فیصلہ کرنے اور جج بینے کے متعلق آیات و احادیث
اللہ عزوجل فرماتا ہے:۔
انا انزلنا التورۃ فیھا ھدًی و نورٌ یحکم بھا النبیون
(ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت و نور ہے اس کے موافق انبیاء حکم کرتے رہے)
پھر فرمایا:۔
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون
(جو لوگ خدا کے اتارے ہوئے پر حکم نہ کریں وہ کافر ہیں )
پھر فرمایا:۔
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون
(جو لوگ خدا کے اتارے ہوئے پر حکم نہ کریں وہ ظالمہیں )
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفسقون
(جو لوگ خدا کے اتارے ہوئے کے موافق حکم نہ کریں وہ فاسق ہیں )
پھر فرمایا:۔
وان حکم بینہم بما انزل اللہ ولا تتبع اھوائھم واحذرھم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ الیک فان تولوا فاعلم انما یرید اللہ ان یصیبھم ببعض ذنوبھم وان کثیرًا من الناس لفسقون افحکم الجاھلیۃ یبغون ومن احسن من اللہ حکمًا لقومٍ یوقنون
(تم حکم کرو ان کے مابین اس کے موافق جو خدا نے نازل کیا اور انکی خواہش کی پیروی نہ کرو اور ان سے بچتے رہو کہ کہیں تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں بعض ان چیزوں سے جو خدا نے تمہاری طرف اتاری اور اگر وہ اعراض کریں تو جان لو کہ خدا انکے بعض گناہوں کی سزا ان کو پہنچانا چاہتا ہے اور بیشک بہت سے لوگ فاسق ہیں کیا وہ لوگ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بڑھ کر یقین والوں کے لئے کون حکم دینے والا ہے)
اور فرمایا:۔
فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجًا مما قضیت ویسلموا تسلیمًا
(تمہارے رب کی قسم وہ مومن نہ ہوں گے جب تک تم کو حکم نہ بنائیں اس چیز میں جس میں ان کے مابین اختلاف ہے پھر جو کچھ تم نے فیصلہ کر دیا اس سے اپنے دل میں تنگی نہ پائیں اور اسے پورے طور پر تسلیم نہ کریں )
اور فرماتا ہے:۔
انا انزلنا الیک الکتب بالحق لتحکم بین الناس بما ارک اللہ ولا تکن للخآئنین خصیمًا
( ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ کتاب اتاری تاکہ لوگوں کے درمیان اس کے ساتھ فیصلہ کرو جوخدا نے تمہیں دکھایا اور خیانت کرنے والوں کے لئے جھگڑا نہ کرو۔
حدیث ۱ : امام احمد بن حنبل نے ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ چھ دن بعد تم سے جو کچھ کہا جائے اسے اپنے ذہن میں رکھنا ساتویں دن یہ ارشاد فرمایا کہ میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ (۱) باطن و ظاہر میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا اور (۲) جب تم سے کوئی برا کام ہو جائے تو نیکی کرنا اور (۳) کسی سے کوئی چیز طلب نہ کرنا اگرچہ تمہارا کوڑا گر جائے یعنی تم سواری پر ہو اور کوڑا گر جائے تو یہ بھی کسی سے نہ کہنا کہ اٹھا دے (۴) کسی کی امانت اپنے پاس نہ رکھنا اور (۵) دو شخصوں کے مابین فیصلہ نہ کرنا۔
حدیث ۲ : امام احمد و ابن ماجہ اور بیہقی شعب الایمان میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص لوگوں کے مابین حکم کرتا ہے وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ فر شتہ اس کی گدی پکڑے ہو گا پھر وہ فرشتہ اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے گا (ا س انتظار میں کہ اس کے لئے کیا حکم ہوتا ہے) اگر یہ حکم ہو گا کہ ڈال دے تو ایسے گڑھے میں ڈالے گا کہ چالیس برس تک گرتا ہی رہے گا یعنی چالیس برس میں تہ تک پہنچے گا۔
حدیث ۳ : امام احمد ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قاضی عادل قیامت کے دن تمنا کرے گا کہ دو شخصوں کے درمیان ایک پھل کے متعلق بھی فیصلہ نہ کئے ہوتا۔
حدیث ۴ : ترمذی نے روایت کی کہ عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے فرمایا کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا کرو (عہدہ ٔ قضا کو قبول کرو) انھوں نے عرض کی امیر المومنین آپ مجھے معافی دیں فرمایا کہ اس کو ناپسند کیوں رکھتے ہو تمہارے والد فیصلہ کیا کرتے تھے عرض کی اس لئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ فرماتے ہیں جو قاضی ہو اورعد ل کے ساتھ فیصلہ کرے اس کے لئے لائق یہ ہے کہ برابر واپس ہو یعنی جس حالت میں تھا ویسا ہی رہ جائے یہی غنیمت ہے۔
حدیث ۵ : امام احمد و ابودائود و ترمذی و ابن ماجہ نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو لوگوں کے مابین قاضی بنایا گیا وہ بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا۔
حدیث ۶ : ابودائود و ترمذی و ابن ماجہ و انس رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو قضا کا طالب ہو اور اس کی درخواست کرے وہ اپنے نفس کی طرف سپرد کر دیا جائے گا اور جس کو مجبور کر کے قاضی بنایا جائے اللہ تعالی اس کے پاس فرشتہ بھیجے گا جو ٹھیک چلائے گا۔
حدیث ۷ : ابودائود نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے قضا طلب کی اور اسے مل گئی پھر اس کا عدل اس کے جور پر غالب رہا۔ یعنی عدل نے ظلم کرنے سے روکا اس کے لئے جنت ہے اور جس کا وجود عدل پر غالب آیا اس کے لئے جہنم ہے۔
حدیث ۸ : صحیح بخاری میں ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہتے ہیں میں اور میری قوم کے دو شخص حضور کے پاس حاضر ہوئے ایک نے کہا یا رسول اللہ مجھے حاکم کر دیجئیے اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا ارشاد فرمایا ہم اس کو حاکم نہیں بناتے جو اس کا سوال کرے اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے۔
حدیث ۹ : سنن ابودائود و ترمذی میں عمرو بن مرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ اللہ تعالی امور مسلمیں میں کوئی کام کسی کو سپرد فرمائے (یعنی اسے حاکم بنائے) وہ لوگوں کے حوائج و ضروریات و احتیاج میں پردے کے اندر رہے یعنی اہل حاجت کی اس تک رسائی نہ ہو سکے اپنے پاس ارباب حاجت کو آنے نہ دے تو اللہ تعالی اس کی حاجت و ضرورت و احتیاج میں حجاب فرمائے گا یعنی اس کو اپنی رحمت سے دور فرما دے گا اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالی اس کی حاجت کے وقت میں آسمان کے دروازے بند فرما دے گا اسی کی مثل ابودائود و ابن سعد و بغوی و طبرانی و بیہقی و ابن عساکر ابی مریم و احمد و طبرانی معاذ رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی۔
حدیث ۱۰ : بیہقی حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے عمال (حکام) کو بھیجتے ان پر یہ شرط کرتے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہونا اور باریک آٹا یعنی میدہ نہ کھانا اور باریک کپڑے نہ پہننا اور لوگوں کے حوائج کے وقت اپنے دروازے نہ بند کرنا اگرتم نے ان میں سے کسی امر کو کیا تو سزا کے مستحق ہو گے۔
حدیث ۱۱ : ترمذی و ابودائود و دارمی نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ان کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنا چاہا فرمایا کہ جب تمہارے سامنے کوئی معاملہ پیش آئے گا تو کس طرح فیصلہ کرو گے عرض کی کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا فرمایا اگر کتاب اللہ میں نہ پائو تو کیا کرو گے عرض کی رسول اللہ ﷺ کی سنت کے ساتھ فیصلہ کروں گا اور اگر سنت رسول اللہ میں بھی نہ پائو تو کیا کرو گے عرض کی اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اجتہاد کرنے میں کمی نہ کروں گا حضور اقدس ﷺ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور یہ کہا کہ حمد ہے اللہ کے لئے جس نے رسول اللہ کے فرستادہ کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہے۔
حدیث ۱۲ : ابودائود و ترمذی و ابن ماجہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہتے ہیں جب مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجنا چاہا میں نے عرض کی یارسول اللہ حضور مجھے بھیجتے ہیں اور میں نو عمر شخص ہوں اور مجھے فیصلہ کرنا آتا بھی نہیں یعنی میں نے کبھی اس کام کو نہیں کیا ارشاد فرمایا اللہ تعالی تمہارے قلب کو رہنمائی کرے گا اور تمہاری زبان کو حق پر ثابت رکھے گا۔ جب تمہارے پاس دو شخص معاملہ پیش کریں تو صرف پہلے کی بات سن کر فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے کی بات سن نہ لو کہ اس صورت میں یہ ہو گا کہ فیصلہ کی نوعیت تمہارے لئے ظاہر ہو جائے گی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی مجھے فیصلہ کرنے میں شک و تر دد نہ ہوا۔
حدیث ۱۳ : صحیح بخاری شریف میں ہے حسن بصری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالی نے حکام کے ذمہ یہ بات رکھی کہ خواہش نفسانی کی پیروی نہ کریں اور لوگوں سے خوف نہ کریں اور اللہ کی آیات کو تھوڑے دام کے بدلے میں نہ خریدیں اس کے بعد یہ آیت پڑھی:۔
یاداو‘د انا جعلنک خلیفۃً فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الھوی فیضلک عن سبیل اللہ ان الذین یضلون عن سبیل اللہ لھم عذابٌ شدیدٌ بما نسوا یوم الحساب
(اے دائود ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ کیا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرو کہ تم کو اللہ کے راستہ سے ہٹا دے گی اور جو اللہ کے راستہ سے الگ ہو گئے ان کے لئے سخت عذاب ہے اس وجہ سے کہ حساب کے دن کو بھول گئے)
عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں پانچ باتیں قاضی میں جمع ہوئی چاہیئے ان میں کی ایک نہ ہو تو اس میں عیب ہو گا۔ (۱) سمجھ دار ہو (۲) بردبار ہو (۳) سخت ہو (۴) عالم ہو (۵) علم کی باتوں کا پوچھنے والاہو۔
حدیث ۱۴ : بیہقی نے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ فریقین مقدمہ کو واپس کر دو تاکہ وہ آپس میں صلح کر لیں کیوں کہ معاملہ کا فیصلہ کر دینا لوگوں کے درمیان عداوت پیدا کرتا ہے۔
حدیث ۱۵ : ابن عساکر و بیہقی روایت کرتے ہیں کہ شعبی کہتے ہیں حضرت عمر اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ایک معاملہ میں خصومت تھی حضرت عمر نے فرمایا میرے اور اپنے درمیان کسی کا حکم کر لو۔ دونوں صاحبوں نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم بنایا اور دونوں ان کے پاس آئے حضرت عمر نے کہا ہم اس لئے تمہارے پاس آئے ہیں کہ ہمارے مابین فیصلہ کرو تو جب دونوں ان کے پاس فیصلہ کے لئے پہنچے تو حضرت زید صدر مجلس سے ہٹ گئے اور عرض کی امیر المومنین یہان تشریف لائیے حضرت عمر نے فرمایا یہ تمہارا پہلا ظلم ہے جو فیصلہ میں تم نے کیا۔ و لیکن میں اپنے فریق کے ساتھ بیٹھوں گا دونوں صاحب ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ ابی بن کعب نے دعوی کیا اور حضرت عمر نے ان کے دعوے سے انکار کیا۔ حضرت زید نے ابی بن کعب سے کہا کہ امیر المومنین کو حلف سے معافی دے دو حضرت عمر نے قسم کھا لی اس کے بعد قسم کھا کر کہا کہ زید کو کبھی فیصلہ سپرد نہ کیا جائے جب تک ان کے نزدیک عمر اور دوسرا مسلمان برابر نہ ہو یعنی جو شخص مدعی و مدعی علیہ میں اس قسم کی تفریق کرے وہ فیصلہ کا اہل نہیں ۔
حدیث ۱۶ : صحیح بخاری و مسلم میں ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ حاکم غصہ کی حالت میں دو شخصوں کے مابین فیصلہ نہ کرے۔
حدیث ۱۷ : صحیح بخاری و مسلم میں عبداللہ بن عمر و ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی حضور اقدس ﷺ نے فرمایا حاکم نے فیصلہ کرنے میں کوشش کی اور ٹھیک فیصلہ کیا اس کے لئے دو ثواب اور اگر کوشش کر کے (غوروخوض کرکے) فیصلہ کیا اور غلطی ہو گئی اس کو ایک ثواب۔
حدیث ۱۸ : ابودائود و ابن ماجہ بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قاضی تین ہیں ایک جنت میں اور دو جہنم میں جو قاضی جنت میں جائے گا وہ ہے جس نے حق کو پہچانا اور حق کے ساتھ فیصلہ کیا اور جس نے حق کو پہچانا مگر فیصلہ حق کے خلاف کیا وہ جہنم میں ہے اور جس نے بغیر جانے بوجھے فیصلہ کر دیا وہ جہنم میں ہے اسی کی مثل ابن عدی و حاکم نے بھی بریدہ سے اور طبرانی ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہم سے راوی۔
حدیث ۱۹ : ترمذی و ابن ماجہ عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ اللہ تعالی ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے اور جب وہ ظلم کرتا ہے اللہ تعالی اس سے جدا ہو جاتا ہے اور شیطان اس کے ساتھ ہو جاتا ہے۔
حدیث ۲۰ : بیہقی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی کہ فرمایا حضور نے قاضی جب اپنے اجلاس میں بیٹھتا ہے دو فرشتے اترتے ہیں جو اسے ٹھیک راستہ پر لے چلنا چاہتے ہیں اور توفیق دیتے ہیں اور رہنمائی کرتے ہیں جب تک ظلم نہ کرے اور جب ظلم کرتا ہے تو چلے جاتے ہیں اور اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔
حدیث ۲۱ : ابویعلی حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ حکام عادل و ظالم سب کو قیامت کے دن پل صراط پر روکا جائے گا پھر اللہ عزوجل فرمائے گا تم سے میرا مطالبہ ہے جس حاکم نے فیصلہ میں ظلم کیا ہو گا اور رشوت لی ہو گی صرف ایک فریق کی بات توجہ سے سنی ہو گی وہ جہنم کی اتنی گہرائی میں ڈالا جائے گا جس کی مسافت ستر (۷۰) سال ہے اور جس نے حد (مقرر) سے زیادہ مارا ہے اس سے اللہ تعالی فرمائے گا کہ جتنا میں نے حکم دیا تھا اس سے زیادہ تو نے کیوں مارا وہ کہے گا اے پروردگار میں نے تیرے لئے غضب کیا اللہ فرمائے گا تیرا غصہ میرے غضب سے بھی زیادہ ہو گیا اور وہ شخص لایا جائے گا جس نے سزا میں کمی کی ہے اللہ تعالی فرمائے گا اے میرے بندہ تو نے کمی کیوں کی کہے گا میں نے اس پر رحم کیا فرمائے گا کیا یہ تیری رحمت میری رحمت سے بھی زیادہ ہو گئی۔
حدیث ۲۲ : ابودائود بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کو ہم کسی کام پر مقرر کریں اور اس کو روزی دیں اب اس کے بعد وہ جو کچھ لے گا خیانت ہے۔
حدیث ۲۳ : ترمذی نے معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن کی طرف حاکم کر کے بھیجا جب میں چلا تو میرے پیچھے آدمی بھیج کر واپس بلایا اور فرمایا تمہیں معلوم ہے کیوں میں نے آدمی بھیج کر بلایا اس لئے کہ کوئی چیز بغیر میری اجازت نہ لینا کہ وہ خیانت ہو گی اور جو خیانت کرے گا اس چیز کو قیامت کے دن لے کر آنا ہو گا اسی کہنے کے لئے بلایا تھا اب اپنے کام پر جائو۔
حدیث ۲۴ : مسلم و ابودائود و عدی بن عمیرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے لوگو تم میں جو کوئی ہمارے کسی کام پر مقرر ہوا وہ ایک سوئی یا اس سے بھی کم کوئی چیز ہم سے چھپائے گا وہ خائن ہے قیامت کے دن اسے لے کر آئے گا انصار میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور یہ کہا کہ یا رسول اللہ اپنا یہ کام مجھ سے واپس لے لیجئے فرمایا کیا وجہ ہے عرض کی میں نے حضور کو ایسا فرماتے سنا فرمایا میں یہ کہتا ہوں جس کو ہم عامل بنائیں وہ تھوڑا یا زیادہ جو کچھ ہو ہمارے پاس لائے پھر جو کچھ ہم دیں اسے لے اور جس سے منع کیا جائے باز رہے۔
حدیث ۲۵ : ابودائود و ابن ماجہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے اور ترمذی ان سے اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور امام احمد و بیہقی ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت فرمائی اور ایک روایت میں اس پر بھی لعنت فرمائی جو رشوت کا دلال ہے۔
حدیث ۲۶ : صحیح بخاری وغیرہ میں ابو حمیدی ساعد رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے بنی اسد میں سے ایک شخص کو جس کو ابن اللتبیہ کہا جاتا تھا عامل بنا کر بھیجا جب وہ واپس آئے تو یہ کہا کہ یہ (مال) تمہارے لئے ہے اور یہ میرے لئے ہدیہ ہوا ہے رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لے گئے اور حمد الہی اور ثنا کے بعد یہ فرمایا کہ کیا حال ہے اس عامل کا جس کو ہم بھیجتے ہیں اور وہ آکر یہ کہتا ہے کہ یہ آپ کے لئے ہے اور یہ میرے لئے ہے وہ اپنے باپ یا ماں کے گھر میں کیوں نہیں بیٹھا رہا دیکھتا کہ اسے ہدیہ کیا جاتا ہے یا نہیں قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میرا نفس ہے ایسا شخص قیامت کے دن اسی چیز کو اپنی گردن پر لاد کر لائے گا اگر اونٹ ہے تو چلائے گا اور گائے ہے تو وہ بان بان کرے گی اور بکری ہے تو وہ میں میں کرے گی اس کے بعد حضور نے اپنے ہاتھوں کو اتنا بلند فرمایا کہ بغل مبارک کی سپیدی ظاہر ہونے لگی اور اس کو تین بار فرمایا آگاہ میں نے پہنچا دیا۔
حدیث ۲۷ : ابودائود نے ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کسی کے لئے سفارش کرے اور وہ اس کے لئے کچھ ہدیہ دے اور یہ قبول کر لے وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے پر آگیا۔
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔