قاعدہ اليقين لا يزول بالشک: شکوک وشبہات سے یقین میں کچھ فرق نہیں آتا
یہ پانچ بڑے قواعد میں تیسرا قاعدہ ہے, اور یہ ایک عظیم فقہی قاعدہ ہے اور بلا استثناء یہ تمام فقہی ابواب کے مسائل کو شامل ہے امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : یہ قاعدہ تمام فقہی ابواب کو شامل ہے اور فقہکے تین چوتھائی مسائل اس کے تحت داخل ہے .
قاعدى کے مفردات کے معانی:
الیقین:
لغت میں اس علم وآگہی کو کہتے ہیں جس میں شک وشبہ کا شائبہ نہ ہو اللہ تعالى فرما تا ہے: [النمل: ١٤] یعنی :انہوں نے [ نشان الہی کو] ظلم اور غرور کی بنا پر ٹھکرا دیا حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے یعنی علم یقین کیساتھ جان گئے تھے جس میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں تھا.
اصولیین کی اصطلاح میں:
وہ اعتقاد جازم جو وجود اور عدم دونوں صورت میں واقع کے مطابق ہو.
فقہاء کی اصطلاح میں:
جو جزم یا ظن غالب سے ثابت ہو .
دونوں تعریف میں فرق:
مذکورہ دونوں تعریف کی بنیاد پر ظن غالب کو اصولیین کے یہاں یقین نہیں کہتے ہیں جبکہ فقہاء کے توسع ہے چنانچہ وہ جزم او ر ظن غالب دونوں کو یقین مانتے ہیں.
یزول:
زائل ہو نا, ختم ہو نا , ناپید ہونا , غائب ہونا . وغیرہ .
الشک:
شک یقین کا بر عکس ہے کیونکہ یقین اور شک دونوں کسی معاملہ ایکجا نہیں ہوتا ہے اور لغت میں اس کئی معانی ہیں :
- دو چیزوں کے درمیان تردد کہتے ہیں تردد فی وجود زید :یعنی مجھے زید کے وجود اور عدم وجود میں تردد اور شک ہے۔
- التباس : یعنی ابہام واشبتاہ کہتے ہیں : شک فی کذا یعنی اس میں اسکو التباس واشتباہ ہو گیا.
- ضم او ر تداخل: یعنی ملانااور داخل کرنا کہتے شکت علیہا ثیابہا اس اپنے کپڑے کو سمیٹ لیا.اور کہتے شککتہ بالدبوس میں نے اس کے جسم میں کانٹا چبھایا.
اور اصطلاح میں فقہاء اور اصولیین کے یہاں اس کی تعریف میں فرق ہے .
شک فقہاء کی اصطلاح میں:
مطلق تردد کو شک کہتے ہیں چائے تردد کے دونوں جانب برابر ہو یا ایک جانب راجح ہو غالب نہ ہو.
شک اصولیین کی اصطلاح میں:
جس کا دونوں جانب تردد میں برابر ہو ,اور اگر تردد کا کوئی ایک جانب راجح ہو غالب نہ ہو اس ان کے یہاں ظن کہتے ہیں.
ادراک وفہم کے اقسام:
أصولیوں نے علم وادراک کی پانچ قسمیں بتائی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں :
- یقین : وہ جازم اعتقاد جو وجود اور عدم دونوں صورت میں واقع کے مطابق ہو , یا وہ جازم اعتقاد جس میں ذرہ برابر تردد اور شبہ نہ ہو.
- ظن غالب: دو یا دو سے زائد احتمال کا ایسا راجح پہلو جو دوسرا پہلوں کو ساقط اور معدوم کردے. جس اس کو فقہاء کے یہاں یقین کہا جاتا ہے.
- ظن : دو یا دو سے زائد احتمال کا ایسا راجح پہلو جو دوسرا پہلوں کو ساقط اور معدوم نہ کردے.
- شک : کسی چیز کا دو یا دو سے زائد احتمال میں برابری کیساتھ متردد ہونا.
- وہم: دو یا دو سے زائد احتمال کا مرجوح پہلو .
ان مذکورہ پانچ اقسام کو فقہاء اور اصولیین دو حصے میں تقسیم کرتے ہیں یقین اور شک .
خلاصہ یہ ہے کہ
- جس کو اصولیین یقین کہتے ہیں اس کو فقہاء بھی یقین کہتے ہیں .
- جو اصولیوں کے یہاں شک ہے وہ فقہاء کے یہاں بھی شک ہے.
- جو اصولیوں کے یہاں ظن غالب ہے وہ فقہاء کے یہاں یقین ہے .
- جو اصولیوں کے یہاں ظن ہے اسکو فقہاء شک کہتے ہیں.
- جس کو اصولیین وہم کہتے ہیں اسکو فقہاء شک کہتے ہیں.
قاعدہ کا اجمالی معنى:
جب انسان کو کسی چیز کے وجود یا وقوع پر یقین ہو پھر اس کے خلاف اس پر شکوک وشبہات کا یلغار ہو یا اس کے برعکس کسی کو کسی چیز کے عدم وجود یا عدم وقوع پر یقین ہو پھر اس پر وقوع پزیر یا وجودگی پر شکوک وشبہات کا وار ہو تو حکم یقین کا ہوگا اور شکوک وشبہات کا کوئی اعتبار نہ ہو گا.
اس قاعدہ کی دلیل:
علماء کرام نے قرآن اور حدیث اور اجماع امت سے اس قاعدہ کیلئے استدلا ل کیا ہے .
- اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا : يونس: ٣٦ یعنی : ان میں سے اکثر لوگ صرف وہم وگمان پر چل رہے ہیں یقینا وہم وگمان حق کی معرفت میں کچھ بھی کام نہیں آتا.
- بخاری اور مسلم کی روایت ہے : ایک آدمی نے آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ نماز کی حالت میں اسکو ایسا وسوسہ آتا جیسے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا تو اب وہ کیا کرے ؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نماز نہیں چھوڑے گا یہاں تک کہ وہ ہوا خارج ہونے کی آواز سنے یا اس کو اسکی بدبو ملے.
- آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی کو نماز میں شک ہو جائے کہ آیا اس نے تین رکعت پڑھی ہے یا چار رکعت تو وہ شک کو چھوڑ دے اور یقین پر بنا کرے اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدہ کرلے .
- علماء کرام کا اجماع ہے کہ شک سے یقین میں کچھ فرق نہیں آتا.
قاعدہ اليقين لا يزول بالشک: کی مثالیں
اس قاعدہ کے تحت بہت سارے فقہی مسائل آتے ہیں ان میں سے ذیل میں کچھ ذکر کیا جاتاہے .
- ایک شخص نے وضوء کرکے عصر کی نماز پڑھی پھر نماز مغرب وقت ہو گیا اب وہ نماز پڑھنا چاہتا ہے لیکن اس کو شک ہے کہ میرا وضوءباقی ہے یا نہیں ہے تو اسی صورت میں ہم کہیں گے کہ نماز پڑھ لو کیونکہ تم نے عصر کے وقت وضو کیا تھا اور یہ یقینی بات ہے اور اس کے بعد تمہارا وضوء ٹوٹا یا نہیں یہ شک ہے اور شک سے یقین میں کچھ فرق نہیں آتا
- کوئی شخص کو یہ شک ہو کہ آیا اسوقت فجر طلوع ہو ا یا نہیں پھر اس نے سحری کر لیا تو اس کا روزہ صحیح ہے کیونکہ رات کا باقی رہنا یہ یقین ہے اور فجر کا طلوع ہونا یہ شک ہے .
- کسی اگر اپنے نکاح کا یقین ہو اور طلاق میں شک ہو تو اسکا نکاح باقی ہے .
- کسی کو خانہ کعبہ کے طواف میں شک ہو جائے کہ میں نے سات چکر لگائی ہے یا چھ تو چھ پر بنا کرے کیونکہ چھ یقین ہے اور سات میں شک ہے.
- کوئی حمام میں قضاء جاحت کیلئے جاتا ہے اور اس کو یقین ہے کہ میر ے کپڑے پاک ہے اب جب حمام سے باہر آیا تو اسکو شک ہوگیا کہ میرے کپڑے میں کہیں پیشاب تو نہیں لگ گیا ہے تو ہم کہیں کہ تمہارا کپڑا پاک ہے اطمئنان سے نماز پڑھو کیونکہ کپڑے کی پاکی یہ یقین ہے اور قطرئے پیشاک کا لگنا یہ شک ہے.وغیرہ.