شرعی سوالات

قرض پر نفع لینا حرام ہےاگرچہ صرف عرفاً معہود ہو

سوال :

میرے سسر صاحب نے مجھے 30لاکھ روپے قرض کے طور پر دئیے ،جس سے میں نے آئل ٹینکر خرید لیا اور پورے 30 دن بعد اس آئل ٹینکر کی رقم کا منافع تقریباً 30 ہزار روپے بنا، وہ میں نے سسر صاحب کو دے دیا ۔ اس طرح پھر 29 لاکھ روپے کا ٹینکر خریدا اور اس کے منافع سے 29 ہزار روپے دئیے ۔ان کی رقم کم زیادہ ہوتی رہتی ہے اور منافع بھی اسی کے اعتبار سے کم زیادہ ہوتا رہتا ہے ، کیا کاروبار کا یہ طریقہ جائز ہے؟  وضاحت : وہ ہمارے کاروباری شریک نہیں ہیں اور ان کی رقم بطور قرض ہوتی ہے ۔

جواب:

آپ کے بیان کے مطابق آپ کے سسر صاحب نے آپ کو دو مرتبہ بالترتیب تیس لاکھ روپے اور انتیس لاکھ روپے قرض دئیے اور آپ نے انہیں اس رقم کا منافع دونوں بار بالترتیب 30 ہزار روپے اور 29 ہزار روپے دئیے ۔ یہ شرعاً ناجائز ہے ، کیونکہ آپ نے لکھا ہے کہ اس رقم کے منافع میں سے آپ نے ان کو معہود یہ حصہ دیا ۔ یہ منافع خواہ آپ دونوں کے درمیان پہلے سے طے شدہ تھا یا ان کے ذہن میں معہود (Understood) تھا کہ ان کو منافع ملے گا اور آپ کے ذہن میں بھی تھا کہ آپ ان کو منافع دیں گے تو قرض پر یہ منافع سود ہے ۔

اس کا صحیح شرعی طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے ”سسر صاحب“ کے ساتھ ”عقد مضاربت“ کر لیں۔اس میں ایک فریق رب المال (Capital Provider) ہوتا ہے اور دوسرا مضارب ( Working Partner)۔ آپ نے جو صورت مسئلہ بیان کی ہے ، اس کے مطابق آپ کے سسر صاحب رب المال (Capital Provider) ہوں گے اور آپ مضارب ( Working Partner) ہوں گے ۔ اس میں آپ کی محنت ہو گی اور ان کا سرمایہ ہو گا اور یہ بھی پہلے سے طے کر لیں کہ اس رقم پر جو منافع آئے گا ، اس کو آپ دونوں پہلے سے طے شدہ تناسب ( مثلاً ہر ایک کو پچاس پچاس فیصد ملے گا یا ایک کو 60 فیصد اور دوسرے کو 40 فیصد یا جو بھی تناسب (Ratio) باہمی رضامندی سے طے ہو ) کے مطابق آپس میں تقسیم کریں گے ۔ اگر خدانخواستہ کوئی منافع نہ ملا تو دونوں کو کچھ نہیں ملے گا اور وہ ( آپ کے سسر صاحب) اپنی اصل رقم کے حق دار ہوں گے اور اگر خدانخواستہ نقصان ہوا تو وہ سارا نقصان ”رب المال‘‘ کا ہو گا اور مضارب اپنی محنت کے صلے سے محروم رہے گا۔ نقصان کی صورت میں حاصل شدہ کل نفع سے اس کی تلافی کی جائے گی ۔

ہاں ! اگر کسی مقام پر مضاربت کا کاروبار کرنے والوں میں یہ عرف و عادت رائج ہے کہ مضاربت کے کاروبار میں نقصان کی صورت میں رب المال اور مضارب دونوں مل کر نقصان برداشت کریں گے تو یہ صورت اس عرف کی بنا پر جائز ہے ۔ مگر اصل قیاس عدم جواز ہے اور جزئیات و مسائل عامہ کی بنا عرف و عادات تجار پر ہے جو صورت رسم و عادت تجار میں آ جائے وہ جائز ہے ، جب تک نص آیت وحدیث کی تصریح غیر ماؤل کے متصادم و متعارض نہ ہو ، کتب مذہب مہذ ب کی عبارات دیکھئے ، استدلالات مسائل میں : "من صنع التجار، من رسم التجار ،عادة التجار ، عرف التجار ، متعارف التجار، المعروف بین التجار ‘‘ ( کہ یہ تاجروں کا تعامل ،تاجروں کا دستور ہے ، تاجروں کا عرف ہے، کسی جگہ کے تاجروں کے مابین یہ طریقہ معروف ہے اور رائج ہے ) کے ہم معنی کلمات بار بار آتے رہتے ہیں ، جن سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ معاہدات کی بنا عرف و عادت پر ہے ، بلکہ خود فقہائے کرام نے تصریح کلیت عرف و عادت فرما دی ۔

(تفہیم المسائل، جلد8، صفحہ338،ضیا القران پبلی کیشنز، لاہور)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button