سوال:
ایک موٹر سائیکل شوروم کا مالک نقد موٹرسائیکل مبلغ چالیس ہزار روپے میں فروخت کرتا ہے اور ادھار وہی موٹرسائیکل مبلغ پچاس ہزار روپے میں فروخت کرتا ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ خریدار مبلغ دس ہزار روپے نقد جمع کراتا ہے اور بقیہ چالیس ہزار روپے چھے ماہ میں یک مشت یا آسان اقساط میں ادا کرتا ہے۔
جواب:
مختلف افراد ،کمپنیاں اور ادارے ادھار پر سامان فروخت کرتے ہیں اور قیمت اقساط میں وصول کی جاتی ہے، قیمت، ادائیگی کی مدت اور قسطیں باہمی رضامندی سے طے کر لی جاتی ہیں، عام طور پر یہ موجودہ بازاری قیمت سے زیادہ ہوتی ہے۔ بائع فروخت شدہ چیز یعنی مبیع خریدار کے حوالے کر کے اس کی ملک میں دے دیتا ہے۔ یہ عقد شرعا صحیح ہے، بشرطیکہ اس میں یہ قرار نہ دیا ہو کہ اگر خدانخواستہ مقررہ مدت میں پوری قیمت ادا نہ کی جاسکی تو اضافی مدت کے عوض قیمت میں کسی خاص شرح سے کوئی اضافہ ہوگا۔ اگر تاخیری مدت کے عوض قیمت میں اضافہ کر دیا تو یہ سود ہے اور حرام ہے۔ فی نفسہ حدود شرع کے اندر ایسی بیع جائز ہے ، فقہ میں اسے بیع بالتقسیط کہتے ہیں ۔
بیع میں نقد اور ادھار کی صورت میں علیحدہ علیحدہ قیمتیں مقرر کرنے کی شرعی حیثیت کے حوالے سے علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تین صورتیں تحریر فرمائی ہیں:
1۔ زید کوئی چیز ادھار فروخت کرتا ہے اور سب کو معلوم ہے کہ وہ دوسرے نقد فروخت کرنے والوں کے مقابلے میں گراں فروش ہے ۔
2۔ زید علانیہ کہتا ہے کہ اس کے سامان کی نقد کی قیمت سو روپیہ اور ادھار ایک سو بیس روپیہ ہے ۔
3۔ زید سامان قسطوں پر فروخت کرتا ہے اور ایسے سامان کو جس کی نقد قیمت عام طور پر سو روپیہ ہے، دس روپیہ ماہانہ کی بارہ قسطوں میں فروخت کرتا ہے۔
ان صورتوں میں پہلی اور تیسری صورت جائز ہے اور دوسری صورت جس میں زید علانیہ کہتا ہے کہ اس چیز کی نقد قیمت سو روپیہ اور ادھار ایک سو بیس روپیہ ہے، خواہ وہ ادھار روپیہ بھی بالاقساط وصول کیا جائے یا یک مشت، نقد اور ادھار قیمتوں میں فروخت کرنے کی وجہ سے نا جائز ہے۔
بعض قارئین کو بیع بالتقسیط کے جواز اور ممانعت کی حکمت سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ثمن کو معلق نہ رکھا جائے، قطعی طور پر طے کر دیا جائے ، لیکن جب یہ کہا جائے : فلاں چیز نقد اتنے کی ہے اور قسطوں پر اتنے کی ، تو ثمن طے نہ ہوا بلکہ معلق ہو گیا، جبکہ بیع بائع اور مشتری کے درمیان باہمی رضامندی سے مبیع اور ثمن کے قطعی طور پر طے ہونے کا نام ہے، خواہ نقد ہو یا ادھار ،لیکن جب مبیع اور ثمن، بائع اور مشتری کے درمیان طے ہوجائیں اور مبیع مشتری کے حوالے کر دی جائے، اس پر اسے قبضہ دے دیا جائے، تو ملک تام ہو جاتی ہے اور بیع منعقد ہو جاتی ہے۔
(تفہیم المسائل، جلد 11، صفحہ 381، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)
سوال:
کیا قسطوں پر اشیاء کی خرید و فروخت جائز ہے؟
جواب:
مختلف افراد، کمپنیاں اور ادارے نئی الکٹرانک اشیاء کی اقساط پر فروخت کا کاروبار کرتے ہیں ،فریقین میں قیمت ، جو ظاہر ہے رائج الوقت مارکیٹ ویلیو سے زیادہ ہوتی ہے، طے ہو جاتی ہے اور یہ بھی طے ہو جا تا ہے کہ ماہانہ اقساط کی رقم کیا ہو گی اور ادائیگی کتنی مدت میں ہو گی اور ’’ مسلم فیہ یا مبیع (SOLD ITEM) خریدار کے حوالے کر کے اس کی ملک میں دے دیا جا تا ہے، تو یہ عقد شرعاً صحیح ہے، بشرطیکہ اس میں یہ شرط شامل نہ ہو کہ اگر خدا نخواستہ مقررہ مدت میں اقساط کی ادائیگی میں تاخیر ہو گئی تو ادائیگی کی اضافی مدت کے عوض قیمت میں کسی خاص شرح سے کوئی اضافہ ہو گا۔ اور اگر تاخیری مدت کی عوض قیمت میں اضافہ کر دیا تو یہ سود ہے اور حرام ہے ۔ فی نفسہ حدود شرع کے اندر اقساط کی بیع جائز ہے ۔
(تفہیم المسائل، جلد2،صفحہ 340،ضیا القرآن پبلی کیشنز، لاہور)