الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ میرابھائی میری والدہ کامحرم بن کرحج پرجاناچاہ رہاہے لیکن اس کی رقم فی الحال کہیں انویسٹ ہے تو کیاوہ ادھارلے کرحج کرسکتاہے ۔
(سائل : نعیم،گارڈن،کراچی)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں اپ کے بھائی اگرکسی بھی سال حج کے زمانے میں اتنے روپے کے مالک ہوئے تھے ،جن سے حج فرض ہوتاتھا اورفرضیت حج کی دیگرشرائط بھی پائی گئی تھیں یعنی عاقل بالغ
ہوناوغیرہ،لیکن اس کے باوجودانہوں نے حج نہ کیااوراب ان کے پاس اتنی رقم وغیرہ بھی نہیں کہ جس سے وہ حج کرسکیں تواس صورت میں ان پرلازم ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق قرض لے کرحج کریں ،اورنیت یہ رکھیں کہ میں یہ قرض اداکردوں گا،لیکن اگران پرحج فرض نہیں ہے یعنی وہ صاحب استطاعت نہیں ہیں اورنہ ہی پہلے کبھی ان پرحج فرض ہواہے پھربھی وہ حج کرنا چاہتے ہیں ،تووہ اس کیلئے قرض لے سکتے ہیں جبکہ وہ یہ سمجھتے ہوں کہ میں قرض لینے کے بعداسے اداکرسکوں گا ورنہ انہیں قرض لینے کی اجازت نہیں ہے ۔چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993ھ اورملاعلی قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں :
(ولو لم یحج)
ای من تحقق فی حقہ شروط الوجوب وقت خروج اھل بلدہ ولم یخرج (حتی افتقر) ای ھلک مالہ بحیث لم یقدر علی اداء الحج راکبا او ماشیا (تقرر) ای وجوب الحج (فی ذمتہ) ای دینا (ولا یسقط عنہ بالفقر) ای بحدوثہ (سواء ھلک المال) بنفسہ (او استھلکہ) وکذا الحکم اذا عرض لہ مانع من الاداء بنفسہ، کمن وجب علیہ الحج وھو بصیر ثم عمی ونحو ذلک، فانہ لا یسقط عنھم الحج ما لم یحجوا او احجوا (ولہ) ای ویجوز لھذا الفقیر (ان یستقرض للحج) ای لادائہ ویتوکل فی امر قضائہ، فعن محمدٍ انہ ان مات قبل ان یقضی دینہ ارجو ان لا یؤاخذ بذلک ولا یکون اثما، اذا کان من نیتہ قضاء الدین اذا قدر (وقیل : یلزمہ) ای الاستقراض، وھو روایۃ عن ابی یوسف، وضعفہ ظاھر، ولعلہ مقید بمن یجد الاستقراض، ومع ھذا لا یخلو عن اشکال، فان تحمل حقوق اللہ اخف من ثقل حمول حقوق العباد۔( )
یعنی،اگرکوئی اپنے شہروالوں کے حج کیلئے نکلنے کے وقت وجوب حج کی شرائط جمع ہونے کے باوجودحج نہ کیایہاں تک وہ فقیرہوجائے یعنی اس کااتنامال ہلاک ہوجائے کہ اب وہ سواری کے ذریعے یاپیدل حج کرنے کی قدرت نہ رکھے جب بھی اس کے ذمے حج کاوجوب باقی رہے گااوروہ محتاجی پیداہونے کے سبب ساقط نہیں ہوگاخواہ مال خودبخودہلاک ہوجائے یااسے ہلاک کیاہواوراسی طرح حکم ہے جب کسی کوخودحج کرنے سے کوئی رکاوٹ پیش اجائے جیسے کسی پراس حال میں حج واجب ہوجائے کہ وہ بیناہوپھروہ نابینا ہوجائے وغیرہ،توان سے حج ساقط نہیں ہوگاجب تک وہ حج نہ کرلیں یاکسی دوسرے سے حج نہ کروالیں ،اوراس فقیرکیلئے جائزہے کہ وہ حج کی ادائیگی کیلئے قرض لے اوروہ اسے واپس کرنے کے معاملے میں اللہ عزوجل پربھروسہ رکھے ،اورامام محمدعلیہ الرحمہ سے مروی ہے کہ اگروہ قرض کی ادائیگی سے پہلے فوت ہوگیاتومیں امید کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے مؤاخذہ نہیں فرمائے گااورنہ ہی وہ گنہگارہوگا جبکہ قرض ادا کرنے کی نیت ہونے کے ساتھ اسے اداکرنے پربھی قدرت رکھتاہو،اورایک قول یہ ہے کہ اسے قرض لینا لازم ہے اور یہ امام ابویوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اوراس قول کاضعف ظاہرہے اورشایدیہ اس کے ساتھ مقیدہے کہ جو قرض دینے والے کوپائے اورساتھ اس کے کہ یہ اشکال سے خالی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حقوق برداشت کرنے کامعاملہ بندوں کے حقوق اٹھانے کے بوجھ سے کم ہے ۔ اورعلامہ علاءالدین حصکفی حنفی متوی1088ھ لکھتے ہیں :
وقالوا : لو لم يحج حتى اتلف ماله وسعه ان يستقرض ويحج ولو غير قادرٍ على وفائه ويرجى ان لا يؤاخذه الله بذلك؛ اي لو ناويًا وفاءً اذا قدر كما قيده في ’’الظهيرية‘‘.( )
یعنی،فقہائے کرام نے فرمایاکہ حج فرض ہونے کے باوجودنہ کیایہاں تک اس کامال ختم ہوگیاتواس کیلئے جائزہے کہ وہ قرض لے کر حج کرے اگرچہ وہ اسے ادا کرنے پرقدرت نہ رکھتاہواورامیدہے کہ اللہ عزوجل اس پر مؤاخذہ نہ فرمائے یعنی جبکہ نیت یہ ہوکہ اللہ تعالیٰ قدرت دے گاتومیں اسے اداکردوں گاجیساکہ ’’ظہیریہ‘‘( )میں اس قیدکے ساتھ ہے ۔ اوراس کے تحت علامہ سیدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں :
قوله : (وسعه ان يستقرض الخ) اي جاز له ذلك وقيل يلزمه الاستقراض كما في ’’لباب المناسك‘‘ قال منلا على القاري في شرحه عليه : وهو رواية عن ابي يوسف، وضعفه ظاهر فان تحمل حقوق الله تعالى اخف من ثقل حقوق العباد اهـ.قلت : وهذا يرد على القول الاول ايضًا ان كان المراد بقوله : ولو غير قادرٍ على وفائه ان يعلم انه ليس له جهة وفاءٍ اصلًا، اما لو علم انه غير قادرٍ في الحال وغلب على ظنه انه لو اجتهد قدر على الوفاء فلا يرد. والظاهر ان هذا هو المراد اخذا مما ذكره في ’’الظهيرية‘‘ ايضًا في الزكاة حيث قال : ان لم يكن عنده مال واراد ان يستقرض لاداء الزكاة : فان كان في اكبر رايه انه اذا اجتهد بقضاء دينه قدر كان الافضل ان يستقرض فان استقرض وادى ولم يقدر على قضائه حتى مات يرجى ان يقضي الله تبارك وتعالى دينه في الاخرة وان كان اكبر رايه انه لو استقرض لا يقدر على قضائه له عدمه اهـ واذا كان هذا في الزكاة المتعلق بها حق الفقراء ففي الحج اولى. ( )
یعنی،اس کیلئے جائزہے کہ وہ قرض لے اورایک قول کے مطابق اس پرقرض لینالازم ہوگاجیساکہ’’لباب المناسک‘‘میں ہے ،ملاعلی قاری علیہ الرحمہ نے اس کی شرح میں فرمایا : یہ امام ابویوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اوراس کاضعف ظاہرہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حقوق اٹھانابندوں کے حقوق کے بوجھ سے خفیف ہیں ۔میں کہتاہوں کہ پہلے قول پربھی یہ اعتراض واردہوتاہے اگران کے قول’’ولو غیر قادرٍ علی وفائہ‘‘سے یہ مرادہوکہ اسے علم ہوکہ اصلاقرض کی ادائیگی کی کوئی صورت نہیں ،مگرجب علم ہوکہ وہ فی الحال قادرنہیں اوراس کاظن غالب یہ ہوکہ اگروہ کوشش کرے توادائیگی پرقادرہوجائے گاتواعتراض واردنہیں ہوگا۔اور ظاہریہ ہے کہ یہی مرادہے جبکہ اسے اس سے اخذکیاگیاہے جو’’ظہیریہ‘‘( ) کے ’’کتاب الزکوٰۃ ‘‘میں مذکورہے کیونکہ انہوں نے کہاہے کہ اگراس کے پاس مال نہ ہواوروہ زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے قرض لینے کاارادہ کرے تواگراس کی غالب رائے یہ ہوجب وہ قرض کی ادائیگی میں کوشش کرے گاتووہ قادر ہوجائے گاتوافضل یہ ہوگاکہ وہ قرض لے پھراگروہ قرض لے اورزکوٰۃ اداکردے اورقرض کی ادائیگی پرقادرنہ ہویہاں تک کہ مر جائے توامیدکی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کاقرض اخرت میں ادافرما دے گا، اور اگراس کی غالب رائے یہ ہوکہ وہ قرض لے گا تواس کی ادائیگی پرقادر نہیں ہوگاتوافضل یہ ہے کہ وہ قرض نہ لے ،اورجب یہ صورت زکوٰۃ میں ہے جس کے ساتھ فقراءکاحق متعلق ہے توحج میں بدرجہ اولیٰ اس طرح کرناصحیح ہوگا۔ اورایک مقام پرعلامہ شامی لکھتے ہیں :
لا يستقرض ليحج الا اذا قدر على الوفاء۔( )
یعنی،حج کرنے کیلئے قرض لے سکتاہے جبکہ وہ اسے اداکرنے پرقادرہو۔ اورامام ابویوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت پرہونے والے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے علامہ حسین بن محمدحنفی متوفی 1366ھ لکھتے ہیں :
قولہ )فان تحمل حقوق اللہ الخ) : اجیب بانہ انما یؤاخذ بحق العبد اذا اخذہ لغیر حاجۃ شرعیۃٍ، اما اذا اخذہ لھا ومن نیتہ الخلاص ومات قبل الاداء لا یؤاخذ بہ، ویعوض اللہ صاحب الحق بدل حقہ۔( )
یعنی،اس کاجواب یہ ہے کہ بندے کے حق کامؤاخذہ اس وقت ہوگاکہ جب اس نے اسے شرعی ضرورت کے بغیرلیاہولیکن جب اس نے اسے اداکرنے کی نیت سے لیااورپھروہ ادائیگی سے پہلے انتقال کرجائے ،تواس سے مؤاخذہ نہیں ہوگااوراللہ تعالیٰ اس کے عوض صاحب حق کواس کابدلہ عنایت فرمادے گا۔ اورصدرالشریعہ محمدامجدعلی اعظمی حنفی متوفی1367ھ لکھتے ہیں : مال موجودتھا اور حج نہ کیا پھر وہ مال تلف ہوگیا ،تو قرض لے کرجائے اگرچہ جانتا ہو کہ یہ قرض ادا نہ ہوگا مگر نیت یہ ہو کہ اﷲ تعالیٰ قدرت دے گا تو ادا کر دوں گا۔ پھر اگر ادانہ ہوسکا اور نیت ادا کی تھی تو امید ہے کہ مولیٰ عزوجل اس پر مؤاخذہ نہ فرمائے ۔( ) اورمفتی محمدوقارالدین قادری حنفی متوفی1413ھ لکھتے ہیں : اگرسائل کے والد بالغ ہونے کے بعدسے اب تک کسی سال بھی زمانہ حج میں اتنے روپے کے مالک ہوئے تھے ،جن سے حج فرض ہوتاتھااوردوسری شرائط فرضیت بھی پائی گئیں تھیں توان پرحج فرض تھااورجب ایک مرتبہ حج فرض ہوجاتاہے تواگرچہ مال فناہوجائے اوریہ فقیر ہوجائے ،جب بھی حج فرض ہی رہے گاتواس صورت میں اس پرفرض ہے کہ وہ قرض لے کرحج کرے اورنیت یہ رکھے کہ میں یہ قرض اداکردوں گاتواللہ تعالیٰ قرض کی ادائیگی کے ذرائع پیدا فرما دے گا۔( )
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب جمعرات،6/شعبان المعظم،1443ھ۔9/مارچ،2022م