ARTICLESشرعی سوالات

قربانی پر قدرت نہ رکھنے والے حاجی کے لئے روزہ کا حکم

استفتاء : ۔ ہم نے سُنا ہے کہ 9 ذی الحج کا روزہ حاجیوں کو مکروہ ہے جب کہ علماء اس شخص کے بارے میں حکم دیتے ہیں کہ جس پر قربانی لازم ہو اور وہ قربانی نہ کر سکے تو اُسے دس روزے یعنی تین حج میں اور سات بعد میں رکھنے ہوتے ہیں ، اس کے بارے میں علماء فرماتے ہیں افضل ہے کہ وہ تین روزے 7، 8، 9 تاریخ کو رکھے تو کیا یہاں پر کراہت لازم نہ ہو گی؟ اسی طرح 8 ذو الحج کے روزے کا حکم بھی بتائیں ۔

جواب

متعلقہ مضامین

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : اور یومِ ترویہ یعنی 8 ذوالحجہ کے روزے کا بھی وہی حکم ہے جو یومِ عرفہ کے روزے کا ہے جیسا کہ ’’حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب‘‘ (ص178) میں ہے ۔ اور ایام حج کے تین روزے یکم شوال سے نویں ذی الحجہ تک احرام باندھنے کے بعد اس درمیان میں حاجی جب چاہے رکھ سکتا ہے باقی رہا علماء کرام کا یہ لکھنا کہ افضل ہے کہ 7، 8 اور 9 کو رکھے یہ اس کے لئے افضل ہے جو طاقت رکھتا ہو کیونکہ فقہاء کرام نے یوم عرفہ اور یوم ترویہ کے روزے میں کراہت و عدم کراہت، استحباب اور عدم استحباب کی صورتیں ذکر کی ہیں اور اس سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا یعنی ساتھ یہ نہیں لکھا کہ اس قاعدے اور اصول میں وہ شخص داخل نہیں کہ جس پر ذبح پر قدرت نہ ہونے سے دس روزے لازم ہیں ۔ لہٰذا اس شخص کے لئے بھی اصول یہی ہے جو دوسروں کے لئے ہے ۔ جہاں تک 9 ذو الحجہ کے روزے کا سوال ہے تو اس کے لئے عرض یہ ہے کہ حاجی کے یومِ عرفہ کا روزہ مطلقاً مکروہ نہیں اگر روزے کی طاقت رکھتا ہو تو مکروہ نہیں ہے اور اگر کمزور ہے تو مکروہ ہے چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی یوم عرفہ کے مستحبات میں لکھتے ہیں :

و الصوم لمن قوی و الفطر للضعیف (132)

یعنی، قوی (طاقت ور) کے لئے روزہ مستحب ہے اور ضعیف کے لئے افطار۔ اور ملا علی قاری نقل کرتے ہیں کہ علامہ کرمانی فرماتے ہیں :

لا یکرہ للحاج الصوم فی یوم عرفۃ عندنا إلاّ إذا کان یضعفہ من أداء المناسک، فحینئذٍ ترکہ أولٰی (133)

یعنی، ہمارے نزدیک (یعنی احناف کے ہاں ) حاجی کے لئے یوم عرفہ کا روزہ مکروہ نہیں ہے مگر جب روزہ اُسے ادائیگی مناسک سے کمزور کر دے تو اس وقت ا س کا ترک اَولیٰ ہے ۔ اور بعض فقہاء کرام نے حاجی کے لئے اس دن کا روزہ مکروہ لکھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے انہوں نے غالب کا اعتبار کیا ہے کیونکہ اس زمانے میں غالب و اکثر یہی تھا کہ اس دن روزہ رکھنے کی وجہ سے حاجیوں کو مناسک کی ادائیگی میں مشکل پیش آتی تھی جس کا اندازہ پانچویں چھٹی صدی ہجری اور فی زمانہ کے حالات اور سہولتوں کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے چنانچہ ملا علی قاری ’’فتاویٰ خانیہ‘‘ میں مذکور قولِ کراہت ذکر کرتے ہوئے اس کا جواب دیتے ہیں :

و أمّا ما فی ’’الخانیۃ‘‘ : و یکرہ صوم یوم عرفۃ بعرفات، و کذا صوم یوم الترویۃ لأنہ یعجزہ عن أداء أفعال الحج فمبنی علی حکم الأغلب (134)

یعنی، مگر جو ’’خانیہ‘‘ میں ہے کہ یومِ عرفہ کا روزہ عرفات میں مکروہ ہے اور اسی طرح یوم ترویہ (8 ذوالحجہ) کا روزہ (مکروہ ہے ) کیونکہ وہ اُسے افعالِ حج کی ادائیگی سے عاجز کر دیتا ہے (ملا علی قاری اس قول کے جواب میں فرماتے ہیں کہ) یہ قول اَغْلَب حکم پر مبنی ہے ۔ لہٰذا عام حالات میں حاجی کے لئے اس دن کا روزہ مستحب ہے بشرطیکہ وہ بلا مشقّت اس پر قدرت رکھتا ہو اور یہ روزہ اس کے یومِ عرفہ کے معمولات پر اثر انداز نہ ہو چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

روزہ داشتن در حق کسی قدرت داشتہ باشد برآں بغیر مشقّت، چہ وارد شدہ است کہ ’’صوم عرفہ کفّارت دو سالہ است سال گزشتہ و سال آئندہ‘‘ کما رواہ مسلم عن أبی قتادۃ (135)

یعنی، روزہ رکھنا اس شخص کے حق میں (مستحب) ہے جو (اس پر) بغیر کسی مشقّت کے قدرت رکھتا ہو کیونکہ وارد ہے کہ ’’عرفہ کا روزہ دو سال (کے گناہوں ) کا کفّارہ ہے سال گزشتہ اور سال آئندہ ‘‘ جیسا کہ اس حدیث کو امام مسلم نے حضرت ابو قتادہ سے روایت کیا ہے ۔ اور کراہت کی صورت میں کراہت مطلقہ نہیں ہے بلکہ مقیدہ بالتنزیہ ہے چنانچہ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

و قد ثبت أنہ ﷺ أفطر یوم عرفۃ مع کمال القوۃ، إلا أنہ أراد دفع الحرج عن الأمۃ لکنہ لم ینہ أحداً من صومہ، فلا وجہ لکراہتہ علی الإطلاق، بل لا بل أن تتقیّد بالتنزیہ علی الوجہ المشروع فیما تقدّم، واللہ أعلم (136)

یعنی، نبی اسے ثابت ہے کہ آپ نے کمالِ قوت کے باوجود عرفہ کے روز افطار فرمایا، مگر (آپ کے افطار کی وجہ) یہ کہ آپ انے اُمّت سے حرج کو دفع کرنے کا ارادہ فرمایا، لیکن آپ نے کسی (حاجی) کو (اس دن) اس کے روزے سے منع نہیں فرمایا، تو علی الاطلاق کراہت کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ کراہت کو مشروع وجہ پر تنزیہ کے ساتھ مقید کیا جائے جو پہلے گزری۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :

و لہٰذا افطار فرمود پیغمبر خدا ا در روزہ عرفہ تعلیماً للجواز و دفعاً للحرج عن الأمّۃ (137)

یعنی، لہٰذا نبی انے جواز کی تعلیم اور اُمّت سے حرج کو دفع فرمانے کے لئے افطار فرمایا۔ اسی لئے فقہاء کرام نے قدرت نہ ہونے کی صورت میں اس روز ترکِ صوم کو مستحب لکھا ہے چنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں :

و فی ’’الفتح القدیر‘‘ إن کان یضعفہ عن الوقوف و الدعوات فا لمستحب ترکہ (138)

یعنی، اور ’’فتح القدیر‘‘ میں ہے کہ جب روزہ اُسے وقوفِ عرفہ اور وہاں دعاؤں سے کمزور کر دے تو اس کا ترک مستحب ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :

و أما کسی قدرت ندارد پس مستحب در حق او افطار است (139)

یعنی، اگر کسی کو قدرت نہ ہو تو اس کے حق میں افطار مستحب ہے ۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الثلاثاء، 8 رجب المرجب1428ھ، 24 یولیو 2007 م (416-F)

حوالہ جات

132۔ لباب المناسک ،باب الوضو بعرفۃ وأحکامہ، فصل فی شرائط صحۃ الوقوف….إلخ،ص140

133۔ المسلک المتقسط إلی المنسک المتوسط، باب الوقوف بعرفۃ وأحکامہ، فصل فی شرائط صحۃ الوقوف،تحت قولہ : والفطر للضعیف، ص293

134۔ المسلک المتقسط إلی المنسک المتوسط، باب الوقوف بعرفۃ وأحکامہ، فصل فی شرائط صحۃ الوقوف،تحت قولہ : والفطر للضعیف، ص293

135۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب ششم، فصل اول، ص178

136۔ المسلک المتقسط إلی المنسک المتوسط، باب الوقوف بعرفۃ وأحکامہ، فصل فی شرائط صحۃ الوقوف،تحت قولہ : والفطر للضعیف، ص293

137۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب ششم، فصل اول، ص178

138۔ المسلک المتقسط إلی المنسک المتوسط، باب الوقوف بعرفۃ وأحکامہ، فصل فی شرائط صحۃ الوقوف،تحت قولہ : والفطر للضعیف، ص293

139۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب ششم، فصل اول، ص178

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button