شرعی سوالات
مشہور

فوڈ پانڈا کمپنی میں رائڈر کی نوکری کرنا

فوڈ پانڈا کمپنی میں رائڈر کی نوکری کرنا شرعا کیسا ہے؟ ایک جدید مسئلے کا جواب

تحریر کا خلاصہ:
  • فوڈ پانڈا کمپنی میں رائڈر کی نوکری کرنا جائز ہے۔ البتہ کمپنی کا جرمانہ کرنا جائز نہیں ہوگا، کمپنی کو چاہئے کہ اس طریقہ کار کو فوری تبدیل کرے۔

میرا سوال فوڈ پانڈا کمپنی میں رائڈر کی نوکری کرنے  کے بارے میں ہے۔ فوڈ پانڈا (FoodPanda) ایک کمپنی ہے جو کہ ڈلیوری کی سہولت مہیا کرتی ہے۔ یہ کمپنی صارفین تک اپنی اشیا کی ڈلیوری کے لئے (بطور رائڈر) چند افراد  کے ساتھ عقد کرتی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ :

جو شخص بھی فوڈ پانڈا کمپنی میں رائڈر کی نوکری کرنا چاہتا ہے وہ کمپنی سے رابطہ کرتا ہے۔ کمپنی اس سے آغاز میں 2000 روپے بطور سکیورٹی فیس لیتی ہے  جو کہ کام چھوڑنے پر واپس کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کمپنی اپنی تشہیر کے لئے اسے ایک شرٹ اور ایک فوڈ بیگ دیتی ہے لیکن ان دونوں چیزوں کے وہ بطور سکیورٹی 2500 روپے رائڈر کے پہلے تین ہفتوں کی اجرت سے کاٹ لیتی ہے جو کہ کام چھوڑنے اور شرٹ اور بیگ واپس کرنے پر مکمل رقم واپس کرنے کی پابند ہوتی ہے۔

کمپنی کسی خاص وقت کا اجارہ نہیں کرتی بلکہ بطور فری لانسر رائڈر کی مرضی ہوتی ہے کہ جب چاہے کام کرے اور جب چاہے کام نہ کرے۔ رائڈر جب کام کرنا چاہتا ہے اور جس جگہ کام کرنا چاہتا ہے،  وہ کمپنی کی  ایپلی کیشن میں شفٹ سلیکٹ کر لیتا ہے اور اپنے مقررہ مقام پر پہنچ کر کمپنی کو اپلی کیشن کے ذریعے مطلع کر دیتا ہے۔ پھر کمپنی اسے اپلی کیشن کے ذریعے آرڈر بھیجنا شروع کر دیتی ہے۔ ہر  آرڈر پر کام کی مکمل تفصیلات (مثلاً کس دکان سے آرڈر لینا ہے، کیا کیا لینا ہے، آرڈر کہاں اور کس کو ڈلیور کرنا ہے، اس کا سفر کتنا ہے  وغیرہ)  بتائی جاتی ہیں اور اس کام کا کتنا معاوضہ ملے گا یہ بھی اسی وقت بتا دیا جاتا ہے۔ یہاں رائڈر کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو آرڈر منظور (Accept)  کر لے اور چاہے تو نہ کرے۔ اگر رائڈر اس آرڈر کو منظور (Accept) کر لیتا ہے اور پھر تمام کام صحیح طرح سر انجام دے دیتا ہے تو اس کا مکمل معاوضہ اس کو مل جاتا ہے۔

کمپنی رائڈر کو اپنے قواعد و ضوابط  پر عمل درامد کروانے کے لئے تین طریقے اختیار کرتی ہے:

  1. اگر رائڈر کمپنی کے قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرے (مثلاً کسی اور کا اکاؤنٹ استعمال کرے) تو کمپنی اس کا اکاؤنٹ بند کر دیتی ہے اور اس سے معاہدہ ختم کر دیتی ہے۔
  2. اگر رائڈر کمپنی کے قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرے (مثلاً کھانا لیٹ ڈلیور کرے، شفٹ منتخب کر کے سر انجام نہ دے وغیرہ) تو کمپنی اس کی کارکردگی (Performance) درجہ بدرجہ کمزور کرتی رہتی ہے اور پھر آئندہ آرڈرز  پر اس کے معاوضے میں کمی کر دیتی ہے۔
  3. اگر رائڈر کمپنی کے قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرے تو کمپنی اس پر جرمانہ عائد کرتی ہے۔ مثلاً دوران ڈیوٹی کمپنی کا یونیفارم   نہ پہنا ہو تو کمپنی 20 روپے جرمانہ کرتی ہے، بار بار مکمل  شفٹ سر انجام نہ دی جائے تو 600 روپے جرمانہ کرتی ہے وغیرہ۔

کمپنی وقتاً فوقتاً اپنے رائڈرز کے لئے سہولیات نکالتی رہتی ہے مثلاً  کرونا ویکسین لگوانے پر ایک ہزار روپے کا بونس، 100 سے زیادہ آرڈرز ہونے پر ایک نئی جیکٹ، 150 سے زیادہ آرڈرز ہونے پر 1000 روپے کا بونس، 1000 سے زیادہ آرڈرز  ہونے پر ایک نیا ہیلمٹ، 1500 سے زیادہ آرڈر ہونے پر ایک نئی شرٹ اور نیا فوڈ بکس وغیرہ۔

چند شہروں میں کمپنی یہ سہولت بھی دیتی ہے کہ رائڈر کو  اچھی کارکردگی پر  کچھ پوائنٹ ملتے ہیں اور ان پوائنٹس کے بدلے میں آپ کمپنی یہ سہولت دیتی ہے کہ رائڈر کمپنی  سے کچھ مخصوص چیزیں خرید سکتا ہے لیکن یہ پوائنٹس کچھ عرصے کے لئے ہوتے ہیں اور اس عرصے میں ان پوائنٹس کو استعمال نہ کریں تو وہ ایکسپائر ہو جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایپلی کیشن میں ٹپ (Tip) کا آپشن ہے جس کے ذریعے بعض اوقات چیز منگوانے والا کسٹمر ہمارے لئے غیر مشروط طور پر آرڈر کے علاوہ اضافی رقم بھی آن لائن ادا کر دیتا ہے جو کہ کمپنی ہمیں دے دیتی ہے اور بعض اوقات جب کسٹمرز کے پاس آرڈر پہنچانے جاتے ہیں اس وقت کسٹمرز کچھ اضافی رقم ٹپ (Tip) کے طور پر ہمیں دے دیتا ہے۔دریافت طلب امور یہ ہیں کہ :

  1. عقد کے آغاز میں فوڈ پانڈا کمپنی کو سکیورٹی فیس دینی پڑتی ہے، کیا یہ عقد کرنا اور سکیورٹی فیس جمع کروانا جائز ہے؟
  2. فوڈ پانڈا کمپنی کا قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر مالی جرمانہ کرنا اور رائڈر کا کمپنی کو جرمانہ ادا کرناکیسا ہے؟
  3. مالی جرمانے کی شرط ہونے کے باوجود فوڈ پانڈا کمپنی کے ساتھ رائڈر کا عقد کرنا کیساہے؟
  4. کمپنی وقتاً فوقتاً اپنے رائڈرز کو جو سہولیات دیتی ہے، اسے لینا اور استعمال کرنا کیسا ہے؟
  5. رائڈر کو اچھی کارکردگی پر جو پوائنٹ ملتے ہیں انہیں لینا اور استعمال کرنا کیسا ہے؟
  6. آرڈر مکمل کرنے پر کسٹمر جو ٹپ (Tip) دیتا ہے اسے لینا اور استعمال کرنا کیسا ہے؟

نوٹ:              اکثر معلومات کمپنی کی آفیشل ویب سائٹ اور رائڈرز سے لی گئیں ہیں۔

فوڈ پانڈا کمپنی میں رائڈر کی نوکری کرنا:

جواب:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(1) فوڈ پانڈا کمپنی میں رائڈر کی نوکری کا عقد، عقد اجارہ کہلاتا ہے اور کمپنی نے اس عقد اجارہ کرنے کے لیے سکیورٹی فیس کی شرط رکھی ہے جو کہ مقتضائے عقد کے خلاف ہے۔  شرعاً اسے اجارہ بشرط  القرض کہتے ہیں۔

لیکن فی زمانہ  سکیورٹی فیس لینے پر عرف ہو چکا ہے۔ ہمارے ہاں کثیر عقود مثلاً بڑی بڑی کمپنیوں، ڈسٹری بیوشن وغیرہ سے لے کر  مکان، دکان کے چھوٹے چھوٹے کرایہ داری کے عقد میں بھی سکیورٹی فیس لی جاتی ہے اور شرعی اصول یہ ہے کہ عقد میں مقتضائے عقد کے خلاف ایسی شرط جس پر عرف ہو چکا ہو، اس کی شرعاً اجازت ہوتی ہے۔ لہذا  اس عقد میں سکیورٹی فیس کی شرط ہونے کے باوجود بھی یہ عقد جائز رہے گا اور سکیورٹی فیس جمع کروانا بھی جائز ہو گا۔

ہدایہ میں ہے:”كل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده“ ترجمہ:ہروہ شرط جس کاعقدتقاضانہیں کرتاوراس میں  عاقدین میں سے کسی ایک کافائدہ ہویاجس پرعقدہورہاہے ہے،اس کافائدہ ہواوروہ اہل استحقاق میں سے ہوتووہ شرط بیع کوفاسدکردیتی ہے۔

(الھدایۃ،باب البیع الفاسد،جلد3،صفحۃ48،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

درمختارمیں ہے”أما لو جرى العرف به ۔۔۔ فلا فساد”ترجمہ:بہرحال اگروہ شرط ایسی ہے کہ جس کوعقدمیں لگانے کاعرف جاری ہوتواس سے عقدفاسدنہیں ہوگا۔

(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب البیوع،ج07،ص284،کوئٹہ)

ردالمحتارمیں ہے :”وهو أرفق بأهل هذا الزمان لئلا يقعوا في الفسق والعصيان“ترجمہ:اس  بات  میں موجودہ زمانہ کے لوگوں کے لیے بڑی رعایت ہے تاکہ وہ فسق وگناہ میں مبتلا نہ ہوں۔

(ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الحظروالاباحۃ،فصل فی اللبس،ج09،ص583،کوئٹہ)

صحیفہ مجلس شرعی میں ہے: ’’زر ضمانت قرض محض ہے اور زر ضمانت دینے والے پر اس کی زکوٰۃ واجب ہے جس کی ادائیگی قبضہ میں آنے کے بعد تمام سالہائے گزشتہ کی واجب ہو گی اور سال بہ سال ادا کر دے تو مناسب ہے ۔رہا یہ اشکال کہ یہاں اجارہ بشرط القرض ہے تو اس کی نظیر مسئلہ منی آرڈر ہے جسے امام احمد رضا قدس سرہ نے تعامل و تعارف کے باعث جائز قرار دیا ہے یہاں تعامل کے ساتھ حاجت بھی ہے اس لیے یہ بھی جائز ہے۔‘‘

(صحیفہ مجلس شرعی ،جلد2،صفحہ46،دار النعمان)

(2) فوڈ پانڈا رائڈر کے عقد (Contract) میں یہ بات بھی طے ہوتی ہے کہ بعض صورتوں میں مالی جرمانہ کیا جائے گا اور مالی جرمانہ شرعا منسوخ ہے اور اس پر عمل حرام ہے۔ لہذا کمپنی کا مالی جرمانہ کرنا ناجائز و حرام کام ہے اسی طرح رائڈر کا کمپنی کو جرمانہ ادا کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

نوٹ: کمپنی کو چاہیے کہ وہ حرام کام کرنے کی بجائے اگلے آرڈر کی فیس (اجرت) کم کر لے یا خلاف ورزی کرنے پر اس کی کارکردگی میں کمی کر دے یا کوئی اور جائز طریقہ کار اپنا لے، جس سے رائڈر بھی پابند ہو جائے اور حرام کام کا ارتکاب بھی نہ ہو۔

شرح نسائی شریف میں امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ کان فی صدر الإسلام تقع العقوبات فی الأموال ثم نسخ۔‘‘ترجمہ: شروع اسلام میں مالی سزائیں دی جاتی تھیں پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا۔

(شرح نسائی شریف،کتاب الزکوٰۃ، عقوبۃ مانع الزکوٰۃ،جلد5،صفحہ16،مکتب المطبوعات الإسلامیۃ،حلب)

ردالمحتار میں ہے ’’وفی شرح الآثارالتعزیر بالمال کان فی ابتداء الإسلام ثم نسخ‘‘ترجمہ: شرح الآثار میں ہے کہ تعزیر بالمال(مالی جرمانہ لینا) ابتداء اسلام میں تھا پھر منسوخ کر دیا گیا۔

(ردالمحتار ،کتاب الحدود ،باب التعزیر،جلد6،صفحہ 98،مکتبہ،کوئٹہ)

(3) آج کل ہمارے ہاں کئی عقود میں مالی جرمانے کی شرط طے پاتی ہے مثلاً

  1. قسطوں کے کاروبار اور مختلف سوسائٹیوں،کالونیوں میں پلاٹ کی خریداری میں قسط لیٹ ہونے پر جرمانہ کی شرط ہوتی ہے۔
  2. گاڑیوں، بسوں، ریل گاڑیوں اور ہوائی جہاز کی ٹکٹوں کی خریداری میں بھی یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر روانگی سے اتنے وقت پہلے ٹکٹ واپس کی تو اتنے فیصد کٹوتی ہو گی۔
  3. زمین،دوکان،مکان وغیرہ اشیاء کی خریداری پر بھی بیعانہ ضبط ہونے کی شرط مذکور ہوتی ہے۔
  4. مختلف اشیاء رینٹ پرلینے کی صورت میں ٹوکن ضبط ہونے کی شرط ہوتی ہے۔
  5. سکول ، کالج اور یو نیورسٹیز ، سرکاری ادارےاور کثیر کمپنیز کے عقد کے وقت یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ لیٹ ہونے، چھٹی کرنے یا کسی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ ہوگا۔
  6. بجلی، گیس، اور دیگر کنیکشنز لگواتے وقت یہ بات معروف ہوتی ہے کہ بل لیٹ جمع کروانے پر جرمانہ  ہو گا۔

مذکورہ بالا عقود کرنے میں خاص و عام کا ابتلاء ہے اور ان سب عقود کو ناجائز کہنا اور سب لوگوں کو گناہ گار قرار دینا شریعت کے مقصود کے خلاف ہے لہذا بوجہ تعامل و ابتلائے عام جسے اس بات کا ٖغالب گمان ہو کہ مالی جرمانے کی نوبت نہیں آنے دوں گا، اس کا عقد میں مالی جرمانے کی شرط ہونے کے باوجود عقد کرنا شرعا درست ہے اور اس عقد کی وجہ سے نہ عقد فاسد ہو گا اور نہ وہ خریدار و مستاجر گنہگار ہو گا۔ اس کی ایک نظیر ٹکٹ خریدنے کا مسئلہ ہے۔ فقہا نے حج کے وہ ٹکٹ کہ جن کو واپس کرنے کی صورت میں کٹوتی ہوتی تھی، وہ ٹکٹ لینا ناجائز قرار نہیں دیا، ہاں کٹوتی کی صورت سے بچنے کی تاکید فرمائی۔ اسی طرح اس کی ایک اور نظیر بیعانہ کا مسئلہ ہے علما  نے بیعانہ کی ضبطگی کے رواج کی بھی صراحت فرمائی اور اسے ناجائز بھی قرار دیا لیکن اس کی وجہ سے عقد بیع کو فاسد و ناجائز قرار نہیں دیا۔

درمختارمیں ہے”أما لو جرى العرف به ۔۔۔ فلا فساد”ترجمہ:بہرحال اگروہ شرط ایسی ہے کہ جس کوعقدمیں لگانے کاعرف جاری ہوتواس سے عقدفاسدنہیں ہوگا۔

(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب البیوع،ج07،ص284،کوئٹہ)

ردالمحتارمیں ہے : ”وهو أرفق بأهل هذا الزمان لئلا يقعوا في الفسق والعصيان“ ترجمہ:اس  بات  میں موجودہ زمانہ کے لوگوں کے لیے بڑی رعایت ہے تاکہ وہ فسق وگناہ میں مبتلا نہ ہوں۔

 (ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الحظروالاباحۃ،فصل فی اللبس،ج09،ص583،کوئٹہ)

پہلی نظیر:

امام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے حج کے وہ ٹکٹ کہ جن کوواپس کرنے کی صورت میں کٹوتی ہوتی تھی،وہ ٹکٹ لیناناجائزقرارنہیں دیا حالانکہ اس کے ساتھ مسلمانوں کی کمپنی موجود تھی کہ جس میں ایک طرف کا ٹکٹ ہی ملتا تھا تو واپس کروانے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی تو کٹوتی بھی نہیں ہوتی تھی، لیکن اس کے باوجود اس عقد کو فاسد قرار نہیں دیا گیا،ہاں کٹوتی کی صورت سے بچنے کی تاکیدفرمائی؛  چنانچہ فتاوی رضویہ میں سوال ہوا: ”اور ظلم یہ ہے کہ کمپنی نے ٹکٹ پر چھاپ دیا ہے کہ حاجی کو اگر واپس کرنا ہو تو دس سیکڑہ کاٹ کر حاجی کو روپیہ ملے گا، یہ قانون ہے کہ امانت رکھنے والا اپنی امانت واپس مانگے تو کمیشن میں سُود دے یہ دوہرا سُود ہوا یانہیں؟ “

اس کے جواب میں ارشادفرمایا: ”یہ صورت اور زیادہ شناعت کی ہے، اور حتی الامکان اس سے بچنا لازم کہ اگرچہ سود نہیں مگر اضاعتِ مال ہے اور وہ بھی شرعاً حرام ہے۔“

(فتاوی رضویہ،جلد23،صفحہ599-600،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

دوسری نظیر:

امام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے بیعانہ کی ضبطگی کے رواج کی بھی صراحت فرمائی اوراسے ناجائزبھی قراردیالیکن اس کی وجہ سے عقدبیع کو فاسدوناجائزقرارنہیں دیا بلکہ  فسخ نہ کرنے کی اجازت عطافرمائی جواس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس صورت میں عقدفاسدنہیں ؛ چنانچہ ارشادفرمایا:” بیع نہ ہونے کی حالت میں بیعانہ ضبط کرلینا جیسا کہ جاہلوں میں رواج  ہے ظلم صریح  ہے۔۔۔۔ ہاں اگر عقد بیع باہم تمام ہولیا تھا یعنی طرفین سے ایجاب وقبول واقع ہولیا اور کوئی موجب تنہا مشتری کے فسخ بیع کردینے کا نہ رہا، اب بلاوجہ شرعی زید مشتری عقد سے پھرتا ہے توبیشک عمرو کو روا ہے کہ اس کا پھر نانہ مانے او ر بیع تمام شدہ کو تمام ولازم جانے۔۔۔ یہ کبھی نہ ہوگا کہ بیع کو فسخ ہوجا نامان کر مبیع زید کو نہ دے اور اس کے روپے اس جرم میں کہ تو کیوں پھر گیا ضبط کرے۔“

(فتاوی رضویہ،ج17 ،ص94-95،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

(4-5)  مذکورہ بالا سہولیات استعمال کرنا شرعا جائز ہے کہ یہ سہولیات (بونس، جیکٹ، ہیلمٹ، شرٹ، فوڈ بکس، پوائنٹس کے بدلے میں چیزیں دینا ) کمپنی کی طرف سے ہبہ ہیں کیونکہ اپنی  چیز کا دوسرے کو بلا عوض مالک بنا دینے کو ہبہ  کہتے ہیں اور مذکورہ صورت میں بھی  کمپنی  رائڈر کو یہ چیزیں  بلا عوض دیتی ہے جو کہ جائز ہے۔

درر میں ہے: ”ھی تملیک عین بلا عوض “ ترجمہ: ہبہ کسی عین کا بغیر عوض مالک کر دینے کا نام ہے۔

(درر شرح غرر،جلد2،صفحہ217،داراحیاء الکتب العربیۃ، بیروت )

بہار شریعت میں ہے: ” کسی چیز کا دوسرے کو بلا عوض مالک کر دینا ہبہ ہے۔“

(بہار شریعت، جلد2، صفحۃ 68، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

(6)  چیز منگوانے والا غیر مشروط طور پر جو  اضافی رقم (Tip) دے دیتا ہے، وہ بلا واسطہ (Direct) آپ کو دے یا آپ کے لیے کمپنی کو دے اور پھر کمپنی آپ کو دے دے، دونوں صورتوں میں آپ کا  اس رقم کو  لینا اور اسے استعمال کرنا جائز ہے کیونکہ یہ رقم چیز منگوانے والے کی طرف سے ہبہ ہے جس کا لینا جائز ہے۔ (حوالہ جات اوپر گزر چکے ہیں۔)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button