرآنُ دلَّ علی وُجوب الجزائِ علی العامد و علی إثمِہِ بقولہ : {لِیَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِہٖ} (37)
یعنی، پس قرآن کریم نے اپنے اِس قول ’’تاکہ چکھیں اپنے امر کا وبال‘‘ کے ساتھ عامد پر وُجوب جزاء اور لُزومِ گُناہ پر دلالت کی ہے ۔ اور ممنوعات کے ارتکاب کے بارے میں صاحبِ فتح القدیر کے شاگرد علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ لکھتے ہیں :
المُحرِمُ إذا جَنَی عمْداً بلا عُذرٍ یجبُ علیہ الجزائُ و الإِثمُ، و إِنْ جَنَی بغیرِ عمْدٍ أو بعذرٍ فعلیہ الجزائُ دونَ الإِثمِ و لا بدّ من التَّوْبۃِ علی کلِّ حالٍ (38)
یعنی، مُحرِم جب بلا عُذر جان بوجھ کر جُرم کرتا ہے تو اُس پر جزاء اور گُناہ دونوں لازم آتے ہیں ، اور اگر جان بوجھ کر جُرم نہیں کرتا یا کسی عُذر کی وجہ سے جُرم کرتا ہے تو اُس پر جزاء ہے نہ کہ گُناہ اور ہر حال میں توبہ ضروری ہے ۔ اِس کے تحت ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
فیہ : أَنّہ لا یجبُ التَّوبۃُ إذا کان بعذرٍ أو بغیرِ عَمْدٍ، و المقصودُ أنَّہ إذا جَنَی عَمْداً بلا عُذرٍ ثمَّ کَفَّر، فلا یُتوہَّمُ أَنَّہ لا یتوجَّہُ علیہ الإثمُ، ولا تجبُ علیہ التَّوْبۃُ (39)
یعنی، اِس میں ہے کہ جب عُذر کے سبب (ارتکاب) ہو یا (ارتکاب) قصداً نہ ہو تو توبہ واجب نہیں ہے اور مقصود یہ ہے کہ جب جان بوجھ کر بلا عذر جُرم کرے پھر کفّارہ دے دے تو یہ وہم نہیں کیا جا سکتا کہ اُس کی طرف گُناہ متوجہ نہیں ہو گا اور اُس پر توبہ واجب نہیں ہو گی۔ اور مُلاّ علی قاری (40) مزید لکھتے ہیں جسے علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252ھ (41)نے بھی نقل کیا کہ
فقد ذَکَر ’’ابنُ جماعۃَ‘‘ عن ’’الأئمۃِ الأربعۃِ‘‘ أنَّہ إذا ارتکَبَ محظورَ الإحرام عامداً یأثمُ، ولا تُخرِجُہ الفِدیۃُ، و العزمُ علیہا عن کونِہ عاصیاً
قال النّووی : و ربما ارتکَبَ بعض العامَّۃ شیئًا مِن ہذہ المحرَّماتِ، وقال : أَنَا أفدِی متوھِّماً أنَّہ بإلتزامِ الفِدیۃِ یتخلَّصُ من وَبال المعصیَّۃِ، و ذلک خطأٌ صریحٌ و جہلٌ قبیحٌ، فإنّہ یحرُمُ علیہ الفعلُ، فإذا خالَفَ أَثِمَ، و لزِمَتْہ الفِدیۃُ، و لیستِ الفِدیۃُ مُبیحۃً للإِقدام علی فعلِ المحرَّم، و جہالۃُ ہذا الفعل کجہالۃِ مَن یقول : أنا أشربُ الخمرَ و أزنی و الحدُّ یُطہِّرُنی، و مَن فَعَل شیأً ممّا یُحکَمُ بتحریمِہ، فقد أخرَجَ حجَّہُ عن أن یکونَ مبروراً، انتھی و قد صرَّحَ أصحابُنا بمثلِ ہذا فی الحُدودِ، فقالوا : إنَّ الحدَّ لا یکونُ طُہْرۃً مِن الذَّنْبِ، و لا یعمَلُ فی سُقوطِ الإثم، بل لا بدَّ من التّوبۃِ، فإنْ تابَ کان الحدُّ طُہرۃً لہ، و سقَطَتْ عنہ العقوبۃُ الأخرویَّۃُ بالإجماع، و إلاَّ فلا، لکن قال صاحب ’’الملتقط‘‘ فی باب الأیمان : إنَّ الکفّارۃ تَرفَعُ الإثمَ و إن لم تُوجَدِ التَّوبۃُ من تلک الجنایۃ، انتہی و یؤیِّدہ ما ذکَرہُ الشّیخُ نجم الدّین النّسفی فی تفسیرہ ’’التّیسیر‘‘ عند قول تعالیٰ : {فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ} أی : اصطاد بعد ذلک الإبتدائِ، قیل : ہو العذابُ فی الآخرۃِ مع الکفّارۃِ فی الدُّنیا، إذا لم یَتُبْ منہ، فإنَّہا لا ترفعُ الذَّنْبَ عن المصرِّ، انتہی، و ہذا تفصیلٌ حسنٌ، و تقییدٌ مستحسنٌ یُجمَعُ بہ بین الأدلَّۃ و الرّوایات، واللہ تعالیٰ أعلم، بحقائق الحالات، و اللّفظ للقاری
یعنی، علامہ ’’ابن جماعہ‘‘ نے ’’ائمہ اربعہ‘‘ سے ذکر کیا کہ اگر مُحرِم ممنوعات احرام کا جان بوجھ کر ارتکاب کرلے تو وہ گُنہگار ہوتا ہے اور فدیہ اور اُس کا عزم اُسے اُس کے گُنہگار ہونے سے نہیں نکالتا۔ امام نووی (شافعی) (42) نے فرمایا بسا اوقات عوام ان ممنوعات میں سے کچھ کا ارتکاب کرتے ہیں اور (مرتکب) کہہ دیتا ہے کہ میں فدیہ دے دوں گا اور اُس کا وہم ہے کہ فدیہ کا التزام کرنا اُسے معصیّت کے وبال سے چھٹکارا دلا دے گا اور یہ صراحۃً خطا اور بہت قبیح جہالت ہے ، پس اُس پر ممنوع کا ارتکاب حرام تھا جب اُس نے خلاف کیا تو گُنہگار ہو ا اور اُسے فدیہ لازم ہو گیا اور فدیہ ممنوع فعل پر اقدام کو مُباح نہیں کرتا ، (43) اور یہ جہالت اُس شخص کی جہالت کی مثل ہے جو یہ کہے کہ میں شراب پیوں گا اور زنا کروں گا اور حدّ مجھے پاک کر دے گی، اور جس شخص نے ایسا کام کیا کہ جس کا حرام ہونا محکم ہے تو اس کا یہ ارتکاب اُسے اس کے حج کو حجِ مقبول ہونے سے نکال دے گا۔ انتھی اور ہمارے اصحاب نے اِس کی مثل (اُمور) کی حُدود کے بیان میں تصریح کی ہے پس انہوں نے کہا کہ حدّ گُناہ سے پاک کرنے والی نہیں اور گُناہ کے ساقط ہونے میں عمل نہیں کرتی بلکہ اس کے لئے توبہ ضروری ہے پس اگر وہ توبہ کر لے تو حدّ اس کے لئے پاک کرنے والی ہے اور آخرت کی سزا اس سے بالاجماع ساقط ہو جائے گی ورنہ نہیں لیکن صاحبِ ’’ملتقط‘‘ نے باب الأیمان میں فرمایا کہ کفّارہ گُناہ کو اٹھا دیتا ہے اگرچہ اُس جُرم سے توبہ کرنا نہ پایا جائے اھ اور اِس کی تائید اس سے بھی ہو جاتی ہے کہ جو شیخ نجم الدین نسفی (44) نے اپنی تفسیر ’’التَّیسِیر‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے فرمان {فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ} (45) کے تحت لکھا کہ یعنی اُس نے اِس ابتداء کے بعد شکار کیا، کہا گیا ہے کہ جب وہ اس جرم سے توبہ نہیں کرتا تو دنیا میں اس کفّارے کے ساتھ آخرت کا عذاب ہے کیونکہ کفارہ مصرّ سے گُناہ نہیں اٹھاتا اھ اور یہ اچھی تفصیل ہے او رمستحسن تقیید ہے کہ جس نے ادلّہ اور روایات کے مابین جمع کر دیا۔
واللہ تعالیٰ أعلم بحقائقِ الحَالَات
اورعلامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ (46) نے لکھا اور ان سے علامہ قاضی حسین بن محمد سعید عبدالغنی مکی حنفی متوفی 366اھ (47) نے نقل کیا ہے کہ
فیُحملُ ما فی ’’الملتقط‘‘ علی غیر المصرِّ، و ما فی غیرِہ علی المصرِّ، و قد ذکَرَ ہذا التّوفیقَ العلاَّمۃ ’’نوح‘‘ فی ’’حاشیۃ الدرر‘‘ اھ
یعنی، جو ’’ملتقط‘‘ میں ہے وہ غیر مُصرّ پر اور اس کتاب کے علاوہ دیگر میں ہے اُسے مُصرّ پر محمول کیا جائے گا، اور یہ موافقت (بین الأدلّہ و الرّوایات) علامہ نوح نے ’’دُرَر‘‘ کے حاشیہ میں ذکر کی ہے ۔ ترکِ واجب اور ارتکابِ حرام گُناہ ہے اور اس پر مصرّین ایک بار گناہ کر کے دوبارہ کرنے کے والے کے لئے ’’مناسک ملاّ علی قاری‘‘ کے حاشیہ میں ہے :
یقالُ لہُ : اذھَب ینتقمُ اللّٰہ منک، و استدلّ بقولہ تعالیٰ : {وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ} (48)
یعنی، اُسے کہا جائے جا تجھ سے اللہ تعالیٰ انتقام لے گا اور اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’اور جو اب کرے گا اللہ اُس سے بدلہ لے گا‘‘ سے استدلال کیا ہے ۔ اور یہ احقر کہتا ہے کہ جب ایک شخص جانتا ہے کہ یہ فعل احرام میں حرام ہے پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے ارتکاب پر فدیہ لازم آئے گا پھر بھی وہ اس فعل حرام کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ پشیمان نہیں بلکہ ممنوعات کے ارتکاب میں دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتا ہے لہٰذا اُس کا جُرم ایسا ہے کہ صرف کفّارہ ادا کرنے سے گُناہ معاف نہیں ہو گا بلکہ اُس کے لئے توبہ کرنی ہو گی، برخلاف اُس شخص کے کہ جس سے ممنوع کا ارتکاب ہو گیا پھر معلوم ہونے پر پشیمان ہوا اور اس نے کفّارہ ادا کیا تو اس کا یہ کفّارہ اس کے گُناہ کو اٹھادے گا کیونکہ اُس کا پشیمان ہونا اُس کی توبہ سے کافی ہو گیا کیونکہ حدیث شریف میں ہے :
’’کَفَّارَۃُ الذَّنْبِ النَّدَمُ أَوِ النَّدَامَۃُ ‘‘ (49)
یعنی، گُناہ کا کفّارہ ندامت ہے ۔ اور امام ربّانی مجدّد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی حنفی نے اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا کہ ’’جو شخص گُناہ کر کے نادم ہوا تو یہ ندامت اس کے گناہوں کا کفّارہ ہے ‘‘۔ (50) اور یہاں ارتکاب ممنوع پر اصرار نہیں پایا گیا اور وہاں پایا گیااِس لئے توبہ کرنا لازم ہو گئی۔ امام اہلسنّت امام احمد رضا محدّث بریلوی متوفی 1340ھ لکھتے ہیں : کفّارے اِس لئے ہیں کہ بُھول چُوک سے یا سونے میں یا مجبوری میں جرم ہوں تو کفّارہ سے پاک ہو جائیں نہ اِس لئے کہ جان بوجھ کر بلا عُذر جرم کرو اور کہو کہ کفّارہ دے دیں گے ، دینا تو جب بھی آئے گا مگر قصداً حکم الٰہی کی مخالفت سخت ہے و العیاذ باللہ تعالیٰ، حق تعالیٰ توفیق طاعت عطا فرما کر مدینہ طیبہ کی زیارت کرائے ، آمین (51) اور جو لوگ واجبات جان بوجھ کر ترک کرتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے کوئی شخص جان بوجھ کر ممنوعاتِ احرام کا ارتکاب کرے اور پھر اگر اُن کو اپنے عہدے پر ناز ہے یا اپنی دولت پر تو دونوں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں اگر انہیں شریعت مطہرہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے شرم آتی ہے اور آخرت کو فراموش کر بیٹھے ہیں تو اپنی اس حالت پر اُن کو افسوس کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رونا اور گڑگڑانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی حالت بدل دے ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الجمعۃ، 30 ذو القعدہ 1429ھ، 28نوفمبر 2008 م 483-F
حوالہ جات
36۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، مقدمۃ الرسالۃ، فصل سیوم، ص45
37۔ إرشاد السّاری إلی مناسک الملاّ علی القاری، باب الجنایات، تحت قول اللّباب : عامداً أو خاطئاً، ص423
38۔ لُباب المناسک مع شرحہ للقاری، باب الجنایات، ص192
39۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب الجنایات، ص422
40۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسّط، باب الجنایات، تحت قولہ : لا بدَّ مِن التّوبۃ إلخ، ص422
41۔ ردُّ المحتار علی الدُّرِّ المختار، کتاب الحجّ، باب الجنایات، تحت قول التّنویر : و لو ناسیاًإلخ، 3/652
42۔ کتاب متن الإیضاح، الباب الثّانی فی الإحرام، فصلان بعد فصل فی محرّمات الإحرام، ص58
43۔ علامہ ابن حجر ہیتمی لکھتے ہیں : فدیہ اُس گُناہ کو اصلاً اُٹھانے والا نہیں ہے جیسا کہ تمام کفّارے ، (حاشیۃ العلّامۃ ابن حجر الہیتمی، الباب الثانی فی الإحرام، فصل : ہذہ محرّمات الإحرام إلخ، ص224)
44۔ یہ ابو حفص عمر بن محمد نجم الدین نسفی (متوفی 537ھ) ہیں اور اُن کی تفسیر کا نام ’’التَّیسِیر فی التّفسیر‘‘ ہے جیسا کہ ’’کشف الظّنون‘‘ (1/519) اور ’’الفوائد البھیۃ‘‘ (ص149) میں ہے ۔
45۔ البقرہ : 2/178(تواس کے بعدجوزیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے ۔)
46۔ رَدُّ المحتار علی الدُّرِّ المختار، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قول التّنویر : و لو ناسیاً إلخ، 3/652
47۔ أیضاً إرشادُ السّاری إلی مناسک الملاّ علی القاری، باب الجنایات، تحت قولہ : ہذا تفصیلٌ حسنٌ، ص423
48۔ المائدۃ : 5/95۔ إرشاد السّاری إلی مناسک الملاّ علی القاری، باب الجنایات، تحت قولہ : خلافاً لمَن قال فی العائد، ص423
49۔ أخرجہ أحمد فی مسندہ، (برقم : 2623، 1/289) و الطّبرانی فی ’’المعجم الکبیر‘‘ (برقم : 12795)، أبو الجوزاء عن ابن عباس، (12/134) و البیہقی فی ’’الشَعب‘‘ (السّابع و الأربعون من شعب الإیمان، برقم : 6638، 9/266) عن ابن عبّاسٍ مرفوعاً
50۔ مکتوبات امام ربّانی، جلد دوم، دفتر دوم، حصہ ہفتم، مکتوب : 66، ص38
51۔ فتاوی رضویہ ، أنوار البشارۃ فی مسائل الحجّ و الزیارۃ، فصل ششم جرم اور اُن کے کفّارے ، نصیحت، 10/762