شرعی سوالات

فقہا کے درمیان اختلاف کس وجہ سے ہوتا ہے

اصل بات یہ ہے کہ علما کا ایک دوسرے سے اختلاف کرنا بھی قرآن و حدیث سے چمٹے رہنے کی وجہ سے ہے۔

تحریر کا خلاصہ:
  • ایک دو حدیثیں پڑھ کر یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ مجھے ٹھیک مسئلہ پتا چل گیا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ کئی بار حدیث صحیح ہوتی ہے لیکن اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہوتا۔

آج کل انٹر نیٹ کا دور ہے۔ کوئی مسئلہ معلوم نہ ہو یا کسی مسئلے میں فقہا کے درمیان اختلاف تو فٹ گوگل پر سرچ کیا اور اس مسئلے سے متعلق جو بھی مل گیا اس پر عمل  شروع کر دیا۔ یہ بھی نہیں پتا کہ لکھا کس  نے ہے؟ کیا کسی ماہر، مستند اور خوف خدا رکھنے والے عالم و مفتی صاحب نے لکھا ہے یا یونہی کسی نے اپنی طرف سے  فقط ریٹنگ اور ایڈوٹازمنٹ کے  لئے لکھ دیا ہے!! بلکہ یہاں تک بھی بس نہیں کیا پتا کسی غیر مسلم  نے ہمیں اسلام سے دور کرنے کے لئے وہ غلط مسئلہ نیٹ پر ڈالا ہو، اور ہم اپنی اس آسانی کہ مسئلہ پوچھنے کے لئے کسی کے پاس جانا پڑے گا ، غیر مسلموں کے ہاتھوں کھلونا بن جائیں۔ اور اگر کہیں کوئی حدیث لکھی مل جائے تو بس پھر!!  اپنی اس بات کو حرف آخر سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اب کوئی ہمیں غلط ثابت کر کے دکھائے! یہ بھی زحمت نہیں کرتے کہ دیکھ لیں آیا وہ واقعی حدیث ہے بھی یا نہیں؟ کیا کوئی جھوٹا ”اپنی رائے لکھ کر“ رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب تو نہیں کر رہا؟ پھر حدیث اس درجے کی ہے جس درجے کا حکم بیان کیا جا رہا ہے؟؟ کیا اس حدیث کا دیگر احادیث کے ساتھ موازنہ بھی کر لیا ہے تاکہ اس کا صحیح معنی و مفہوم واضح ہو گیا ہے؟؟ کیا کوئی اور حدیث ایسی تو نہیں ہے جو اس کے خلاف ہو اور رسول اللہ ﷺ نے بعد میں اس بات پر عمل کرنے سے منع فرما دیا ہو؟؟ لیکن ہمیں کیا سروکار!!! ہم تو اپنے خلاف بڑے سے بڑے عالم اور مفتی کو بھی غلط ہی کہیں گے!! یہ سوچ کبھی آتی ہی نہیں کہ جو منع کر رہا ہے یا دوسرا مسئلہ بیان کر رہا ہے وہ ہم سے تو زیادہ  اسلامی علوم پڑھا ہوا ہے۔ ضرور کوئی شرعی دلیل (قرآن و احادیث ) اس کے سامنے ہو گی جو وہ دوسرا مسئلہ بیان کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کو اس مسئلے کے متعلق دس احادیث معلوم ہوں!!! لیکن نہیں۔ اسے میری پڑھی ہوئی ایک حدیث کے خلاف کہنے کی جرات کیسے ہوئی!

فقہا کے درمیان اختلاف کی وجہ:

ایک طرف تو ہمارا یہ حال ہے  اور دوسری طرف علما کا حال یہ ہے کہ وہ اس وقت تک مسئلہ بیان نہیں کرتے جب تک مکمل طور پر اس کے متعلق تمام قران و احادیث اور شرعی دلائل میں غور و فکر نہیں کر لیتے۔ دس منٹ گوگل پر بیٹھ کر ”پختہ رائے“ قائم کرنے کی بجائے کئی کئی ماہ ایک مسئلے میں غور و فکر کرتے کرتے گزار دیتے ہیں۔ جو بھی رائے قائم کرتے ہیں اس کے پیچھے شرعی دلائل ہوتے ہیں۔ حتی کہ اگر آپس میں اختلاف بھی ہو تو ضرور سب کے پاس کوئی نہ کوئی آیت یا حدیث یا کوئی اور شرعی دلیل ہوتی ہے۔

فقہا کے درمیان اختلاف کی مثال:

فقہا کے درمیان اختلاف کی ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک مسئلہ ہے: کیا خرید و فروخت میں کسی بھی قسم کی شرط لگانا منع ہے؟ کیا ایسا عقد کرنے سے گناہ ملے گا؟ اور کیا ایسا معاہدہ باطل (کینسل) ہو جائے گا؟

اس میں امام اعظم ، امام ابن ابو لیلی اور امام ابن سیرین رحمہم اللہ کا اختلاف ہے۔  کتب میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک شخص نے یہی مسئلہ تینوں علما سے پوچھا اور تینوں سے مختلف جوابات دئیے۔ پھر انہوں نے ہر ایک سے اس جواب کی وجہ پوچھی تو سب نے بہت کمال جوابات دئیے۔ آپ بھی وہ واقعہ پڑھئیے:

عبد الوارث بن سعید رحمہ اللہ کہتے ہیں میں حج کرنے گیا : وہاں میں مکہ میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حلقہ درس میں بھی حاضر ہوا اور ان سے سوال کیا: ”بیع بالشرط“(عقد میں شرط لگانا) کیسا ہے؟

امام اعظم رحمہ اللہ نے فرمایا: ”بیع بالشرط باطل ہے۔“ آپ کا حلقہ درس ختم ہونے کے بعد میں واپس آ گیا اور امام ابن ابو لیلی کے پاس گیا اور ان سے بھی یہی سوال پوچھا:

امام ابن ابو لیلی نے جواب دیا: ”یوں خرید و فروخت کرنا تو درست ہے لیکن وہ شرط پوری کرنا لازم نہیں ہے ، شرط باطل ہو جائے گی۔“ وہاں سے واپسی پر میں امام ابن سیرین کے یہاں گیا اور ان سے بھی یہی سوال پوچھا:

امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے جواب دیا: ”ایسا عقد کرنا بھی درست ہے اور وہ شرط پوری کرنا بھی لازم ہے۔“

میں نے دل میں سوچا: ”یہ تینوں بزرگ کوفہ کے بڑے بڑے فقیہ ہیں اور میرے ایک مسئلے کے بارے میں ان تینوں نے مختلف جوابات دئیے ہیں۔ مجھے ان تینوں سے دلیل بھی پوچھنی پڑے گی تاکہ درست مسئلہ معلوم ہو جائے۔ “

میں دوبارہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پاس گیا اور دوبارہ یہی سوال کیا: ”بیع بالشرط“(عقد میں شرط لگانا) کیسا ہے؟

انہوں نے بھی وہی جواب دیا۔ میں نے فوراً کہا: ”آپ کے ہم عصر امام ابن ابو لیلی اور امام ابن سیرین کا موقف تو کچھ اور ہے۔“

یہ سن کر امام اعظم رحمہ اللہ نے فرمایا: ”ان دونوں کا موقف کس وجہ سے مختلف ہے یہ تو مجھے معلوم نہیں البتہ میں نے یہ جواب اس لئے دیا ہے کیونکہ حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے۔“

حدیث: مجھے عمرو بن شعیب نے حدیث بیان کی، انہیں ان کے والد شعیب نے اپنے  والد حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرط کے ساتھ بیع کرنے کے منع فرمایا۔

     ” حكي عن عبد الوارث بن سعيد قال حججت فدخلت بمكة على أبي حنيفة وسألته عن البيع بالشرط فقال: باطل فخرجت من عنده ودخلت على ابن أبي ليلى وسألته عن ذلك فقال: البيع جائز والشرط باطل فدخلت على ابن سيرين وسألته عن ذلك فقال: البيع جائز والشرط جائز، فقلت: هؤلاء من فقهاء الكوفة وقد اختلفوا علي في هذه المسألة كل الاختلاف فعجزني أن أسأل كل واحد منهم عن حجته فدخلت على أبي حنيفة فأعدت السؤال عليه فأعاد جوابه فقلت: إن صاحبيك يخالفانك فقال لا أدري ما قالا حدثني عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي – صلى الله عليه وسلم – نهى عن بيع وشرط “

عبد الوارث بن سعید رحمہ اللہ کہتے ہیں: پھر میں امام ابن ابو لیلی کے پاس گیا اور ان سے کہا: آپ کے ہم عصر امام اعظم ابو حنیفہ اور امام ابن سیرین رحمہما اللہ کا موقف تو آپ سے مختلف ہے!

امام ابن ابو لیلی نے جواب دیا: ”ان دونوں کا موقف کس وجہ سے مختلف ہے یہ تو مجھے معلوم نہیں البتہ میں نے یہ جواب اس لئے دیا ہے کیونکہ میں نے یہ حدیث سن رکھی ہے۔ “

حدیث: ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے ارشاد فرمایا: ”جب میں نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنے کی بات چیت کی تو ان کے مالکین نے کہا : ہم اس شرط پر بیچیں گے کہ حضرت بریرہ کی ولاء[1] ہمارے   لئے رہے۔ میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آپ اس شرط کے ساتھ بھی خرید سکتی ہیں (یعنی اس شرط سے کوئی فرق نہیں پڑے گا) کیونکہ حقیقت میں ولاء آزاد کرنے والے  کی ہی ہوتی ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبے میں ارشاد فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ خرید و فروخت کرتے وقت ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ تعالی کی کتاب میں بیان نہیں ہوئیں۔ (یاد رکھو!) جو شرط اللہ تعالی کی کتاب میں نہ ہو وہ شرط باطل و کالعدم ہے۔ کتاب اللہ زیادہ حقدار ہے اور اللہ تعالی کی شرط باقی سب شرطوں سے زیادہ پختہ ہے اور ولاء اسی کے لئے ہے جو آزاد کرے۔“[2]

وہاں سے ہو کر میں امام ابن سیرین رحمہ اللہ کے پاس پہنچا اور ان سے بھی کہا: ” آپ کے ہم عصر امام اعظم ابو حنیفہ اور امام ابن ابو لیلی رحمہما اللہ کا موقف تو آپ سے مختلف ہے! “

امام ابن سیرین نے جواب دیا: ” ان دونوں کا موقف کس وجہ سے مختلف ہے یہ تو مجھے معلوم نہیں البتہ میں نے یہ جواب اس لئے دیا ہے کیونکہ میں نے یہ حدیث شریف سنی ہوئی ہے۔ “

حدیث: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ایک غزوہ میں   اونٹ خریدا اور میں نے اس میں یہ شرط لگائی تھی کہ میں (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ)اس پر بیٹھ کر مدینہ شریف تک جاؤں گا۔“ [3]

” فدخلت على ابن أبي ليلى فقلت له مثل ذلك فقال: لا أدري ما قال حدثني هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة أنها ”لما أرادت أن تشتري بريرة – رضي الله عنها – أبى مواليها إلا بشرط أن يكون الولاء لهم فذكرت ذلك لرسول الله – صلى الله عليه وسلم – فقال صلوات الله عليه وسلامه اشتري واشترطي لهم الولاء فإن الولاء لمن أعتق ثم خطب رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فقال: ما بال أقوام يشترطون شروطا ليست في كتاب الله كل شرط ليس في كتاب الله فهو باطل، كتاب الله أحق وشرط الله أوثق والولاء لمن أعتق“ فدخلت على ابن سيرين وقلت له مثل ذلك فقال: لا أدري ما قالا حدثني محارب بن دثار عن أبي الزبير عن جابر بن عبد الله الأنصاري – رضي الله تعالى عنهم – أن النبي – صلى الله عليه وسلم – اشترى منه ناقة في بعض الغزوات وشرط له ظهرها إلى المدينة “

اس واقعے کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ فقہا کے درمیان اختلاف کس وجہ سے ہوتا ہے (یہ طعنہ دینا تو آسان ہے علما آپس میں اختلاف کرتے رہتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ علما کا ایک دوسرے سے اختلاف کرنا بھی قرآن و حدیث سے چمٹے رہنے کی وجہ سے ہے۔

اوپر بیان کردہ واقعے سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ ایک دو حدیثیں پڑھ کر یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ مجھے ٹھیک مسئلہ پتا چل گیا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ کئی بار حدیث صحیح ہوتی ہے لیکن اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہوتا۔ مثلاً پہلے ایک چیز جائز تھی، اس وقت کی کوئی صحیح حدیث آپ کو مل گئی، لیکن بعد میں حضور ﷺ نے خود اس چیز سے منع فرما دیا تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ لہذا کوئی بھی مسئلہ معلوم کرنا ہو تو کسی مستند عالم دین اور مفتی صاحب سے پوچھ لیں تاکہ آپ اسلام پر صحیح طریقے سے عمل بھی کر سکیں اور کسی فتنہ باز اور غیر مسلم کے ہتھ کنڈے سے بھی بچ جائیں۔

درست مسئلہ:

اب آپ کے ذہن میں آ رہا ہو گا کہ اوپر جو واقعہ بیان ہوا ہے، اس میں سے درست مسئلہ کون سا ہے؟ درست مسئلہ یہی ہے کہ عقد میں کوئی ناجائز شرط لگانا درست نہیں، ایسا عقد کرنے سے گنا بھی ملتا ہے اور اس سے  عقد بھی  فاسد ہو جاتا ہے۔ یہ میں نے کیوں لکھا اس کی وجہ ہے :

(1) اوپر حدیث بیان ہوئی کہ نبی اکرم ﷺ نے عقد میں کسی بھی شرط لگانے سے منع فرمایا ہے اور یہ بہت مشہور اور صحیح حدیث ہے۔

(2) دوسرا  شرعی قاعدہ ہے  کسی کام سے مطلقاً (یعنی ساتھ کوئی دوسرا قرینہ نہ ہو،)منع کرنا  اس کے ناجائز و فاسد ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ امام سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ” الصحيح ما استدل به أبو حنيفة فإنه حديث مشهور، ومطلق النهي يوجب فساد المنهي عنه (مفہوم اوپر گزرا۔)

 (3) امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے جو حدیث بیان فرمائی اس حدیث کے الفاظ ہیں: ” اشترطي لهم الولاء “ اس کا یہ ترجمہ درست نہیں ہو سکتا ” آپ اس شرط کے ساتھ بھی خرید سکتی ہیں “ کیونکہ آگے رسول اللہ ﷺ خود فرما رہے ہیں کہ ولاء[4] ان کے لئے نہیں ہو گی بلکہ آپ کے لئے ہو گی۔ اگر یہ ترجمہ کریں تو پھر تو انہیں دھوکا دیا جا رہا ہے اور رسول اللہ ﷺ کسی کو دھوکا دینے کا نہیں کہہ سکتے اس لئے اس کا یہ ترجمہ نہیں ہو گا۔

 یہاں ”لام“ ”علی“ کے معنی میں ہے۔ قرآن پاک میں بھی سورۃ الرعد میں لام علی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ لہذا درست ترجمہ یہ ہے ”آپ انہیں اس شرط سے منع کر دیں کیونکہ ولاء آزاد کرنے والے کے لئے ہی ہوتی ہے۔“

یا یہاں ” اشترطي“ کا مطلب خبر دینا اور بتانا ہو گا  جیسے عربی میں کہتے ہیں: ”اشتراط الساعۃ“ قیامت کی خبریں اور نشانیاں۔ تو درست ترجمہ ہو گا: ”انہیں ولاء کا  درست مسئلہ بتا دیں کہ ولاء آزاد کرنے والی کی ہی ہوتی ہے۔“

(4) اور امام ابن سیرین رحمہ اللہ کی حدیث میں جس اونٹ کے خریدنے کا ذکر ہے ،اگر وہ مکمل واقعہ پڑھیں تو پتا چلے گا کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ اونٹ خریدا ہی نہیں تھا۔ اس لئے اس حدیث کی بنیاد پر عقد میں شرط لگانے کی اجازت نہیں نکلتی۔[5]

(5) عقد میں شرط لگانا لازم تو کسی کے نزدیک نہیں ہے اور بہت سے علما کے نزدیک عقد میں شرط لگانا ناجائز ہے تو اگر عقد میں شرط نہیں لگائیں گے تو سب کے موقف پر عمل ہو جائے گا۔

(6) عقد میں شرط نہیں لگائیں گے تو باقی احادیث پر بھی عمل ہو جائے گا۔

حواشی:

[1] : ولاء کہتے ہیں کہ اگر غلام آزاد ہو جائے اور پھر وراثت میں کچھ جائیداد وغیرہ چھوڑ کر فوت ہو تو وہ جائیداد بالآخر اس کے مالک کو ملتی ہے۔

[2] : اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ کو شرط کے ساتھ عقد کرنے کی اجازت عطا فرمائی اور پھر وہ شرط پوری کرنا بھی ضروری قرار نہیں دیا جس سے معلوم ہوا کہ خرید و فروخت میں شرط لگانا جائز ہے اور وہ شرط پوری کرنا بھی لازم نہیں ہے۔ یعنی شرط لگا کر عقد کرنا بھی بغیر شرط لگائے عقد کرنے  جیسا ہی ہے۔

[3] : اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے شرط کے ساتھ عقد بھی کیا اور اسے پورا بھی کیا جس سے پتا چلا کہ عقد میں شرط لگانا بھی جائز ہے اور اسے پورا کرنا بھی ضروری ہے۔

[4] : ولاء کہتے ہیں کہ اگر غلام آزاد ہو جائے اور پھر وراثت میں کچھ جائیداد وغیرہ چھوڑ کر فوت ہو تو وہ جائیداد بالآخر اس کے مالک کو ملتی ہے۔

[5] : مبسوط للسرخسی ، جلد13، صفحہ 14، دار المعرفہ، بیروت

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button