بہار شریعت

قرض کے متعلق مسائل

قرض کے متعلق مسائل

حدیث ۱: صحیح بخاری میں ابوبردہ بن ابی موسیــ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہتے ہیں میں مدینہ آیا اورعبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے فرمایاتم ایسی جگہ میں رہتے ہوجہاں سود کی کثرت ہے لہذا اگر کسی شخص کے ذمہ تمھاراکوئی حق ہواور وہ تمہیں ایک بوجھ بھوسہ یا جویا گھاس ہدیہ میں دے توہرگز نہ لینا کہ وہ سود ہے ۔

حدیث۲: امام بخاری تاریخ میں انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روای کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جب ایک شخص دوسرے کو قرض دے تو اس کا ہدیہ قبول نہ کرے ۔

حدیث۳: ابن ماجہ وبیہقی انہیں سے راوی کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جب کوئی قرض دے اور اس کے پاس وہ ہدیہ کرے تو قبول نہ کرے اور اپنی سواری پر سوار کرے تو سوار نہ ہو ہاں اگرپہلے سے ان دونوں میں ( ہدیہ وغیرہ)جاری تھا تو اب حرج نہیں ۔

حدیث۴: نسائی نے عبداللہ بن ابی ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہتے ہیں مجھ سے حضور اقدس ﷺنے قرض لیا تھا جب حضور کے پاس مال آیا ادا فرمادیا اور دعا دی کہ اللہ تعالی تیرے اہل ومال میں برکت کرے اور فرمایا قرض کا بدلہ شکریہ ہے اور ادا کردینا ۔

حدیث۵: امام عمر ان بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جس کا دوسرے پر حق ہو اور وہ ادا کرنے میں تاخیر کرے تو ہرروز اتنا مال صدقہ کردینے کا ثواب پائے گا۔

حدیث۶: امام احمد سعد بن اطول رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں میرے بھائی کا انتقال ہوااور تین سو دینا ر اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے میں نے یہ ارادہ کیا کہ یہ دینا ر بچوں پر صرف کرونگا رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا تیرا بھائی دین میں مقید ہے ا سکا دین ادا کردے میں نے جا کر ادا کردیا پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی یارسول اللہ میں نے ادا کردیا صرف ایک عورت باقی ہے جو دودینار کا دعوی کرتی ہے مگر اس کے پاس گواہ نہیں ہیں فرمایا اسے دیدے وہ سچی ہے ۔

حدیث۷: امام مالک نے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے عبداللہ بن عمر کے پاس آکر عرض کی کہ میں نے ایک شخص کو قرض دیا ہے اور یہ شرط کرلی ہے کہ جو دیا ہے اس سے بہتر ادا کرنا انہوں نے کہایہ سود ہے اس نے پوچھا تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں فرمایا قرض کی تین صورتیں ہیں ایک وہ قرض ہے جس سے مقصوداللہ کی رضا حاصل کرنا ہے اس میں تیرے لئے اللہ کی رضا ملے گی اور ایک وہ قرض ہے جس سے مقصود کسی شخص کی خوشنودی ہے اس قرض میں صرف اس کی خوشنودی حاصل ہوگی اور ایک وہ قرض ہے جو تونے اس لئے دیا ہے کہ طیب دیکر خبیث حاصل کرے اس شخص نے عرض کی تو اب مجھے کیا حکم دیتے ہیں فرمایا دستاویز پھاڑ ڈال پھراگر وہ قرضدار ویسا ہی ادا کرے جیسا تونے اسے دیا تو قبول کراور اگر اس سے کم ادا کرے اور تونے لے لیا تو تجھے ثواب ملے گا اور اگر اس نے اپنی خوشی سے بہتر ادا کیا تویہ ایک شکریہ ہے اس نے کیا ۔

مسائل فقہیہ:

مسئلہ۱: جو چیز قرض دی جائے لی جائے اس کا مثلی ہونا ضرور ہے یعنی ماپ کی چیز ہویا تول کی ہو یا گنتی کی ہو مگر گنتی کی چیز میں شرط یہ ہے کہ اس کے افراد میں زیادہ تفاوت نہ ہو جیسے انڈے ۔ اخروٹ ۔ بادام ۔ اوراگر گنتی کی چیز میں تفاوت زیادہ ہو جس کی وجہ سے قیمت میں اختلاف ہو جیسے آم امرودان کوقرض نہیں دے سکتے ۔یونہی ہر قیمی چیز جیسے جانور مکان زمین ان کا قرض دینا صحیح نہیں ۔( درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ۲: قرض کا حکم یہ ہے کہ جو چیز لی گئی ہے اس کی مثل ادا کی جائے لہذا جس کی مثل نہیں قرض دینا صحیح نہیں ۔ جس چیز کو قرض دینا لینا جائز نہیں اگر اس کو کسی نے قرض لیا اس پر قبضہ کرنے سے مالک ہوجائے گا مگر اس سے نفع اٹھانا حلال نہیں مگر اس کی بیع کرے گا تو بیع صحیح ہوجائے گی اس کا حکم ویسا ہی ہے جیسے بیع فاسدمیں مبیع پرقبضہ کرلیا کہ واپس کرنا ضروری ہے مگر بیع کرے گا تو بیع صحیح ہے ۔( درمختار، ردالمحتار، عالمگیری)

مسئلہ۳: کاغذ کو قرض لینا جائز ہے جبکہ اس کی نوع وصفت کے متعلق مسائل ہوجائے اور اس کو گنتی کے ساتھ لیا جائے اور گن کردیا جائے۔( درمختار) مگر آج کل تھوڑے سے کاغذوں میں خریدوفروخت و قرض میں گن کرلیتے دیتے ہیں زیادہ مقدار یعنی رموں میں وزن کا اعتبار ہوتا ہے یعنی مثلاًاتنے پونڈ کا رم عرف میں تختے نہیں گنتے اس میں حرج نہیں ۔

مسئلہ۴: روٹیوں کو گن کر بھی قرض لے سکتے ہیں اور تو ل کربھی ۔ گوشت وزن کرکے قرض لیاجائے ۔( درمختار)

مسئلہ۵: آٹے کوناپ کرقرض لینا دینا چاہیئے اور اگر عرف وزن سے قرض لینے کا ہو جیسا کہ عموماًہندوستان میں ہے تو وزن سے بھی قرض جائز ہے ۔( عالمگیری)

مسئلہ۶: ایندھن کی لکڑی اور دوسری لکڑیاں اور اپلے اور تختے اور ترکاریاں اور تازہ پھول ان سب کا قرض لینا دینا درست نہیں ۔( عالمگیری)

مسئلہ۷: کچی اور پکی اینٹوں کا قرض جائز ہے جبکہ ان میں تفاوت نہ ہو جس طرح آج کل شہر بھر میں ایک طرح کی اینٹیں تیارہوتی ہیں ۔( عالمگیری)

مسئلہ۸: برف کو وزن کے ساتھ قرض لینا درست ہے اوراگر گرمیوں میں برف قرض لیا تھا اور جاڑے میں ادا کردیا یہ ہوسکتا ہے مگر قرض دینے والا اس وقت نہیں لینا چاہتا وہ کہتا ہے گرمیوں میں لوں گا اوریہ ابھی دینا چاہتا ہے تومعاملہ قاضی کے پاس پیش کرنا ہوگا وہ وصول کرنے پر مجبور کرے گا۔( عالمگیری)

مسئلہ۹: پیسے قرض لئے تھے ان کا چلن جاتارہا تو ویسے ہی پیسے اسی تعداد میں دینے سے قرض ادا نہ ہو گا بلکہ ان کی قیمت کا اعتبار ہے مثلاًآٹھ آنے کے پیسے تھے تو چلن بند ہونے کے بعد اٹھنی یا دوسرا سکہ اس قیمت کا دینا ہوگا۔(درمختاروغیرہ)

مسئلہ۱۰: ادائے قرض میں چیز کے سستے مہنگے ہونے کا اعتبار نہیں مثلاً دس سیر گیہوں قرض لئے تھے ان کی قیمت ایک روپیہ تھی اور ادا کرنے کے دن ایک روپیہ سے کم یا زیادہ ہے اس کا بالکل لحاظ نہیں کیا جائے گا وہی دس سیر گیہوں دینے ہونگے ۔( درمختار)

مسئلہ۱۱: ایک شہر میں مثلاًغلہ لیا اور دوسرے شہر میں قرض خواہ نے مطالبہ کیا تو جہاں قرض لیا تھا وہاں جو قیمت تھی وہ دیدی جائے قرضدار اس پر مجبور نہیں کرسکتا کہ میں یہاں نہیں دونگا وہاں چل کر وہ چیز لے لو۔ایک شہر میں غلہ قرض لیا دوسرے شہر میں جہاں غلہ گراں ہے قرض خواہ اس سے غلہ کا مطالبہ کرتا ہے قرض دار سے کہا جائے گا اس بات کاضامن دیدو کہ اپنے شہر میں جاکر غلہ ادا کرونگا۔( درمختار)

مسئلہ۱۲: میوے قرض لئے مگر ابھی ادا نہیں کئے کہ یہ میوے ختم ہوچکے بازار میں ملتے نہیں قرضخواہ کو انتظار کرنا پڑے گا کہ نئے پھل آجائیں اس وقت قرض ادا کیا جائے اور اگر دونوں قیمت دینے لینے پر راضی ہوجائیں تو قیمت ادا کردی جائے ۔( درمختار)

مسئلہ۱۳: قرضدار نے قرض پر قبضہ کرلیا اس چیزکامالک ہوگیا فرض کرو ایک چیز قرض لی تھی اور ابھی خرچ نہیں کی ہے کہ اپنی چیز آگئی مثلاًروپیہ قرض لیا تھا اور روپیہ آگیا یاآٹا قرض لیا تھا پکنے سے پہلے آٹا پس کر آگیااب قرض دار کویہ اختیار ہے کہ اس کی چیز رہنے دے اور اپنی چیز سے قرض ادا کرے یا اس کی ہی چیز دیدے جس نے قرض دیا ہے وہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے جوچیز دی تھی وہ تمھارے پاس موجود ہے میں وہی لونگا۔( درمختار، عالمگیری)

مسئلہ۱۴: قرض کی چیز قرضدار کے پاس موجود ہے قرضدار ا س کو خود قرضخوا ہ کے ہاتھ بیع کرے یہ صحیح ہے کہ وہ مالک ہے اور قرضخواہ بیع کرے یہ صحیح نہیں کہ یہ مالک نہیں ۔ ایک شخص نے دوسرے سے غلہ قرض لیا قرضدار نے قرضخواہ سے روپیہ کے بدلے اس کو خریدلیا یعنی اس دین کو خریدا جو اس کے ذمہ ہے مگر قرضخواہ نے روپیہ پر ابھی قبضہ نہیں کیا تھا کہ دونوں جدا ہوگئے بیع باطل ہوگئی ۔(درمختار)

مسئلہ ۱۵: غلام تاجر اور مکاتب اور نابالغ اور بوہرایہ سب کسی کو قرض دیں یہ ناجائز ہے کہ قرض تبرع ہے اور یہ تبرع قرض نہیں کرسکتے ۔( عالمگیری)

مسئلہ۱۶: صبی محجور ( جس کو خریدو فروخت کی ممانعت ہے ) کو قرض دیا یا اس کے ہاتھ کوئی چیز بیع کی اس نے خرچ کرڈالی تو اس کا معاوضہ کچھ نہیں بوہرے اور مجنو ن کو قرض دینے کا بھی یہی حکم ہے اور اگر وہ چیز موجود ہے خرچ نہیں ہوئی ہے تو قرض خواہ واپس لے سکتا ہے غلام محجور کو قرض دیا ہے تو جب تک آزاد نہ ہواس سے مؤاخذہ نہیں ہوسکتا ۔( درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ۱۷: ایک شخص سے دوسرے نے روپے قرض مانگے وہ دینے کولایا اس نے کہا پانی میں پھینک دو اس نے پھینک دیا تو اس کاکچھ نقصان نہیں اس نے اپنا مال پھینکا اور اگر بائع مبیع کو مشتری کے پاس لایا یا امین امانت کو مالک کے پاس لایا انہوں نے کہا پھینک دو انہوں نے پھینک دیا تو مشتری اور مالک کا نقصان ہوا۔( درمختار)

مسئلہ۱۸: قرض میں کسی شرط کا کوئی اثر نہیں شرطیں بیکار ہیں مثلاًیہ شرط کہ اس کے بدلے میں فلاں چیز دینا یا یہ شرط کہ فلاں جگہ (کسی دوسری جگہ کا نام لے کر) واپس کرنا۔(درمختار)

مسئلہ۱۹: واپسی قرض میں اس چیز کی مثل دینی ہوگی جولی ہے نہ اس سے بہتر نہ کمترہاں اگر بہتر ادا کرتا ہے اور اس کی شرط نہ تھی تو جائز ہے دائن اس کولے سکتا ہے ۔ یونہی جتنا لیا ہے ادا کے وقت اس سے زیادہ دیتا ہے مگر اس کی شرط نہ تھی یہ بھی جائز ہے ۔( درمختار)

مسئلہ۲۰: چندشخصوں نے ایک شخص سے قرض مانگا اور اپنے میں سے ایک شخص کے لئے کہہ گئے کہ اس کودے دیناقرض خواہ اس شخص سے اتنا ہی مطالبہ کرسکتا ہے جتنا اس کا حصہ ہے باقیوں کے حصوں کے وہ خود ذمہ دارہیں ۔( درمختار)

مسئلہ۲۱: قرض دیا اور ٹھہرالیا کہ جتنا دیا ہے اس سے زیادہ لے گا جیسا کہ آج کل سود خوروں کا قاعدہ ہے کہ روپیہ دو روپے سیکڑا ماہوار سود ٹھہرا لیتے ہیں یہ حرام ہے ۔ یونہی کسی قسم کے نفع کی شرط کرے ناجائز ہے مثلاًیہ شرط کہ مستقرض ،مقرض سے کوئی چیز زیادہ داموں میں خریدے گایا یہ کہ قرض کے روپے فلاں شہر میں مجھ کو دینے ہوں گے ۔( عالمگیری،درمختار)

مسئلہ۲۲: جس پر قرض ہے اس نے قرض دینے والے کو کچھ ہدیہ کیا تو لینے میں حرج نہیں جبکہ ہدیہ دینا قرض کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اس وجہ سے ہو کہ دونوں میں قرابت یا دوستی ہے یااس کی عادت ہی میں جود وسخاوت ہے کہ لوگوں کوہدیہ کیا کرتا ہے اور اگر قرض کی وجہ ہدیہ دیتا ہے تو اس کے لینے سے بچنا چاہئے اور اگر یہ پتا نہ چلے کہ قرض کی وجہ سے ہے یانہیں جب بھی پرہیز ہی کرنا چاہئے جب تک یہ بات ظاہر نہ ہوجائے کہ قرض کی وجہ سے نہیں ہے ۔ اس کی دعوت کابھی یہی حکم ہے کہ قرض کی وجہ سے نہ ہوتو قبول کرنے میں حرج نہیں اور قرض کی وجہ سے ہے یا پتا نہ چلے تو بچنا چاہئیے ۔ اس کو یوں سمجھنا چاہئیے کہ قرض نہیں دیا تھا جب بھی دعوت کرتا تھا تو معلوم ہوا کہ یہ دعوت قرض کی وجہ سے نہیں اور اگر پہلے نہیں کرتا تھا اور اب کرتا ہے یا پہلے مہینے میں ایک بار کرتا تھا اور اب دوبار کرنے لگا یا اب سامان ضیافت زیادہ کرتا ہے تو معلوم ہواکہ یہ قرض کی وجہ سے ہے اس سے اجتناب چاہئیے ۔( عالمگیری)

مسئلہ۲۳: جس قسم کا دین تھا مدیون اس سے بہتر ادا کرنا چاہتا ہے دائن کو اس کے قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے اور گھٹیا دینا چاہتا ہے جب بھی مجبور نہیں کرسکتے اور دائن قبول کرلے تو دونوں صورتوں میں دین ادا ہوجائے گا۔یونہی اگر اس کے روپے تھے وہ اسی قیمت کی اشرفی دینا چاہتا ہے دائن قبول کرنے پر مجبور نہیں ۔کہہ سکتا ہے میں نے روپیہ دیا تھا روپیہ لونگا اور اگر دین میعادی تھا میعاد پوری ہونے سے پہلے ادا کرتا ہے تو دائن لینے پر مجبور کیا جائے گا وہ انکار کرے یہ اس کے پاس رکھ کر چلا آئے دین ادا ہوجائے گا۔( عالمگیری وغیرہ)

مسئلہ۲۴: قرضدار قرض ادا نہیں کرتا اگر قرضخواہ کو اس کی کوئی چیز اسی جنس کی جو قرض میں دی ہے مل جائے تو بغیر دیئے لے سکتا ہے بلکہ زبردستی چھین لے جب بھی قرض ادا ہو جائے گا دوسری جنس کی چیز بغیر اسکی اجازت نہیں لے سکتا ہے مثلاًروپیہ قرض دیا تھا تو روپیہ یا چاندی کی کوئی چیز ملے لے سکتا ہے اور اشرفی یا سونے کی چیز نہیں لے سکتا ۔( عالمگیری)

مسئلہ۲۵: زید نے عمرو سے کہا مجھے اتنے روپے قرض دو میں اپنی یہ زمین تمھیں عاریت دیتا ہوں جب تک میں روپیہ ادا نہ کروں تم اس کی کا شت کرواور نفع اٹھاؤیہ ممنوع ہے ۔( عالمگیری) آج کل سود خوروں کا عام طریقہ یہ ہے کہ قرض دیکر مکان یا کھیت رہن رکھ لیتے ہیں مکان ہے تو اس میں مرتہن سکونت کرتا ہے یا اس کو کرایہ پر چلاتا ہے کھیت ہے تو اس کی خود کاشت کرتا ہے یا اجارہ پر دیدیتا ہے اورنفع خود کھاتا ہے یہ سود ہے اس سے بچنا واجب ۔

مسئلہ۲۶: نصرانی نے نصرانی کو شراب قرض دی پھر مسلمان ہوگیا قرض ساقط ہوگیا اس سے مطالبہ نہیں کرسکتا ۔ ( عالمگیری)

مسئلہ۲۷: زید نے عمرو سے کہا فلاں شخص سے میرے لئے دس روپے قرض لادو اس نے قرض لاکر دیدیئے مگر زید کہتا ہے مجھے نہیں دیئے تو عمرو کو اپنے پاس سے دینے ہوں گے ۔ اور اگر زید نے عمرو کو رقعہ اس مضمون کا لکھ کر کسی کے پاس بھیجا کہ میرے روپے جو تم پر قرض ہیں بھیج دو اس نے عمرو کے ہاتھ بھیج دیئے تو جب تک یہ روپے زید کو وصول نہ ہوں اس وقت تک زید کے نہیں ہیں یعنی قرض ادا نہ ہوگا اور اگر زید نے عمرو کی معرفت کسی کے پاس کہلا بھیجا کہ دس روپے مجھے قرض بھیج دو اس نے عمرو کے ہاتھ بھیج دیئے تو زید کے ہوگئے ضائع ہونگے تو زیدکے ضائع ہوں گے جب کہ زید اس کا مقرہوکہ عمرو کواس نے دیئے تھے ۔( خانیہ )

مسئلہ۲۸: زید نے عمرو کوکسی کے پاس بھیجا کہ اس سے ہزار روپے قرض مانگ لائے اس نے قرض دیا مگر عمرو کے پاس سے جاتا رہا اگر عمرو نے اس سے یہ کہا تھا کہ زید کو قرض دو تو زید کا نقصان ہوا اور یہ کہا تھاکہ زید کے لئے مجھے قرض دو توعمرو کا نقصان ہوا۔( عالمگیری)

مسئلہ۲۹: جس چیز کا قرض جائز ہے اسے عاریت کے طور پر لیا تووہ قرض ہے اورجس کاقرض نا جائز ہے اسے عاریت لیا تو عاریت ہے ۔(عالمگیری)

مسئلہ۳۰: روپے قرض لئے تھے اس کو نوٹ یا اشرفیاں دیں کہ توڑا کراپنے روپے لے لو اس کے پاس توڑانے سے پہلے ضائع ہوگئے تو قرضدار کے ضائع ہوئے اور توڑانے کے بعد ضائع ہوئے تو دو صورتیں ہیں اپنا قرض لیا تھا یا نہیں اگر نہیں لیا تھاجب بھی قرضدار کا نقصان ہوااور قرض کے روپے ان میں لینے کے بعد ضائع ہوئے تواس کے ہلاک ہوئے اور اگر نوٹ یا اشرفیاں دے کر یہ کہا کہ اپنا قرض لو اس نے لے لیا تو قرض ادا ہوگیا ضائع ہوگا اس کا نقصان ہوگا۔( عالمگیری)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button