بہار شریعت

قبر و دفن کے متعلق مسائل

قبر و دفن کے متعلق مسائل

مسئلہ ۱: میت کو دفن کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ جائز نہیں کہ میت کو زمین پر رکھ دیں اور چاروں طرف سے دیواریں قائم کر کے بند کر دیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۵، ردالمحتار ج ۱ ص ۸۳۵)

مسئلہ ۲: جس جگہ انتقال ہوا اس جگہ دفن نہ کریں کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کیلئے خاص ہے بلکہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں ، مقصد یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی خاص مدفن نہ بنایا جائے،میت بالغ ہو یا نابالغ۔ (درمختار،ردالمحتار ج ۱ ص ۷۳۶، ۷۳۷)

مسئلہ ۳: قبر کی لمبائی میت کے قد برابر ہو اور چوڑائی آدھے قد کی اور گہرائی کم سے کم نصف قد کی، اور بہتر یہ کہ گہرائی بھی قد برابر ہو اور متوسط درجہ یہ کہ سینہ تک ہو۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۸۳۵) اس سے مراد یہ کہ لحد، یا صندوق اتنا ہو، یہ نہیں کہ جہاں سے کھودنی شروع کی وہاں سے آخر تک یہ مقدار ہو۔

مسئلہ ۴: قبر دو قسم ہے لحد کہ قبر کھود کر اس میں قبلہ کی طرف میت کے رکھنے کی جگہ کھودیں اور صندوق وہ جو ہندوستان میں عموماً رائج ہے، لحد سنت ہے اگر زمین اس قابل ہو تو یہی کریں اور نرم زمین ہو تو صندوق میں حرج نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ص ۱۶۵)

مسئلہ ۵: قبر کے اندر چٹائی بچھانا ناجائز ہے کہ بے سبب مال ضائع کرنا ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۸۳۶)

مسئلہ ۶: تابوت کہ میت کو کسی لکڑی وغیرہ کے صندوق میں رکھ کر دفن کریں یہ مکروہ ہے مگر جب ضرورت ہو مثلاً زمین بہت تر ہے تو حرج نہیں اور اس صورت میں تابوت کے مصارف اس میں سے لئے جائیں جو میت نے مال چھوڑا ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۶، درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۸۳۶ وغیرہما)

مسئلہ ۷: اگر تابوت میں رکھکر دفن کریں تو سنت یہ ہے کہ اس میں مٹی بچھا دیں اور دہنے بائیں خام اینٹیں لگا دیں اور اوپر کہگل کر دیں غرض یہ کہ اندر کا حصہ مثل لحد کے ہو جائے ور لوہے کا تابوت مکروہ ہے اور قبر کی زمین نم ہو تو دھول بچھا دینا سنت ہے۔ (صغیری ج ۱ ص ۲۹۶،ردالمحتار ج ۱ ص ۸۳۶)

مسئلہ ۸: قبر کے اس حصہ میں کہ میت کے جسم سے قریب ہے پکی اینیٹ لگانا مکروہ ہے کہ اینٹ آگ سے پکتی ہے۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو آگ کے اثر سے بچائے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۶ وغیرہ)

مسئلہ ۹: قبر میں اترنے والے دو تین ہوں جو مناسب ہوں کوئی تعداد اس میں خاص نہیں اور بہتر یہ ہے کہ قوی و نیک دامن ہوں کہ کوئی بات نا مناسب دیکھیں تو لوگوں پر ظاہر نہ کریں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۶)

مسئلہ ۱۰: جنازہ قبر سے قبلہ کی جانب رکھنا مستحب ہے کہ مردہ قبلہ کی جانب سے قبر میں اتارا جائے یوں نہیں کہ قبر کی پائنتی رکھیں اور سر کیجانب سے قبر میں لائیں ۔ (درمختار ج ۱ ص ۸۳۶،۸۳۷ وغیرہ)

مسئلہ ۱۱: عورت کا جنازہ اتارنے والے محارم ہوں یہ نہ ہوں تو دیگر رشتہ والے یہ بھی نہ ہوں تو پرہیزگار اجنبی کے اتارنے میں مضائقہ نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۶)

مسئلہ۱۲: میت کو قبر میں رکھتے وقت یہ دعا پڑھیں :۔

بسم اللہ و باللہ علی ملۃ رسول اللہ

اور ایک روایت میں بسم اللہ کے بعد وفی سبیل اللہ بھی آیا ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۶، ردالمحتار ج ۱ ص ۸۳۷)

مسئلہ ۱۳: میت کو دہنی طرف کروٹ پر لٹائیں اور اس کا منہ قبلہ کو کریں اگر قبلہ کی طرف منہ کرنا بھول گئے تختہ لگانے کے بعد یاد آیا تو تختہ ہٹا کر قبلہ رو کر دیں اور مٹی دینے کے بعد یاد آیا تو نہیں یونہی اگر بائیں کروٹ پر رکھا یا جدھر سرہانا ہونا چاہیئے ادھر پائوں کر ے تو اگر مٹی دینے سے پہلے یاد آیا ٹھیک کر دیں ورنہ نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۶،۱۶۷ ، درمختار ،ر دالمحتار ج ۱ ص ۸۳۷)

مسئلہ ۱۴: قبرمیں رکھنے کے بعد کفن کی بندش کھول دیں کہ اب ضرورت نہیں اور نہ کھولی تو حرج نہیں ۔ (جوہرہ)

مسئلہ ۱۵: قبر میں رکھنے کے بعد لحد کو کچی اینٹوں سے بند کریں اورزمین نرم ہو تو تختے لگانا بھی جائز ہے تختوں کے درمیان جھری رہ گئی تو اسے ڈھیلے وغیرہ سے بند کر دیں صندوق کا بھی یہی حکم ہے۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۸۳۱)

مسئلہ ۱۶: عورت کاجنازہ ہو تو قبر میں اتارنے سے تختہ لگانے تک قبر کو کپڑے وغیرہ سے چھپائے رکھیں ، مرد کی قبر کو دفن کرتے وقت نہ چھپائیں البتہ مینہ وغیرہ کوئی عذر ہو تو چھپانا جائز ہے عورت کا جنازہ بھی ڈھکا رہے۔ (جوہرہ، درمختار ج ۱ ص ۸۳۸)

مسئلہ ۱۷: تختے لگانے کے بعد مٹی دی جائے مستحب یہ ہے کہ سرہانے کی طرف دونوں ہاتھوں سے تین بار مٹی ڈالیں پہلی بار کہیں :۔

منھا خلقنکم

(اسی سے ہم نے تم کو پیدا کیا)

دوسری بار:۔

وفیھا نعیدکم

(اور اسی میں تم کو لوٹائیں گے)

تیسری بار:۔

ومنھا نخرجکم تارۃً اخری

(اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے)

یا پہلی بار:۔

اللھم جاف الارض عن جنبیہ

(اے اللہ زمین کو اس کے دونوں پہلوئوں سے کشادہ کر)

دوسری بار:۔

اللھم افتح ابواب السمآئ لروحہٖ

(اے اللہ اس کی روح کے لئے آسمان کے دروازے کھول دے)

تیسری بار:۔

اللھم زوجہ من الحور العین

(اے اللہ حور عین کو اس کی زوجہ کر دے)

اور میت عورت ہو تو تیسری بار یہ کہیں :۔

اللھم ادخلھا الجنۃ برحمتک

(اے اللہ اپنی رحمت سے تو اس کو جنت میں داخل کر دے)

باقی مٹی ہاتھ یا کھرپی یا پھوڑے وغیرہ جس چیز سے ممکن ہو قبر میں ڈالیں اور جتنی مٹی قبر سے نکلی اس سے زیادہ ڈالنا مکروہ ہے۔ (شامی ج ۱ ص ۸۳۸، عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۶)

مسئلہ ۱۸: ہاتھ میں جو مٹی لگی ہے اس جھاڑ دیں یا دھو ڈالیں اختیار ہے۔

مسئلہ ۱۹: قبر چوکھونٹی نہ بنائیں بلکہ اس میں ڈھال رکھیں جیسے اونٹ کا کوہان اور اس پر پانی چھڑکنے میں حرج نہیں بلکہ بہتر ہے اور قبر ایک بالشت اونچی ہو یا کچھ خفیف زیادہ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۶)

مسئلہ ۲۰: جہاز پر انتقال ہوا اورکنارہ قریب نہ ہو تو غسل و کفن دے کر نماز پڑھ کر سمندر میں ڈبو دیں ۔ (غنیہ ج ۱ ص ۱۶۶،ردالمحتارج ۱ ص ۸۳۶)

مسئلہ ۲۱: علماء و سادات کی قبور پر قبہ وغیرہ بنانے میں حرج نہیں اورقبر کو پختہ نہ کیا جائے۔ (درمختار ، ردالمحتار ج ۱ ص ۸۳۹) یعنی اندر سے پختہ نہ کی جائے اور اگر اندر خام ہو اوپر سے پختہ تو حرج نہیں ۔

مسئلہ ۲۲: اگر ضرورت ہو تو قبر پر نشان کے لئے کچھ لکھ سکتے ہیں مگر ایسی جگہ نہ لکھیں کہ بے ادبی ہو ایسے مقبرہ میں دفن کرنا بہتر ہے جہاں صالحین کی قبریں ہوں ۔ (جوہرہ، درمختار ج ۱ ص ۸۳۹)

مسئلہ۲۳: مستحب یہ ہے کہ دفن کے بعد قبر پر سورۂ بقرہ کا اول و آخر پڑھیں سرہانے الم سے مفلحون تک اور پائنتی امن الرسول سے ختم سورت تک پڑھیں ، (شامی ج ۱ ص ۸۳۸)

مسئلہ ۲۴: دفن کے بعد قبر کے پاس اتنی دیر تک ٹھہرنا مستحب ہے جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے گوشت تقسیم کر دیا جائے کہ ان کے رہنے سے میت کو انس ہو گا اور نکیرین کا جواب دینے میں وحشت نہ ہو گی اور اتنی دیر تک تلاوت قرآن اور میت کے لئے دعا و استغفار کریں اور یہ دعا کریں کہ سوال نکیریں کے جواب میں ثابت قدم رہے۔ (شامی ج ۱ ص ۸۳۸ وغیرہا)

مسئلہ ۲۵: ایک قبر میں ایک سے زیادہ بلا ضرورت دفن نہ کرنا جائز نہیں اور ضرورت ہو تو کر سکتے ہیں مگر دو میتوں کے درمیان مٹی وغیرہ سے آڑ کر دیں اور کون آگے ہو کون پیچھے یہ اوپر مذکور ہوا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۶)

مسئلہ ۲۶: جس شہر یا گائوں وغیرہ میں انتقال ہوا وہیں کے قبرستان میں دفن کرنا مستحب ہے اگرچہ

وہاں نہ رہتا ہو بلکہ جس گھر میں انتقال ہوا اس گھر والوں کے قبرستان میں دفن کریں اور دو ایک میل باہر لے جانے میں حرج نہیں کہ شہر کے قبرستان اکثر فاصلے پر ہوتے ہیں اور اگر دوسرے شہر کو اس کی لاش اٹھا لے جائیں تو اکثر علماء نے منع فرمایا اور یہی صحیح ہے، یہ اس صورت میں ہے کہ دفن سے پیشتر لے جانا چاہیں اور دفن کے بعد تو مطلقاً نقل کرنا ممنوع ہے سوا بعض صورتوں کے جو مذکور ہوں گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۷) اور یہ جو بعض لوگوں کا طریقہ ہے کہ زمین کو سپرد کرتے ہیں پر وہاں سے نکال کر دوسری جگہ دفن کرتے ہیں یہ ناجائز ہے اور رافضیوں کا طریقہ ہے۔

مسئلہ ۲۷: دوسرے کی زمین میں بلا اجازت مالک دفن کر دیا تو مالک کو اختیار ہے خواہ اولیائے میت سے کہے اپنا مردہ نکال لو، یا زمین برابر کر کے اس میں کھیتی کرے اگر یونہی وہ زمین شفعہ میں لے لی گئی یا غصب کئے ہوئے کپڑے کا کفن دیا تو مالک مردہ نکلوا سکتا ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۷، ردالمحتار ج ۱ ص ۸۴۰،۸۳۹)

مسئلہ ۲۸: وقفی قبرستان میں کسی نے قبر تیار کرائی اس میں دوسرے لوگ اپنا مردہ دفن کرنا چاہتے ہیں اور قبرستان میں جگہ ہے تو مکروہ ہے اور اگر دفن کر دیا تو قبر کھودوانے والا مردہ کو نہیں نکلوا سکتا جو خرچ ہوا ہے لے لے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۶،درمختار ج ۱ ص ۸۴۰)

مسئلہ ۲۹: عورت کو کسی وارث نے زیور سمیت دفن کر دیا اور بعض ورثاء موجود نہ تھے ان ورثاء کو قبر کھودنے کی اجازت ہے کسی کا کچھ مال قبر میں گر گیا مٹی دینے کے بعد یاد آیا تو قبر کھود کر نکال سکتے ہیں اگرچہ وہ ایک ہی درہم ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۷، ردالمحتار ج ۱ ص ۸۳۹)

مسئلہ ۳۰: اپنے لئے کفن تیار رکھے تو حرج نہیں اور قبر کھودوا رکھنا بے معنی کیا معلوم کہاں مرے گا۔ (درمختار ج ۱ ص ۸۴۶)

مسئلہ ۳۱: قبر پر بیٹھنا سونا چلنا پاخانہ پیشاب کرنا حرام ہے قبرستان میں جو نیا راستہ نکالا گیا اس سے گزرنا ناجائز ہے خواہ نیا ہونا اسے معلوم ہو یا اس کا گمان ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۶، درمختار ج ۱ ص ۸۴۶)

مسئلہ ۳۲: اپنے کسی رشتہ دار کی قبر تک جانا چاہتا ہے مگر قبروں میں گزرنا پڑے گا تو وہاں تک جانا منع ہے دور ہی فاتحہ پڑھ دے۔ (شامی ج ۱ ص ۸۴۶) قبرستان میں جوتیاں پہن کر نہ جائے ایک شخص کو حضور اقدس ﷺ نے جوتے پہنا دیکھا تو فرمایا جوتے اتار دے نہ قبر والے کو تو ایذا دے نہ وہ تجھے۔

مسئلہ ۳۳: قبر پر قرآن پڑھنے کے لئے حافظ مقرر کرنا جائز ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۸۴۷) یعنی جب کہ پڑھنے والے اجرت پر نہ پڑھتے ہوں کہ اجرت پر قرآن مجید پڑھنا اورپڑھوانا ناجائز ہے اگر اجرت پر پڑھوانا چاہے تو اپنے کام کاج کے لئے نوکر رکھے پھر یہ کام لے۔

مسئلہ ۳۴: شجرہ یا عہد نامہ قبر میں رکھنا جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ میت کے منہ کے سامنے قبلہ کی جانب طاق کھود کر اس میں رکھیں بلکہ درمختار میں عہد نامہ لکھنے کو جائز کہا ہے اور فرمایا کہ اس سے مغفرت کی امید ہے اور میت کے سینہ اور پیشانی پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا جائز ہے۔ ایک شخص نے اس کی وصیت کی تھی انتقال کے بعد سینہ اور پیشانی پر بسم اللہ شریف لکھ دی گئی پھر کسی نے انہیں خواب میں دیکھا حال پوچھا کہا جب میں قبر میں رکھا گیا،عذاب کے فرشتے آئے فرشتوں نے جب پیشانی پر بسم اللہ شریف دیکھی تو کہاعذاب سے بچ گیا۔ (درمختار ج ۱ ص ۸۴۷، غنیہ، عن التاتار خانیہ)یوں بھی ہو سکتا ہے کہ پیشاانی پر بسم اللہ شریف لکھیں اور سینہ پر کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمدٌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مگر نہلانے کے بعد کفن پہنانے سے پیشتر کلمہ کی انگلی سے لکھیں روشنائی سے نہ لکھیں ۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۸۴۷،۸۴۸)

مسئلہ ۳۵: زیارت قبور مستحب ہے ہر ہفتہ میں ایک دن زیارت کرے،جمعہ یا جمعرات یا ہفتہ یا پیر کے دن مناسب ہے سب سے افضل روز جمعہ وقت صبح ہے۔ اولیائے کرام کے مزارات طیبہ پر سفر کر کے جانا جائز ہے وہ اپنے زائر کو نفع پہنچاتے ہیں اور اگر وہان کوئی منکر شرعی ہو مثلاً عورتوں سے اختلاط تو اس کی وجہ سے زیارت ترک نہ کی جائے کہ ایسی باتوں سے نیک کام ترک نہیں کیا جاتا بلکہ اسے برا جانے اور ممکن ہو تو بری بات زائل کرے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۸۴۳)

مسئلہ ۳۶: عورتوں کے لئے بعض علماء نے زیارت قبور کو جائز بتایا، درمختار میں یہی قول اختیار کیا، مگر عزیزوں کی قبور پر جائیں گی تو جزع و فزع کریں گی۔لہذا ممنوع ہے اور صالحین کی قبور پر برکت کے لئے جائیں تو بوڑھیوں کے لئے حرج نہیں اور جوانوں کے لئے ممنوع۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۸۴۳) اور اسلم یہ ہے کہ عورتیں مطلقاً منع کی جائیں کہ اپنوں کی قبور کی زیارت میں تو وہی جزع و فزع ہے اور صالحین کی قبور پر یا تعظیم میں حد سے گزر جائیں گی یا بے ادبی کریں گی تو عورتوں میں یہ دونوں باتیں کثرت سے پائی جاتی ہیں ۔ (فتاوی رضویہ)

مسئلہ ۳۷: زیارت قبور کا طریقہ یہ ہے کہ پائنتی کی جانب سے جا کر میت کے منہ کے سامنے کھڑا ہو سرہانے سے نہ آئے کہ میت کے لئے باعث تکلیف ہے یعنی میت کو گردن پھیر کر دیکھنا پڑے گا کہ کون آتا ہے اور یہ کہے:۔

السلام علیکم اھل دار قومٍ مؤمنین انتم لنا سلفٌ و انا انشائ اللہ بکم لاحقون نسال اللہ لنا ولکم العفو والعافیۃ یرحم اللہ المستقدمین منا والمستاخرین اللھم رب الارواح الفانیۃ والاجساد والبالیۃ والعظام النخرۃ ادخل ھذہ القبور منک روحًا وریحانًا ومنا تحیۃً وسلامًا

(سلام ہو تم پر اے قوم مومنین کے گھر والو، تم ہماے اگلے ہو اور ہم انشاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں اللہ سے ہم اپنے اور تمہارے لئے عفو و عافیت کا سوال کرتے ہیں اللہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں پر رحم کرے، اے اللہ رب، فانی روحوں اور جسم گل جانے والے اور بوسیدہ ہڈیوں کے، تو اپنی طرف سے ان قبروں میں تازگی اور خوشبو داخل کر اور ہماری طرف سے تحیت و سلام پہنچا دے)

پھر فاتحہ پڑھے اور بیٹھنا چاہے تو اتنے فاصلہ سے بیٹھے کہ اس کے پاس زندگی میں نزدیک یا دور جتنے فاصلہ پر بیٹھ سکتا تھا۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۸۴۴،۸۴۳)

مسئلہ ۳۸: قبرستان میں جائے تو الحمد شریف اور الم سے مفلحون تک اور آیۃ الکرسی اور امن الرسول سے آخر سورۃ تک اور سورۂ یسین اور تبارک الذی اور الھکم التکاثر ایک ایک بار اور قل ھو اللہ بارہ یا گیارہ یا سات یا تین بار پڑھے ان سب کا ثواب مردوں کو پہنچائے حدیث میں ہے جو گیارہ بار قل ھو اللہ شریف پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو پہنچائے تو مردوں کی گنتی برابر اسے ثواب ملے گا۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۸۴۴)

مسئلہ ۳۹: نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور ہر قسم کی عبادت اور ہر عمل نیک فرض و نفل کا ثواب مردوں کو پہنچا سکتا ہے ان سب کو پہنچے گا اور اس کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی بلکہ اس کی رحمت سے امید ہے کہ سب کو پورا ملے یہ نہیں کہ اسی ثواب کی تقسیم ہو کر ٹکڑا ٹکڑا ملے۔ (ردالمحتار ج۱ ص ۸۴۴) بلکہ یہ امید ہے کہ اس ثواب پہنچانے والے کے لئے ان سب کے مجموعے کے برابر ملے مثلاً کوئی نیک کام کیا جس کا ثواب کم از کم دس ملے گا اس نے دس مردوں کو تو ہر ایک کو دس ملیں گے اور اس کو ایک سو دس اور ہزار کو پہنچایا تو اسے دس ہزار وعلی ہذا القیاس (فتاوی رضویہ)

مسئلہ ۴۰: نابالغ نے کچھ پڑھ کر یا کوئی نیک عمل کر کے اس کا ثواب مردہ کو پہنچایا تو انشاء اللہ پہنچے گا۔ (فتاوی رضویہ)

مسئلہ ۴۱: قبر کو بوسہ دینا بعض علماء نے جائز کہا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ منع ہے۔ (اشعۃ اللمعات) اور قبر کا طواف تعظیمی منع ہے اور اگر برکت لینے کے لئے گرد مزار پھرا تو حرج نہیں مگر عوام منع کئے جائیں بلکہ عوام کے سامنے کیا بھی نہ جائے کہ کچھ کا کچھ سمجھیں گے۔

مسئلہ ۴۲: دفن کے بعد مردہ کو تلقین کرنا اہل سنت کے نزدیک مشروع ہے (جوہرہ) یہ جو اکثر کتابوں میں ہے کہ تلقین نہ کی جائے یہ معتزلہ کا مذہب ہے کہ انہوں نے ہماری کتابوں میں یہ اضافہ کر دیا۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۷۹۷) حدیث میں ہے حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی مرے اور اس کی مٹی دے چکو تو تم میں ایک شخص قبر کے سرہانے کھڑا ہو کر کہے یا فلاں بن فلانۃ وہ سنے گا اور جواب نہ دے گا پھر کہے یا فلاں بن فلانۃ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ جائے گا پھر کہے فلاں بن فلانۃ وہ کہے گا ہمیں ارشاد کر اللہ تجھ پر رحم فرمائے گا مگر تمہیں اس کے کہنے کی خبر نہیں ہوتی پھر کہے:۔

اذکر ما خرجت من الدنیا شھادۃ ان لا الہ الا اللہ وان محمدًا عبدہ‘ ورسولہ‘ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وانک رضیت باللہ رباوبالاسلام دینًا و بمحمدٍ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نبیا وبالقران امامًا

(تو اسے یاد کر جس پر تو دنیا سے نکلا یعنی یہ گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ تو اللہ کے رب اور اسلام کے دین اور محمد ﷺ کے نبی اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا)

نکیرین ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کرکہیں گے چلو ہم اس کے پاس کیا بیٹھیں جسے اس کی حجت سکھا چکے اس پر کسی نے حضور سے عرض کی اگر اس کی ماں کا نام معلوم نہ ہو فرمایا حوا کی طرف نسبت کرے رواہ الطبرانی فی الکبیر والضیاء فی الاحکام وغیرھما بعض اجلۂ ائمہ تابعین فرماتے ہیں جب قبر میں مٹی برابر کر چکیں اور لوگ واپس ہو جائیں تو مستحب سمجھا جاتا کہ میت سے اس کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر یہ کہا جائے:۔

یا فلاں بن فلاں قل لا الہ الا اللہ

(فلاں بن فلاں تو کہہ کے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں )

تین بار کہا جائے :۔

قل ربی اللہ ودینی الاسلام ونبی محمدٌ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

(تو کہہ میرا رب اللہ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمدﷺ ہیں )

اعلی حضرت قبلہ نے اس پر اتنا اور اضافہ کیا:۔

و اعلم ان ھذین الذین اتیاک اویأ تیانک انما ھما عبدان للہ لا یضران ولا ینفعان الا باذن اللہ فلا تخف ولا تحزن واشھد ان ربک اللہ ودینک الاسلام ونبیک محمدٌ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ثبتنا اللہ وایاک بالقول الثابت فی الحیوۃ الدنیا وفی الاخرۃ انہ‘ ھو الغفور الرحیم

(اور جان لے کہ یہ دو شخص جو تیرے پاس آئے یا آئیں گے یہ اللہ کے بندے ہیں بغیر خدا کے حکم نہ ضرر پہنچائیں نہ نفع پس نہ خوف کر نہ غم کر اور تو گواہی دے کہ تیرا رب اللہ ہے اور تیرا دین اسلام ہے اور تیرے نبی محمد ﷺ ہیں اللہ ہم کو اور تجھ کو قول ثابت پر ثابت رکھے دنیا کی زندگی اور آخرت میں بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے)

مسئلہ ۴۳: قبر پر پھول ڈالنا بہتر ہے کہ جب تک تر رہیں گے تسبیح کرینگے اور میت کا دل بہلے گا۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۸۴۶) یونہی جنازہ پر پھولوں کی چادر ڈالنے میں حرج نہیں ۔

مسئلہ ۴۴: قبر پر سے تر گھاس نوچنا نہ چاہیے کہ اس کی تسبیح سے رحمت اترتی ہے اور میت کو انس ہوتا ہے اور نوچنے میں میت کا حق ضائع کرنا ہے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۸۴۶)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button