استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص حجِ قران کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ پہنچا اور حاجی منیٰ روانہ ہو رہے تھے تو اس نے عمرہ ادا نہ کیا اور منیٰ روانہ ہو گیا یہاں تک کہ وہ عرفات گیا وقوفِ عرفہ کیا، اب اس نے عمرہ ادا نہ کیا اس کے لئے اُسے کیا کرنا ہو گا اور اس کا حج قران باقی رہا یا نہ رہا؟
(السائل : محمد ابراہیم، لبیک حج گروپ c/o مولانا محمد یونس شاکر، کاروانِ ہاشمی، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالی وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں اس نے عمرہ چھوڑ دیا جس کی وجہ سے اس کا قران باطل ہو گیا اور اس پر عمرہ کی قضا اور عمرہ چھوڑنے کا دم لازم ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحتِ قِران کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ وقوفِ عرفہ سے قبل عمرہ کا کُل یا اکثر طواف کر لے چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی (19)لکھتے ہیں اور اُن سے علامہ سید محمد امین ابن عابدین (20) نقل کرتے ہیں :
الثالث أن یطوفَ للعمرۃ کلَّہُ أو أکثرَہُ قبل الوقوف بعرفۃَ (أی فی وقتہ)
یعنی، صحتِ قِران کی تیسری شرط یہ ہے کہ قارن وقوفِ عرفہ کے وقت میں وقوف کرنے سے قبل عمرہ کا پورا (یعنی سات چکر) یا اکثر (یعنی کم از کم چار چکر) طواف کر لے ۔ اور وہ اس نے نہ کیا اس لئے وہ عمرہ کا چھوڑنے والا ہو گیا چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی حنفی (21) لکھتے ہیں او ران سے علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی (22) نقل کرتے ہیں :
فلو لم یطُفْ لہا حتی وقَفَ بعرفۃ بعد الزَّوال ارتفعت (و فی اللباب : ارتفضت) عمرتہ
یعنی، پس اس نے اگر عمرہ کا طواف نہ کیا یہاں تک کہ زوال کے بعد وقوفِ عرفہ کر لیا تو اس کا عمرہ چھوٹ گیا۔ اگرچہ اس نے عمرہ چھوڑنے کی نیت نہ کی تھی تب بھی عمرہ چھوٹ گیا چنانچہ مُلّا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :
أی و لو من غیر نیۃ رفضہ إیاہا (23)
یعنی، اگرچہ اس کی خاص عمرہ کو چھوڑنے کی نیت نہ ہو۔ جب اس نے حجِ قِران میں عمرہ کو چھوڑ دیا تو اس کا قِران باطل ہو گیا چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی (24) لکھتے ہیں اور ان سے علامہ شامی (25) نقل کرتے ہیں :
و بَطَلَ قِرانُہ
یعنی، اور اس کا قِران باطل ہو گیا۔ اور قران کا بطلان عمرہ کے بطلان کی وجہ سے ہوا کیونکہ جب اس نے عمرہ چھوڑ دیا تو اب عمرہ کی ادائیگی مُتعذّر ہو گئی اس لئے اگر وہ وقوفِ عرفہ کے بعد عمرہ کرے گا تو وہ افعال عمرہ کی افعال حج پر بنا کرے گا اور یہ مشروع نہیں ہے ، چنانچہ علامہ علاؤ الدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :
فإن وقَفَ القارنُ بعرفۃَ قبل أکثرِ طواف العمرۃِ بَطَلَتْ عمرہ (26)
یعنی، پس اگر قارن نے عمرہ کے اکثر طواف سے قبل وقوفِ عرفہ کر لیا تو اس کا عمرہ باطل ہو گیا۔ اس کے تحت علامہ شامی لکھتے ہیں :
لأنہ تعذّرَ علیہ أداؤہا، لأنّہ یصیر بانیاً أفعالَ العمرۃ علی أفعال الحجّ، و ذالک خلافُ المشروع (27)
یعنی، کیونکہ (وقوفِ عرفہ کے بعد) اس پر عمرہ کی ادائیگی مُتعذّر ہو گئی کیونکہ (اگر وقوف کے بعد عمرہ ادا کرتا ہے تو) وہ افعالِ حج پر افعالِ عمرہ کی بنا کرنے والا ہو جائے گا جو کہ مشروعیّتِ قِران کے خلاف ہے ۔ اور اس صورت میں اس سے دمِ قران ساقط ہو جائے گاجو کہ دمِ شکر ہے چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی لکھتے ہیں :
و سقط عنہ دمہ
(یعنی ،اور اس سے دم قران ساقط ہوگیا) اور اس کے تحت مُلّا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
أی دم القران للشکر المترتّب علی نعمۃ الجمع من أداء النُّسکین (28)
یعنی، اس سے دم قران ساقط ہو جائے گا جو شکرانے کے طور پر اس نعمت پرمترتّب ہے جو اُسے نُسکِ عمرہ و حج کے مابین جمع کرنے پر حاصل ہوئی۔ اور علامہ علاؤ الدین حصکفی لکھتے ہیں :
و سَقَطَ دمُ القرانِ، لأنَّہ لم یُوفَّق للنُّسُکینِ (29)
یعنی، اور دَمِ قِران ساقط ہو گیا کیونکہ وہ نُسکِ عمرہ وحج کے مابین جمع نہ کر پایا (کیونکہ اس نے اپنے عمرہ کو باطل کر دیا تو وہ قارن نہ رہا)۔ اور جو عمرہ اس نے چھوڑا اس کی قضاء اور عمرہ چھوڑنے کا دم اس پر لازم ہوا، چنانچہ مُلّا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :
ثم إذا ارتفضت عمرتہ فعلیہ دم لرفضہا و قضاؤہا بعد أیام التشریق (30)
یعنی، پھر جب اس کا عمرہ چھوٹ گیا تو اس پر عمرہ چھوڑنے کا دَم اور اس کی ایام تشریق کے بعد قضاء لازم آئی۔ اور علامہ علاؤ الدین حصکفی لکھتے ہیں :
و قُضِیَتْ بشروعِہِ فیہا.(31)
اور اس کے تحت علامہ شامی لکھتے ہیں :
أی بعد أیَّام التّشریق (32)
یعنی، اور (احرام و نیت سے ) عمرہ میں شروع ہونے کی وجہ سے اُسے ایام تشریق کے بعد قضاء کیا جائے گا۔
و وَجَبَ دمُ الرِّفضِ للعُمرۃِ (33) لأن کلَّ من تَحلَّلَ بغیرِ طوافٍ یجبُ علیہ دمٌ کالمحصر ’’بحر‘‘ (34)
یعنی، اس پر عمرہ چھوڑنے کا دم لازم ہو گا کیونکہ وہ شخص جو عمرہ کا طواف کئے بغیر اس کے احرام سے فارغ ہو جائے اس پر محصر کی مانند دَم لازم آتا ہے ۔ ’’بحر‘‘ (35) اور اگر وہ وقوفِ عرفہ سے قبل طوافِ عمرہ کے اکثر پھیرے دے لیتا تو عمرہ کو چھوڑنے والا نہ ہوتا چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی لکھتے ہیں :
و لو طاف أکثرہ ثم وقف
اور اس کے تحت مُلّا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :
لم یصر رافضاً بالوقوف لأنہ أتی بالأکثر، فبقی قارناً (36)
یعنی، اور اگر وہ عمرہ کا اکثر طواف کر لیتا پھر وقوفِ عرفہ کرتا تو وقوف کے سبب عمرہ کو چھوڑنے والا نہ ہوتا اور وہ قارن باقی رہتا۔ اور اس صورت میں طواف عمرہ کے باقی حصہ طوافِ زیارت سے قبل ادا کرتا چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی لکھتے ہیں :
أتمّ الباقی منہ قبل طواف الزیارۃ (37)
یعنی، اور باقی طوافِ زیارت سے قبل پورا کرے ۔ او راسی طرح ’’لُباب‘‘ کے حوالے سے علامہ شامی نے بھی نقل کیا ہے ۔ (38) طوافِ زیارت کی ادائیگی سے قبل طوافِ عمرہ کی تکمیل کے حکم کی وجہ بیان کرتے ہوئے مُلّا علی قاری لکھتے ہیں :
لاستحقاقہا فی الذمہ قبلہ، و لو کان الباقی من الأشوط واجباً وہو دون الأقوی من طواف رُکن الحج (39)
یعنی، کیونکہ طوافِ عمرہ کے یہ پھیرے طوافِ زیارت سے قبل ذمے میں واجب ہو چکے اگرچہ جو پھیرے بچے وہ واجب ہیں اور وہ حج کے رُکن طواف (یعنی طوافِ زیارت جو کہ) قوی تر ہے سے (درجے میں ) کم ہیں ۔ اور اس صورت میں اُسے چاہئے تھا کہ وہ منی جانے کی بجائے عمرہ کا طواف کر لیتا اور قارن کے لئے طوافِ عمرہ کا وقت دس ذی الحجہ کے طلوعِ فجر تک ہوتا ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی اس قارن کے بارے میں لکھتے ہیں جو بغیر وضو کے دو طواف اور دو سعیاں کر لے :
أعاد طواف العمرۃ قبل یوم النحر، ولا شیٔ علیہ و إن لم یعد حتی طلع فجر یوم النحر لزمہ دم لطواف العمرۃ محدثاً و قد فات وقت القضاء و قال شارحہ أی الإعادۃ لتکمیل الأداء (40)
یعنی، یوم نحر سے قبل طوافِ عمرہ کا اعادہ کرے اور اس پر کچھ نہیں اور اگر اعادہ نہ کرے یہاں تک کہ یوم نحر کی فجر طلوع ہو جائے تو اُسے بے وضو عمرہ کا طواف کرنے کا دَم لازم ہو گیا اور تکمیل اداء کے لئے اعادہ کا وقت فوت ہو گیا۔ اور وقت کی کمی کے باعث اگر وہ طواف کے چار چکر ہی کر لیتا ہے طوافِ قدوم کی نیت سے کرتا یا نفل کی نیت سے تو اس کا فرض ادا ہو جاتا اور عمرہ باطل نہ ہوتا کیونکہ پھر اس پر طواف کے کم پھیرے اور سعی باقی رہتی جو کہ عمرہ کے واجبات سے تھے نہ کہ فرائض سے ، چنانچہ علامہ علاؤ الدین حصکفی لکھتے ہیں :
فلو أتی بأربعۃِ أشواطٍ و لو بقَصْدِ القدوم أو التّطوُّع لم تَبْطُل، و یُتِمُّہا یومَ النَّحر (41)
یعنی، پس اگر (طوافِ عمرہ کے ) چار چکر کر لیتا اگرچہ طوافِ قدوم یا نفل کی نیت سے تو عمرہ باطل نہ ہوتا اور اُسے دس ذی الحجہ کو (طوافِ زیارت سے قبل) پورا کر لیتا۔ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین علامہ حصکفی کی عبارت ’’عمرہ باطل نہ ہوتا‘‘ کے تحت لکھتے ہیں :
لأنہ أتی برُکْنِہا، و لم یبق إلاّ واجباتُہا من الأقلِّ و السَّعیِ ۔ ’’بحر‘‘ (42)
یعنی، کیونکہ اس نے اس کا رُکن ادا کر لیا (کہ طواف فرض میں کم از کم چار پھیرے فرض ہیں ) اور باقی نہ رہے مگر عمرہ کے واجبات وہ طواف کے کم پھیرے اور سعی ہیں ۔ ’’بحر‘‘ (43) طواف کے بقیہ کم پھیروں کا ذکر مندرجہ بالا سطور میں مذکور ہے کہ انہیں طوافِ زیارت سے قبل ادا کرے اور سعی غیر مؤقّت ہے اسی لئے حج کی سعی طوافِ زیارت کے بعد قربانی کے ایام گزار کرکی جائے تو بھی درست ہو جاتی ہے اگرچہ خلافِ سنّت ہے ۔ اور مذکور شخص عمرہ کو چھوڑنے والا اس وقت قرار پایا جب اس نے زوال کے بعد وقوفِ عرفہ کیا اس سے قبل جب وہ منیٰ میں تھا یا عرفات میں ، عمرہ کو چھوڑنے والا قرار نہیں دیا گیا، چنانچہ مُلّا علی قاری لکھتے ہیں :
و فی ’’الکافی‘‘ للحاکم لا یصیر رافضاً لعمرتہ حتی یقف بعد الزوال، و قال ابن الہمام : وہو حقّ لأن ما قبلہ لیس وقتاً للوقوف، فحلولہ بہا کحلولہ بغیرہا، و فی ’’السراج الوہاج‘‘ و لو وقف بعرفۃ قبل الزوال لا یکون رافضاً لأنہ لا عبرۃ بہذا الوقوف، فیرجع إلی مکۃ و یطوف لعمرتہ، فلو لم یرجع حتی وقف (44)
یعنی، امام حاکم شہید کی ’’کافی‘‘ میں ہے قارن اپنے عمرہ کو چھوڑنے والا نہ ہو گا یہاں تک کہ زوال کے بعد وقوفِ عرفات کر لے اور امام کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن ہمام نے فرمایا یہی حق ہے کیونکہ اس سے قبل وقوف کا وقت نہیں ہے تو قارن کا وہا ں ہونا عرفات کے غیر میں ہونے کی مانند ہے ، اور ’’سراج الوہاج‘‘ میں ہے اگر زوال سے قبل وقوف عرفات کیا تووہ اپنے عمرہ کو چھوڑنے والا نہ ہو گا کیونکہ اس وقوف کا کوئی اعتبار نہیں ، تو وہ (اگر زوال سے قبل عرفات چلا گیا تو) مکہ لوٹ آئے اور اپنے عمرے کا طواف کرے (اور رفضِ عمرہ سے بچ جائے ) پس اگر نہ لوٹا یہاں تک کہ (وقوف کے وقت میں ) وقوف کر لیا (تو اس کا عمرہ چھوٹ گیا)۔ لہٰذا اُسے چاہئے تھا کہ وقوفِ عرفات سے پہلے پہلے مکہ آ کر طواف عمرہ کر لیتا اس طرح وہ عمرہ کی قضاء دَم اور گناہ کے اِرتکاب سے بچ جاتا کیونکہ اس نے عمرہ کو جان بوجھ کر چھوڑا ہے اس لئے وہ گنہگار بھی ہوا جس کے لئے اسے عمرہ کی قضا اور دَم دینے کے ساتھ ساتھ توبہ بھی کرنی ہو گی۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الأحد، 14ذی الحجۃ 1428ھ، 23دیسمبر 2007 م (New 27-F)
حوالہ جات
19۔ لُباب المناسک، باب القران، فصل فی شرائط صحۃ القران،، ص173
20۔ رد المحتار، کتاب الحج، باب القران، تحت قولہ : معاً حقیقۃً، 3/633
21۔ لُباب المناسک، باب القران، فصل فی شرائط صحۃ القران، ص173
22۔ رد المحتار، کتاب الحج، باب القران، تحت قولہ : معاً حقیقۃ، 3/633
23۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب القران، فصل فی شرائط صحۃ القران، تحت قولہ : ارتفضت عمرتہ، ص362
24۔ لُباب المناسک ، باب القران، فصل فی شرائط صحۃ القران، ص173
25۔ رد المحتار، کتاب الحج، باب القران، تحت قولہ : معاً حقیقۃ، 3/633
26۔ الدر المختار، کتاب الحج، باب القران، تحت قولہ : فان وقف قبل الخ، ص165
27۔ ردّ المحتار، کتاب الحج، باب القران، تحت قولہ : بطلت عمرتہ، 2/639
28۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب القران، فصل فی شرائط صحۃ القران، تحت قولہ : وبطل قرانہ…الخ، ص362
29۔ الدر المختار، کتاب الحج، باب القران، تحت قولہ : ووجب ذم الرفض، ص165
30۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب القران، فصل فی شرائط صحۃ القران، تحت قولہ : ارتفضت عمرتہ، ص362
31۔ الدرالمختار، کتاب الحج، باب القران، قولہ : قضیت، ص165
32۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، باب القران، تحت قولہ : وقضیت، 3/639
33۔ الدّر المختار، کتاب الحج، باب القران، مع قول التنویر : ووجب دم الرفض، ص165
34۔ الدّر المختار، کتاب الحج، باب القران، مع قول التنویر : ووجب دم الرفض، ص165
35۔ بحر الرائق، کتاب الحج، باب القران تحت قولہ : و إن لم یدخل مکۃ،2/635
36۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب القران، فصل : فی شرائط صحۃ القران، تحت قولہ : ثم وقف، ص 362
37۔ لُباب المناسک، باب القران، فصل فی شرائط صحۃ القران، ص173
38۔ رد المحتار،کتاب الحج، باب القران، تحت قولہ : وینمھا یوم النحر، 3/639
39۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب القران، فصل فی شرائط صحۃ القران، ص363
40۔ لُباب المناسک ، باب الجنایات، فصل فی الجنایۃ فی طواف العمرۃ، ص217
41۔ الدرّ المختار، کتاب الحج، باب القران، تحت قولہ : العمرن بطلت، ص165
42۔ رد المحتار، کتاب الحج، باب القران، تحت قولہ : لم تبطل، 3/639
43۔ البحرالرائق، کتاب الحج، باب القران، 2/635
44۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب القران، فصل فی شرائط صحۃ القران، ص362