مضامین

فقہ اور قواعد فقہیہ کی لغوی و اصطلاحی تعریفات

فقہ کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور قواعد فقہیہ کی تعریف نیز قاعدہ فقہیہ، اصول فقہیہ اور ضابطہ فقہیہ میں فرق

فقہ کی لغوی و اصطلاحی تعریف، قواعد فقہیہ کی تعریف

فقہیہ منسوب ہے فقہ کی طرف  یعنی وہ قواعد جو فقہ سے متعلق ہو لہذا جب قواعد کے  ساتھ  فقہیہ کی قید لگا دی جائے تو اس سے دیگر قواعد خارج ہو جاتے ہیں جیسے حسابی وٹکنالوجی قواعد , نحوی قواعد , اصولی قواعد , تفسیری قواعد  , حدیثی قواعد  وغیرہ .

فقہ کی تعریف :

فقہ کے لغوی معنى ہے  سمجھنا جیسا کہ اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا: اور میرے زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ لوگ میر باتوں کو سمجھ سکے. [طه: ٢٧ – ٢٨]

فقہ کی اصطلاحی تعریف :

شریعت کے فرعی احکام کو تفصیلی دلیل کیساتھ جاننا .

قواعد فقہیہ کے مفردات کی تعریف جاننے کے بعد قواعد فقہیہ بحیثیت ایک علم کی تعریف   جاننا چاہئے

قواعد فقہیہ بحیثیت ایک علم کی تعریف:

علماء کرام نے قواعد فقہیہ کی کئی تعریفیں کی ہیں ذیل میں ہم چند تعریفوں ذکر کرنے کے بعد  ان میں جامع اور مانع تعریف کی طرف اشارہ کریں  گے.

پہلی تعریف:

ابو عبد اللہ المقری  المالکی [ متوفی ۷۵۸ھ]  نے  فرمایا : قواعد فقہیہ ہر وہ کلی ہے جو اصول اور عام عقلی قواعد سے خاص ہو اور جملہ خاص فقہی ضوابط سے عام ہو .

دوسری تعریف:

احمد بن محمد شہاب الدین الحموی الحنفی [متوفی ۱۰۹۸ھ] بیان کرتے ہیں کہ قواعد فقہیہ     وہ اغلبی حکم ہے جو اپنے اکثر جزئیات پر صادق آئے جس سے ان کا حکم سمجھ میں آئے .

تیسری تعریف:

قواعد فقہیہ اس کلی حکم کو کہتے ہیں  جس سے  ایک سے زائد فقہی ابواب کے جزئیات کا حکم معلوم ہو  , یہی تعریف سب سے زیادۃ جامع اور مانع ہے. واللہ اعلم.

قاعدہ فقہیہ، اصول فقہیہ اور ضابطہ فقہیہ میں فرق

قواعد فقہیہ اور ضوابط فقہیہ میں فرق. 

ضوابط  ضابط کی جمع   جو ضبط سے ماخوذ ہے   لغت میں اس کے بہت سارے معانی ہیں جو عموما حصر, روکنا  اور قوت کے معانی سے خارج نہیں ہے.

 ایک طرف علماء کرام کا   ایک طبقہ جیسے علامہ الکمال بن الہمام [ متوفى ۸۶۱ھ], فیومی  اور عبد الغنی النابلسی وغیرہ   کا کہنا ہے کہ قاعدۃ اور ضابطہ میں کوئی فرق نہیں ہے  چنانچہ   انہوں نے قاعدہ اور ضابطہ دونوں کی ایک ہی تعریف کی ہے

دوسری طرف علماء کرام کی ایک جماعت جیسے ابن السبکی [ متوفی ۷۷۱ھ] , زرکشی , سیوطی, ابن النجار, ابن نجیم, فتوحی کفوی اور بنانی  وغیرہ  قاعدہ اور ضابطہ میں فرق کرتے ہیں

چنانچہ انہوں نے ضابطہ  اور قاعدہ میں یہ فرق بیان کیا کہ جو  کسی ایک فقہی باب کے متشابہ صورتوں ایک ہی لڑی میں پرو دے اسکو ضابطہ کہتے ہیں اور جو ایک سے زائد فقہی ابواب  کے مسائل کو منظم کرے اسکو قاعدہ کہتے ہیں.

فقہی قاعدہ اور اصولی قاعدہ  میں فرق:

علماءکرام فقہی قاعدہ اور اصولی قاعدہ  میں مندرجہ ذیل فرق بیان کرتے ہیں:

  • اصولی قاعدہ الفاظ عربیہ  اور ان کے عوارض سے نکلتا ہے  جیسے نسخ , ترجیح , عموم , خصو ص , امر اور نہی وغیرہ جب کہ فقہی قواعد الفاظ عربیہ سے نہیں نکلتے ہیں .
  • اصولی قواعد کا وجود فروع فقہیہ سے پہلے ہے جبکہ فقہی قواعد کا وجود فروع فقہیہ کے بعد ہے .
  • اصولی قواعد کا موضوع مجمل دلیل ہے جبکہ فقہی قواعد کا موضوع  مکلفین کے اعمال ہے.
  • اصولی قواعد صرف کلی حکم جاری کرتا ہے جبکہ فقہی قواعد اعمال مکلفین کے  جزئی کے احکام  پر منحصر ہے .
  • فقہی قواعد سے فقہی مسائل کا حکم ڈائرکٹ معلوم ہوتاہے جبکہ اصولی قواعد کے ذریعے  فقہی مسائل کا حکم سمجھ میں نہیں  آتا   إلا یہ کہ اس کیساتھ تفصیلی دلیل موجود ہو  جیسے النہی للتحریم یہ ایک اصولی قاعدہ ہے  مگر یہ قاعدہ   ڈائرکٹ زنا اور سود کی حرمت پر دلالت کرتا ہے جبکہ   "من أتلف شيئا فعليه ضمانه”  فقہی قاعدہ ڈائرکٹ ضمانت کے وجوب پر دلالت کرتا ہے .
  • اصولی قواعد میں کبھی دلیل اور حکم دونوں ہوتا ہے جبکہ فقہی قواعد میں صرف حکم ہی ہوتاہے دلیل نہیں ہوتی.
  • جب کوئی اصولی قاعدہ متفق علیہ ہو تو عربی قواعد کی طرح مطرد ہوتاہے اس سے کوئی جزء مستثنى نہیں ہوتا جبکہ کسی  فقہی قاعدہ  کے مضمون پر اگر اتفاق ہو تو اس سے بھی بہت سارے جزئیات مستثنى ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کی بہت سارے علماء کرام فقہی قواعد کو اغلبی کہتے ہیں مطرد قرار نہیں دیتے .

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button