سوال:
ہندوستانی گورنمنٹ نے جنگ کے وقت دوہزار روپے قرض خزانہ درگاہ شریف سے لیا ۔وہ رقم تو اپنی جگہ موجود ہے ۔اس میں کچھ کمی نہیں لیکن علاوہ اصلی رقم قرضہ کے کچھ زائد روپیہ اضافہ ہوکر اضافی رقم کے ساتھ درگاہ شریف میں آیا کرتی ہے اور وہ خزانہ درگاہ شریف میں شامل ہوکر استعمال میں لائی جاتی ہے تو ایسا روپیہ شرعاً داخل سود ہے یا نہیں؟
جواب:
سود کے لیے یہ ضروری ہے کہ قرضہ دیتے وقت قرض دینے والے نے مقروض سے طے کرلیا ہو کہ جتنا دیا جاتا ہے اس سے زائد لیا جائے گا۔اور اگر اس وقت ایسا نہ ہوا اور مستقرض نے طور خود یہ سمجھ کر کہ اس نے ہماری ضرورت کے وقت رقم دے کر ہمارا کام چلا دیایا اس کو صاحب حاجت جان کر یاکسی دیگر وجہ سے کچھ زائد دیا تو یہ ربوٰا نہیں ہے،نہ اس پر رباء کی تعریف صادق۔رباء اگرچہ لغتۃ مطلقاً زیادت کو کہتے ہیں مگر شرعا ہرزیادت نہ ربا نہ حرام بلکہ ایک خاص قسم کی زیادتی کو کہتے ہیں اور اس کے لیے کچھ شرائط بھی ہیں کہ اگر وہ متحقق نہ ہوں تو شرعاً ربا نہیں۔اگرچہ زیادتی ایک جانب میں موجود ہے ۔یا ایک لپ گیہوں دولپ کے بدلے میں بیچے یہ بھی سود نہیں یا ایک معین پیسہ کو دو معین پیسوں کے بدلے میں خریدا مثلا یوں کہا کہ اس پیسہ لے بدلے میں وہ روپیہ خریدے ،یہ بھی سود نہیں۔باوجود یہ کہ ان صورتوں میں عقد معاوضہ یقیناً ہے اور ایک طرف سے زیادت بھی یقینا موجود ہے۔ بلکہ وہ زیادت عقد میں یقینا داخل ہے پھر بھی جائز ہے او ر سود نہیں تو معلوم ہوا کہ شرع مطہر نے اس کے تحقق کےلیے کوئی خاص معیار قرار دے رکھا ہےکہ اسی صورت میں ربا ہوگا اور حرمت کا حکم دیا جائے گا لہذا پہلے اس کی شرعی تعریف بیان کی جاتی ہے ،اسی سے معلوم ہوجائے گا کہ صورت مستفسرہ اس حد کے اندر داخل ہے یا نہیں اور حکم بھی وہیں سے واضح ہوجائے گا۔ درمختار میں ہے :ھو لغۃ مطلق الزیادۃ وشرعا فضل خال عن عوض بمعیار شرعی وھو الکیل والوزن مشروط ذالک الفضل لاحد المتعاقدین فی المعاوضۃ“یعنی عقد معاوضہ میں احد المتعاقدین کے لیے جو زیادتی ایسی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری جانب عوض نہ ہو اور اس کے لیے کوئی شرعی معیار بھی یعنی ناپ یا تول ہوتو سود ہے۔جب ان سب قیدوں کا تحقق ہوگا اسی وقت سود کہہ سکتے ہیں ورنہ نہیں ۔لہذا مقرض نے قرض دیتے وقت اگر زیادتی کا ذکر نہ کیا تو عقد میں زیادت متحقق نہ ہوئی۔اور سود نہ ہوا اگرچہ مستقرض بطور خود وہ چیز دے دی۔اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے فعل اور ارشاد سے بھی اس کا جواز ثابت ہے۔البتہ یہ زیادتی جو مدیون نے دی اور نفس عقد میں نہ تھی اگر حد شہرت کو پہنچی ہوکہ مدیون جس سے لیتا ہے اسے علاوہ دین کے بھی کچھ ضرور دیتا ہے تو ظاہر یہی ہے کہ اس نے جو اسے دیا یہی سمجھ کر دیا کہ زیادہ ملے گا تو اگرچہ ایسی زیادتی کا عقد میں ذکر نہ ہوا مگر المعروف کالمشروط کے تحت داخل ہوکر ناجائز ہوگی کہ کل قرض جر منفعۃ فھو الربا ۔ہاں اگر بوقت عقد دونوں میں سے ایک نے بھی زیادہ لینے یا دینے سے انکار کردیا اور بروقت ادا مستقرض نے زیادہ دیا تو حرام نہیں کہ ”الصریح یفوق الدلالۃ“یہاں تک کہ جو کچھ کہا گیا اس کا حکم ہے کہ جہاں سود ہوسکتا تھا اور چونکہ داخل عقد نہیں لہذ ا سود نہیں ۔بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خصوصیت عاقدین اسے ربا ہونے سے خارج کردیتی ہے اگرچہ زیادت نفس عقد میں مذکور ہو مثلا کافر حربی جو دارالاسلام میں امان لے کر نہ آیا ہو اس سے اگر اس قسم کا عقد کیا جائے جو دو مسلمان یا مسلم وذمی کے مابین ہوتا تو سود ہوتا ،اس کا فر حربی سے یہ عقد ربا نہیں ۔بظاہر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ربا ہے اور جائز ہے یہ ان کی غلطی ہے جب قرآن مجید میں مطلق وارد ہے کہ ”حرم الربوٰا“ تو ربا حلال کیونکر ہوسکتا ہے بلکہ حقیقت حال یہ ہے کہ یہ سود ہی نہیں جس کے لیے حکم حرمت ہواسی لیے حدیث میں ”لاربوٰا “فرمایا کہ یہ سود ہی نہیں نہ یہ کہ ”یجوز الربوٰا“ کہ سود تو ہے مگر جائزہے۔اور خود صاحب مذہب امام اعظم رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ سود نہیں ۔وبینھما بون بعید۔اب رہا یہ معاملہ کہ ہندوستان دارالحرب ہے یا دارالاسلام ۔اگر دارالحرب ہو جیسا کہ بعض نے کہا جب تومسئلہ صاف واضح ہے کہ حدیث اور امام اعظم رضی اللہ عنہ کا قول ہوتے ہوئے کلام کی کیا جگہ۔اور اگر دارالاسلام ہے اور یہی صحیح ومختار ہے کہ دارالاسلام ہونے کے بعد دارالحرب بننے کے لیے جو شرائط ہیں وہ یہاں مفقود ۔اس تقدیر پر یہ بات قابل غور ہے کہ دارالحرب میں ربا ہونے کی علت کیا ہے ؟اگر وہ علت یہاں موجود ہے تو یہاں بھِی ربانہیں۔کہ حکم علت کے ساتھ دائر ہوتا ہے اور اس کی علت ہم اپنےدل سے تراشیں تو کیوں مسموع ہو لہذ ا فقہاء کی طرف نظر منعطف کی جائےاور انھیں کے کلام سے استدلال کیا جائے یہی اولی وانسب ہے ،جب ان کے کلام میں اس حکم کی کوئی علت ملے تو اسی پر حکم کا مدار ہوگا اور ظاہر ہوجائے گا کہ ”فی دارالحرب“ کی قید اتفاقی ہے ۔مقصود صرف اتنا ہے کہ ذمی ومستامن سے ایسا عقد ربا ہے کہ ذمی کے لیے خود حدث کا نص صریح”لھم مالنا و علیھم ماعلینا“ان کو خمر وخنزیر کی بیع وشراء کے سوا تمام معاملات میں حکم مسلم میں قرار دیتا ہے اور مستامن کو چونکہ اتنے دنوں کے لیے امان دی گئی ہے لہذا اس زمانہ تک ذمی کے حکم میں ہے۔باقی بغیر امان اگر دارالاسلام میں گھس آئے تو اسے یہاں چھوڑ کب سکتے ہیں کہ لوگوں سے معاملہ خرید وفروخت ،اقراض واستقراض کرے کہ وہاں یہ سوال پیدا ہوسکے کہ سود ہوگا یا نہیں؟بلکہ اس کا مال شرعاً مباح ہے جو چاہے جس طرح چاہے لے سکتا ہے پھر کیسا سود اور کیسی حرمت اسی واسطے ردالمحتار میں فرمایا”قيد به لأنه لو دخل دارنا بأمان فباع منه مسلم درهما بدرهمين لا يجوز اتفاقا ط عن مسكين“اس سے بخوبی معلوم ہوا کہ امان کی وجہ سے اس کو معاملات میں وہی حقوق حاصل ہوجاتے ہیں جو ایک ذمی کے لیے ہیں۔اور اگر امان کے ساتھ اسکا آنا یا قیام کرنا نہ ہو تو وہ حربی محض ہوگا اور اس کے لیے دارالاسلام میں کوئی ایسی مراعات نہ ہوگی جو ذمی کے لیے ہے ۔مسلم وحربی میں ربا متحقق نہ ہونے کی علت یہ ہے کہ ربا کے لیے مال کا معصوم ہونا شرط ہے اور حربی کا مال دارالحرب میں معصوم نہیں لہذا غدر وعہد شکنی کے سوا جس طرح بھی ان کا مال حاصل ہومباح ہے ۔طحطاوی علی الدر میں ہے”شرط الربوٰا عصمۃ البدلین جمیعا“ اور یہ شرط مال حربی میں مفقود ۔ان کا مال دارالحرب میں مباح ہے۔مسلمان اس مال کو جس طرح لے ،مال مباح کو لینا ہوگا جب تک غدر نہ ہو ۔ثابت ہوا کہ مال مباح میں ربا اور حرمت کا تحقق نہیں ہوسکتاورنہ لازم آئے گا کہ مال مباح بھی ہو اور حرام بھی اور ان دونوں کا اجتماع نہیں ہوسکتا ۔بخلاف مستامن کے کہ اس کامال امان لینے کی وجہ سے ممنوع ہوجاتا ہیے ۔جب تک امان نہ ہو مباح ہوتا ہے اور اس میں ربوٰا کا تحقق نہیں ہوتا۔خلاصہ یہ کہ مسلمان جب دارالحرب میں گیا تو اسے کوئی ایسا فعل جائز نہیں جو عہد شکنی ہو اور اس کے علاوہ ان کی خوشی سے ان کا مال ہر طرح لے سکتا ہے اگرچہ کسی ایسے عقد کے ذریعہ سے ہو جو مال معصو م میں حرام ہو۔غرض یہ ہے کہ اصل علت عدم ربا کی اباحت مال ہے اب اگر فرض کیجئے کہ دارالاسلام میں کفار مقیم ہوں یا کفار کی حکومت ہوجائے تو مسلم کو ان سے عہد شکنی جائز نہ ہوگی اور ان کی خوشی ورضا مندی سے اگر کوئی مال ہمارے ہاتھ آئے اگرچہ کسی عقد فاسد کے ذریعہ سے ہو یا وہ اسے سود کہہ کر دیتے ہوں تو یہ حقیقۃ سود نہیں اور اس کا لینا جائز ہے اور اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مدار کار عصمت واباحت ہے دارالحرب کی قید ضروری نہیں لہذا اگر ایسی صورت دارالاسلام میں متحقق ہوجائے تو یہاں بھی جائز ۔جب حکم ایسے اکابر اجلہ کی تصریحات سے معلول ٹھہرا تو ضرور علت ہی کی طرف نظر ہوگی اور دارالاسلام میں بھی علت کے تحقق سے اخذ مال جائز ہوگا نیز اس سے بھی صریح تر درمختار اور اس کے متن تنویرالابصار کی عبارت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص دارالحرب میں مسلمان ہواور ابھِ تک اس نے ہجرت نہ کی ہو ااگر اس سے اس قسم کا عقد ہو تو وہ بھی ربا نہیں ۔جب مابین المسلمین ربا نہ ہوا کہ مال غیر معصوم ہے حالانکہ وہاں قید بین المسلم والحربی تھی تو غیر حربی میں بھی بوجہ علت متحقق نہ ہونے کے سود نہ ہوا تو غیر دارالحرب میں علت ربا کے عدم تحقق کی صورت میں ربا کیونکر ہوگا ۔اب رہا کہ یہ امر کہ ہندوستان کے کفار کس قسم کے ہیں تو یہ ظاہر ہے کہ ذمی نہیں ،جب تک اسلامی سلطنت تھی اس وقت تک بیشک ذمی تھے۔جب سلطنت گئی اس کے ساتھ ساتھ عہد وذمہ بھی رخصت ہوا ان کو ذمی کہنا ایسا ہی ہوگا کہ اندھے کو آنکھوں والا کہا جائے۔مستامن بھی نہیں کہ یہاں سکونت پزیر ہیں اور مستامن کے لیے ایک محدود زمانہ تک کی اقامت کی اجازت ملتی ہے نیز کسی بادشاہ اسلام نے انھیں امن نہ دیا کہ مستامن ہوں وہ تو ہندوستان سے مسلمانوں ہی کونکالنے کی فکر میں ہیں،پھر ہم انکو مستامن کہے جائیں،کیسی جہالت ہے۔جب یہ دونوں نہیں تو ضرور حربی ہیں ۔اگر حکومت کا خوف نہ ہوتا تو اپنی حربیت کا ظاہر ثبوت دے دیتے اور اب بھی جب موقعہ پاتے ہیں کیا اٹھا رکھتے ہیں ۔اپنے دوسرے ملک کے غیر وہ یہاں بطور حکومت ہیں یا ان کے ہم قدم ۔نہ وہ ہمارے ذمہ میں ہیں اور نہ ہماری امان میں ۔غرض ذمی یا مستامن کا وجود سلطنت اسلام سے وابستہ ہے اور جب سلطنت نہیں تونہ ذمی نہ مستامن لہذا غدر جائز نہیں اور ان کے اموال جو ان کی خوشی سے ہمیں ملیں لینا جائز ۔سلطنت یا کوئی بینک جس کے پاس روپیہ رکھا گیا اگر اصل سے زائد کر کے کچھ رقم دے اس کا لینا حلال وطیب اور تصریحات بالا سے ثابت کہ وہ ہرگزر سود نہیں ۔زیادہ سے زیادہ یہ کہ دینے والے اسے سود کہہ کر دیتے ہیں ان کے کہنے سے سود نہیں ہوسکتا کہ جو چیز سود نہ ہواسے سود کوئی کہہ دے تو سود نہ ہوگی ۔کیا بکری کو کسی نے سور کہدیا تو سور ہوجائے گی اور اس کا کھانا حرام ہوجائے گا ہرگز نہیں ۔ہاں لینے والے کو چاہیے کہ نہ اسے سودکہے نہ اسے سود سمجھے بلکہ ایک مال حلال تصور کرے کہ اسے سود سمجھ کر لینا گویا اپنے ذہن میں اپنے کو حرام کا مرتکب قرار دینا ہے اور فعل حلال کو بنیت حرام کرنا بھی گناہ ہے۔مسئلہ حاضرہ بہت بسط چاہتا ہے مگر انصاف پسند کو اتنا ہی کافی ہے ۔
(فتاوی امجدیہ، کتاب الرباء ،جلد3،صفحہ 212تا219،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)
(فتاوی امجدیہ، کتاب الرباء ،جلد3،صفحہ 219،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)
(فتاوی امجدیہ، کتاب الرباء ،جلد3،صفحہ 220،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)
(فتاوی امجدیہ، کتاب الرباء ،جلد3،صفحہ 227،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)
(فتاوی امجدیہ، کتاب الرباء ،جلد3،صفحہ 231تا235،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)