حدیث قدسی اگرچہ اللہ تعالی کا کلام ہے لیکن قرآن مجید اور حدیث قدسی میں فرق کئی لحاظ سے پایا جاتا ہے مثلاً:
- قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے لیا ہے، وہ تغیر و تبدل سے محفوظ ہے جبکہ حدیث قدسی کے متعلق ایسا وعدہ نہیں فرمایا۔
- قرآن پاک اپنے لفظ، معنی، اسلوب، ہر لحاظ سے معجزہ ہے۔ اس کی مثل کوئی نہیں بنا سکتا لیکن احادیث قدسیہ کا یہ معجزہ نہیں ہے۔ علامہ کرمانی لکھتے ہیں: ”فإن قلت: فهذا قول الله وكلامه فما الفرق بينه وبين القرآن؟ قلت: القرآن لفظه معجز ومنزل بواسطة جبريل وهذا غير معجز“ [1]
- قرآن پاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم پر حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے نازل ہوا جبکہ حدیث قدسی کبھی حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے[2] ، کبھی الہام کے ذریعے اور کبھی خواب میں نازل ہوئیں۔
- قرآن پاک لوح محفوظ پر لکھا ہوا ہے جبکہ احادیث قدسیہ کے متعلق ایسی کوئی صراحت نہیں ہے۔
- قرآن مجید ہم تک متواتراً[3] پہنچا ہے جبکہ حدیث قدسی متواتر بھی ہیں، مشہور بھی اور احاد[4] بھی۔
- قرآن پاک میں آیات اور سورتوں کے نام ہیں جبکہ احادیث قدسیہ میں ایسا نہیں ہے۔
- احادیث قدسیہ کو قرآن نہیں کہا جا سکتا۔
- احادیث قدسیہ کے جملوں کو آیت یا سورت نہیں کہا جا سکتا۔
- قرآن پاک کے ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیاں ملتی ہیں[5] جبکہ حدیث قدسی کے بارے میں ایسی بشارت نہیں ہے۔
- نماز میں قرآن پاک کی تلاوت ہی کی جا سکتی ہے، حدیث قدسی نہیں پڑھی جا سکتی۔ [6]
- قرآن پاک کو جنبی اور حائضہ وغیرہ نہ ہی چھو سکتے ہیں اور نہ ہی پڑھ سکتے ہیں جبکہ حدیث قدسی کو بے وضو و غسل چھونے اور پڑھنے سے گناہ ملنے کی صراحت نہیں ہے۔ [اگرچہ ادب کا تقاضا یہی ہے کہ وضو و غسل کر کے پڑھا اور چھوا جائے۔]
- بے وضو شخص کے لئے قرآن پاک کو چھونا حرام و گناہ ہے جبکہ حدیث قدسی کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔
- قرآن پاک کے کسی بھی حصے کا انکار کرنے سے بندہ کافر ہو جاتا ہے جبکہ حدیث قدسی کے انکار کرنے کے درج ذیل احکامات ہیں:
- متواتر حدیث قدسی کے انکار کرنے سے بھی بندہ کافر ہو جاتا ہے۔
- احاداحادیث قدسیہ کو حدیث سمجھتے ہوئے انکار کرنے سے بندہ گمراہ ہو جاتا ہے۔
- احاد احادیث قدسیہ کا اگر اس وجہ سے انکار کرے کہ وہ حدیث ہی نہیں ہے مثلاً کسی راوی میں اختلاف ہو تو اس بندے پر گمراہی کا حکم نہیں لگے گا۔
- حدیث قدسی کی پہلی دو تعریفات کے قائلین کے مطابق قرآن پاک کے الفاظ بھی اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ہیں جبکہ حدیث قدسی کے الفاظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اپنے ہیں البتہ آخری تین تعریفات کے مطابق اس حوالے سے قرآن پاک اور حدیث شریف میں کوئی فرق نہیں ہے۔
حوالہ جات:
[1] : الکوکب الدراری فی شرح صحیح بخاری،کتاب الصوم، جلد9، صفحہ 79، دار احیاء التراث العربی،بیروت
[2] : بعض علما کے نزدیک احادیث قدسیہ حضرت جبریل علیہ السلام کے واسطے کے بغیر نازل ہوئی ہیں۔
(الکوکب الدراری فی شرح صحیح بخاری،کتاب الصوم، جلد9، صفحہ 79، دار احیاء التراث العربی،بیروت)
[3] : یعنی قران پاک کی ہر ہر آیت کو نقل کرنے والے ہر زمانے میں اتنے زیادہ ہیں کہ ان سب کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہے۔
[4] : جن احادیث کو روایت کرنے والے چند افراد ہوں انہیں احاد کہا جاتا ہے۔
[5] : سنن الترمذی، کتاب فضائل القرآن، رقم الحدیث 2910
[6] : اگرچہ یہ اللہ تعالی کا کلام ہی ہے جیسے کہ تورات اور انجیل نہیں پڑھی جا سکتیں۔