استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہم میاں بیوی نے کراچی سے قران کا احرام باندھا او رآٹھ ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے جب کہ حاجی منیٰ روانہ ہو چکے تھے ہم نے صرف عمرہ کا طواف کیا اور سعی کئے بغیر منیٰ روانہ ہو گئے ہم نے طوافِ قُدوم بھی نہ کیا اس طرح نو تاریخ کو وقوفِ عرفات کیا اور دس کو مزدلفہ سے منیٰ آئے رمی کے بعد قربانی کی او رحلق و تقصیر کے ذریعے احرام سے فارغ ہو گئے پھر طوافِ زیارت کیا اور حج کی سعی کی۔ اس صورت میں ہمارا حج قران واقع ہوا یا نہیں اور عمرہ کی سعی نہ کرنے پر ہم پر کیا لازم ہو گا؟ جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں ۔
(السائل : محمد ابراہیم، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالی وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں قِران باطل نہ ہوا کیونکہ صحتِ قران کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ وقوفِ عرفات سے قبل عمرہ کا کُل یا اکثر طواف کر لے اور وہ انہوں نے کر لیا چنا نچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ بن قاضی ابراہیم سندھی حنفی لکھتے ہیں اور اُن سے علامہ سیّد محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ نے لکھا :
الثالثُ : أنْ یطوفَ العمرۃ کلَّہُ أو أکثَرہُ قبل الوقوف بعرفۃَ (173)
یعنی، صحتِ قران کی تیسری شرط یہ ہے کہ قارن وقوفِ عرفہ کے وقت (یعنی نو تاریخ کو زوال کے وقت) میں وقوف کرنے سے قبل عمرہ کا مکمل یا اکثر (یعنی کم از کم چار چکر) طواف کر لے ۔ اس لئے وہ قارن ہی رہے چنانچہ مسؤلہ صورت کے بارے میں مُلّا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
فبقی قارناً (174)
یعنی، پس وہ قارن باقی رہا۔ اور اسی صورت کے بارے میں علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
و لو طاف لہا أربعۃ أشواط لم یصر رافضاً بالوقوف لأنہ أتی بالأکثر و بقی قارناً (175)
اور علامہ علاؤ الدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :
فلو أتی …لم تَبطُلْ ملخصاً (176)
یعنی، پس اگر وہ (وقوفِ عرفہ سے قبل صرف طواف پورا یا اکثر چکر کر لیتا ہے تو) قران باطل نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ عمرہ کے بقیہ افعال جیسے طوافِ عمرہ کے کم چکر اور سعی کب ادا کرے تو فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ انہیں دس ذوالحجہ کو پورا کر لے چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی طوافِ عمرہ کے کم چکروں کے بارے میں لکھتے ہیں :
و علیہ أن یتمّ بقیۃ الطّواف یوم النّحر (177)
یعنی، اُن کو یوم نحر (یعنی دس ذوالحجہ) میں پورا کرے ۔ اور یہ بات کہ دس ذوالحجہ کو پہلے عمرہ کے باقی افعال ادا کرے یا طوافِ زیارت کرے تو وہ پہلے افعالِ عمرہ مکمل کرے اس لئے کہ وہ ذمّے ہیں پہلے واجب ہو چکے ہیں چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی حنفی (178) طوافِ عمرہ کے رہے ہوئے کم پھیروں کے بارے میں لکھتے ہیں اور ان سے علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی (179) متوفی 1252ھ نے نقل کیا :
و أتمّ الباقی منہ قبل طواف الزِّیارۃِ
یعنی، اور باقی کو طوافِ زیارت سے قبل پورا کر لے ۔ اس حکم کی وجہ بیان کرتے ہوئے شارح مُلّا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :
لاستحقاقہا فی الذّمۃ قبلہ
یعنی، کیونکہ طواف عمرہ کے باقی پھیرے ذمے میں طوافِ زیارت سے قبل واجب ہو چکے ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طوافِ زیارت فرض ہے اور طوافِ عمرہ کے باقی کم پھیرے واجب چنانچہ لکھتے ہیں :
و لو کان الباقی من الأشواط واجباً، وہو دون الأقوی من طواف رکن الحجِّ (180)
یعنی، اگرچہ طوافِ عمرہ کے باقی کم چکر واجب ہیں اور وہ حج کے رُکن طوافِ زیارت جو کہ قوی تر ہے سے درجے میں کم ہے ۔ اب نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں وقوفِ عرفہ کے بعد باقی رہے ہوئے افعال عمرہ کو پورا کرنا تھا یعنی رمی، قربانی اور طواف زیارت سے بھی قبل اسی لئے علامہ حصکفی نے لکھا کہ اُسے یوم نحر میں پورا کرے اور علامہ شامی نے لکھا کہ طوافِ زیارت سے بھی قبل ادا کرے ، علّت یہ بیان کی کہ وہ ذمے میں پہلے واجب ہوئے ہیں اور مذکور صورت میں عمرہ کے افعال میں سے صرف سعی باقی تھی اُسے یوم نحر (دس تاریخ) کے تمام افعال سے پہلے ادا کرنا تھا کہ ان کا استحقاق پہلے ہے ، وقوفِ مزدلفہ کو شمار اس لئے نہ کیا گیا وہ وقوفِ عرفہ کے آخری وقت یعنی دس ذوالحجہ کی طلوعِ فجر کے ساتھ متّصل ہے اور اس کا وقت بھی مختصر ہے جو جلد فوت ہو جاتا ہے اور اسی واجب کی ادائیگی میں بقیہ افعالِ عمرہ کی ادائیگی میں تاخیر بھی نہیں ہوتی کہ طلوعِ فجر کے بعد جو حاجی مزدلفہ سے گزر گیا تو بھی اس کا یہ واجب ادا ہو گیا۔ تو بقیہ افعالِ عمرہ کی ادائیگی کا صحیح وقت وقوفِ مزدلفہ کے بعد تھا اور اگر دسویں تاریخ کی رمی کے بعد رہے ہوئے عمرہ کے افعال ادا کرتا تو بھی کچھ لازم نہ آتا اسی طرح دم شکر کے جانور کو ذبح کرنے کے بعد ادا کرتا تو بھی کچھ لازم نہ ہوتا کہ حاجی اس وقت تک حالتِ احرام میں ہوتا ہے اور عمرہ کا طواف حالتِ احرام میں ہی ادا ہوتا ہے اس حال میں وہ عمرہ کے رہے ہوئے کم چکر دیتا تو حالتِ احرام میں ہی دیتا، اسی طرح عمرہ کی سعی میں احرام کا ہونا واجب ہے ، چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
سیوم بقاء احرام در وقت سعی عمرہ (181)
یعنی، تیسرا واجب یہ ہے کہ عمرہ کی سعی کے وقت احرام باقی ہو ۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی متوفی 1367ھ علامہ رحمت اللہ سندھی کی ’’لُباب المناسک‘‘(182) کے حوالے سے لکھتے ہیں : عمرہ کی سعی میں احرام واجب ہے ۔ (183) تو اس وقت یعنی قربانی کے بعد حلق سے قبل اگر سعی کر لیتے تو حالتِ احرام میں ہی کرتے مگر وہ انہوں نے نہ کی بلکہ حلق و قصر کے ذریعے احرام کھول دیا، سعی تو اب بھی کرنی ہے کہ ادا ہو جائے گی اس لئے کہ عمرہ کی سعی میں احرام کا باقی ہونا صحتِ سعی عمرہ کی شرط نہیں ہے ، چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :
و اگر سعی عمرہ باشد پس بقاء احرام در حال شرط نیست و لیکن واجب است (184)
یعنی، اگر سعی عمرہ کی ہو تو اس حال میں بقاء احرام شرط نہیں لیکن واجب ہے ۔ اور اس صورت میں اِن سے ایک واجب ترک ہو گیا وہ یہ کہ اسی احرام میں وہ عمرہ کی سعی ادا کرتے اس لئے اب حلق کے بعد سعی بھی کریں گے اور ترکِ واجب کا دم بھی دیں گے ، چنانچہ مُلّا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
یتفرّع علیہ أنہ لو طاف ثم حلق، ثم سعی صح سعیہ، و علیہ دم لتحلّلہ قبل وقتہ و سبقہ علی أداء واجبہ (185)
یعنی، اس پر یہ متفرع ہوتا ہے کہ اگر اس نے طوافِ عمرہ کیا پھر (سعی عمرہ سے قبل) حلق کیا، پھر سعی کی تو اس کی سعی صحیح ہو گئی (کہ بقاء احرام صحتِ سعی کی شرط نہیں ) اور اس پر دَم لازم ہو گا کہ اس نے احرام کھولنے کا وقت آنے سے قبل احرام کھول دیا اور ایک واجب (یعنی احرام کو باقی رکھتے ہوئے عمرہ کی سعی کرتا کہ یہ واجب ہے تو انہوں نے اس واجب) کی ادائیگی پر (حلق کے ذریعے ) احرام کھولنے کو مقدم کر لیا۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :
تاآنکہ حلق کرد بعد از طواف عمرہ، بعد ازان سعی کرد لازم آید بروے دم (185)
یعنی، یہاں تک کہ اگر طوافِ عمرہ کے بعد حلق کر لیا اس کے بعد سعی کی تو اس پر دَم لازم آئے گا۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی’’لباب‘‘(186)کے حوالے سے لکھتے ہیں : عمرہ کی سعی میں احرام واجب ہے یعنی اگر طواف کے بعد سر مونڈالیا پھر سعی کی تو سعی ہو گئی مگر چونکہ واجب ترک ہوا لہٰذا دم واجب ہے ۔ (187) ’’بہار شریعت‘‘ میں مسئلہ علامہ رحمت اللہ کی ’’لُباب‘‘ کے حوالے سے مذکور ہے لیکن یہ اس مقام پر ’’لُباب‘‘ میں نہیں بلکہ ’’شرح اللُّباب للقاری‘‘ میں ہے ، شاید حوالہ نقل کرنے میں کاتب سے سہو واقع ہو گیا ہو۔ اور جو ایک سعی وہ کر چکے وہ عمرہ کی سعی ہو گی کہ وہ ذمے میں پہلے واجب ہو چکی تھی، ظاہر ہے کہ وہ بھی حلق کے بعد کی گئی ہے اس لئے سقوطِ دم کو مفید نہ ہوئی اور اب ان پر ایک سعی باقی ہے وہ ہ حج کی سعی وہ جب بھی ادا کریں گے ادا ہو جائے گی او رطوافِ قدوم جو قارن کے لئے مسنون ہے اور اس کے ترک پر اسائت لازم آتی ہے وہ ان سے ترک ہوا جس کی وجہ سے کوئی کفارہ لازم نہ ہو گا، اب صرف ایک سعی کریں گے اور ترکِ واجب کی وجہ سے ایک دم اور سچی توبہ اُن پر لازم ہو گی کہ ترک واجب گُناہ ہے ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الإثنین، 15ذی الحجۃ 1428ھ، 24دیسمبر 2007 م (New 30-F)
حوالہ جات
173۔ لُباب المناسک، باب القران، فصل : فی شرائط صحۃ القران، ص173
أیضاً مجامع المناسک، باب القران، فصل : فی شرائط صحۃ القران، ص205،ص307 : افغانستان
أیضاً رد المحتار، کتاب الحج، باب القران، تحت قولہ : معاً حقیقۃً، 3/633
174۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب القِران، فصل فی شرائط صحۃ القِران، تحت قولہ : ولوطاف أکثرہ، ص362
175۔ مجامع المناسک و نفع النّاسک، باب القِران، فصل : فی شرائط صحّۃ القِران، ص205، المحمودیۃ و ص308، أفغانستان
176۔ الدر المختار،کتاب الحج، باب القِران، تحت قولہ : العمرۃ بطلت، ص165
177۔ مجامع المناسک، باب القِران، فصل : فی شرائط صحۃ القران،ص205 المحمودیۃ وص308 أفغانستان
178۔ لُباب المناسک، باب القِران، فصل فی شرائط صحۃ القران، ص173
179۔ ردّ المحتار، کتاب الحج، باب القِران، تحت قولہ، و یتمُّہَا یومَ النحر، 3/639، بتغیر یسیر
180۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب القران، فصل فی شرائط صحۃ القران، ص363
181۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب چہارم، فصل اوّل، ص158
182۔ لباب المناسک، باب السعی بین الصفا والمروۃ، فصل : فی واجباتہ، ص128
183۔ بہار شریعت،حج کابیان،طواف وسعی صفا و مروہ و عمرہ کابیان، صفاومروہ کی سعی، 1/1109
183۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب چہارم در بیان سعی بین الصفا والمروۃ، فصل اوّل دربیان شرائط صحۃ سعی، ص158
184۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب السعی، فصل فی شرائط صحۃ السعی، ص284
185۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب چہارم در بیان سعی بین الصفا والمروۃ، فصل اوّل دربیان شرائط صحۃ سعی، برقم : 3، ص158
186۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب السعی، فصل فی شرائط صحۃ السعی، تحت قولہ : سعی العمرۃ فلا….الخ، ص248
187۔ بہارِ شریعت، حج کابیان، طواف وسعی صفا ومروہ و عمرہ کا بیان، 1/1109