فضائل دُرود شریف
دُرود شریف پڑھنے کے فضائل میں احادیث بکثرت وارد ہیں تبرکًا بعض ذکر کی جاتی ہیں۔
حدیث ۱: صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ فرماتے ہیں ﷺ جو مجھ پر ایک بار دُرود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار دُرود ناز ل فرمائے گا۔
حدیث ۲: نسائی کی روایت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یوں ہے کہ فرماتے ہیں جو مجھ پر ایک بار دُرود بھیجے اللہ عزوجل اس پر دس دُرودیں نازل فرمائے گا اور اس کی دس خطائیں محو فرمائے گا اور دس درجے بلند فرمائے گا۔
حدیث ۳: امام احمد عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰٗ عنہما سے راوی کہ فرماتے ہیں جو نبی ﷺ پر ایک بار دُرود بھیجے اور اللہ عزوجل اور فرشتے اس پر ستر بار دُرود بھیجتے ہیں۔
حدیث ۴: درمختار میں بروایت اصبہائی اِنس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مجھ پر ایک بار دُرود بھیجے اور وہ قبول ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے اَسّی (۸۰) برس کے گناہ معاف فرما دیگا۔
حدیث ۵: ترمذی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ قیامت کے دن مجھ سے سب میں زیادہ قریب وہ ہو گا کہ جس نے سب سے زیادہ مجھ پر دُرود بھیجا ہے۔
حدیث ۶: نسائی و دارمی اُنھیں سے راوی کہ حضورِ اقدس ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ کے کچھ فارغ فرشتے ہیں جو زمین میں سیر کرتے رہتے ہیں۔ میری اُمّت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔
حدیث ۷: ترمذی میں انہیں سے ہے کہ فرماتے ہیں ﷺ اس کی ناک خاک میں ملے جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور مجھ پر دُرود نہ بھیجے اور اس کی ناک خاک میں ملے جس کو رمضان کا مہینہ آیا اور اس کی مغفرت سے پہلے چلا گیا اور اس کی ناک خاک میں ملے جس نے ماں باپ دونوں یا ایک کو ان کے بڑھاپے میں پایا اور انہوں نے اس کو جنت میں داخل نہ کیا (یعنی ان کی خدمت و اطاعت نہ کی کہ جنت کا مستحق ہو جاتا)۔
حدیث ۸: ترمذی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور فرماتے ہیں پورا بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہوا اور مجھ پر دُرود نہ بھیجے۔
حدیث ۹: نسائی و دارمی نے روایت کی کہ ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضور تشریف لائے اور بشاشت چہرۂ اقدس پر نمایاں تھی فرمایا میرے پاس جبریل علیہ السّلام آئے اور کہا آپ کا ربّ فرماتا ہے کہ آپ راضی نہیں کہ آپ کی اُمّت میں جو کوئی آپ پر سلام بھیجے میں اس پر دس بار دُرود بھیجوں گا اور آپ کی اُمّت میں جو کوئی آپ پر سلام بھیجے میں اس پر دس بار سلام بھیجوں گا۔
حدیث ۱۰: ترمذی شریف میںہے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں بکثرت دُعا مانگتا ہوں تو اس میں سے حضور پر دُرود کے لئے کتنا وقت مقرر کروں فرمایا جو تم چاہو عرض کی چوتھائی فرمایا جو تم چاہو اور اگر زیادہ کرو تو تمہارے لئے بہتری ہے میں نے عرض کی نصف فرمایا جو تم چاہو اور زیادہ کرو تو تمہارے لئے بھلائی ہے۔ میں نے عرض کی دو تہائی فرمایا جو تم چاہو اگر زیادہ کرو تو تمہارے لئے بہتری ہے میں نے عرض کی تو کُل دُرود ہی کے لئے مقرر کروں تو فرمایا ایسا ہے تو تمہارے کاموں کی اللہ کفایت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔
حدیث ۱۱: امام احمد ردیفع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں جو دُرود پڑھے اور یہ کہے اَللَّھُمَّ اَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (اے اللہ تو اپنے محبوب کو قیامت کے دن ایسی جگہ میں اتار جوتیرے نزدیک مقرب ہے)
اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔
حدیث ۱۲: ترمذی نے روایت کی کہ امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں دُعا آسمان اور زمین کے درمیان معلّق ہے چڑھ نہیں سکتی جب تک نبی ﷺ پر دُرود نہ بھیجے۔
مسئلہ ۱۱۳: عمر میںایک بار دُرود شریف پڑھنا فرض ہے اور ہر جلسۂ ذکر میں دُرود شریف واجب خواہ نام اقدس لے یا دوسرے سے سُنے اور اگر مجلس میں سو بار ذکر آئے تو ہر بار دُرود شریف پڑھنا چاہیے اگر نام اقدس سُنا اور دُرود شریف اس وقت نہ پڑھا تو کسی دوسرے وقت میں اس کے بدلے کا پڑھ لے۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۸۰ وغیرہ)
مسئلہ ۱۱۴: گاہک کو سودا دکھاتے وقت تاجر کا اس غرض سے دُرود شریف پڑھنا یا سبحان اللہ کہنا کہ اس چیز کی عمدگی خریدار پر ظاہر کرے ناجائز ہے یوہیں کسی بڑے کو دیکھ کر دُرود شریف پڑھنا اس نیت سے کہ لوگوں کو اس کے آنے کی خبر ہو جاے اس کی تعظیم کو اُٹھیں اور جگہ چھوڑ دیں ناجائز ہے ۔(درمختار ردالمحتار ج ۱ ص ۴۸۳)
مسئلہ ۱۱۵: جہاں تک ممکن ہو دُرود شریف پڑھنا مستحب ہے اور خصوصیت کے ساتھ ان جگہوں میں (۱) روز جمعہ (۲) شبِ جمعہ(۳،۴) صبح و شام (۵)مسجد میں جاتے (۶) مسجد سے نکلتے (۷) بوقت بوقت زیارت روضہ اطہر (۸،۹) صفا و مروہ پر خطبہ میں (۱۰) جو اب اذان کے بعد(۱۱) بوقت اقامت (۱۲) دُعا کے اول آخر بیچ میں (۱۳) دُعائے قنوت کے بعد (۱۴) حج میں لبیک سے فارغ ہونے کے بعد (۱۵) اجتماع و فراق کے وقت (۱۶) وضو کرتے وقت (۱۷) جب کوئی چیز بھول جائے اس وقت (۱۸،۱۹،۲۰) وعظ کہنے اور پڑھنے اور پڑھانے کے وقت خصوصاً حدیث شریف پڑھنے کے اول آخر (۲۱،۲۲) سوال و فتویٰ لکھتے وقت (۲۳) تصنیف کے وقت (۲۴،۲۵) نکاح اور منگنی اور جب کوئی بڑا کام کرنا ہو۔ نام اقدس لکھے تو دُرود ضرور لکھے کہ بعض علماء کے نزدیک اس وقت دُرود شریف لکھنا واجب ہے۔ (درمختار ردالمحتار ج ۱ ص ۴۸۳)
مسئلہ ۱۱۶: اکثر لوگ آج کل دُرود شریف کے بدلے صلعم ، عم، ص، ؑ لکھتے ہیں یہ ناجائز و سخت حرام ہے یوہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ؓ رحمتہ اللہ تعالیٰ کی جگہ ؒ لکھتے ہیں یہ بھی نہ چاہیے جن کے نام محمد، احمد، علی حسن حسین وغیرہ ہوتے ہیں ان ناموں پر ؐ ؑ بناتے ہیں یہ بھی ممنوع ہے کہ اس جگہ تو یہ شخص مراد ہے اس پر دُرود کا اشارہ کیا معنی (طحطاوی وغیرہ)
مسئلہ ۱۱۷: قعدہ اخیرہ کے علاوہ فرض نماز میں دُرود شریف پڑھنا نہیں اور (۸۰) نوافل کے قعدہ اُولیٰ میں بھی مسنون ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۸۴) (۸۱) دُرود کے بعد دُعا پڑھنا۔
مسئلہ ۱۱۸ (۸۲) دُعا عربی زبان میں پڑھے غیر عربی میں مکروہ ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۸۶)
مسئلہ ۱۱۹ : اپنے اور اپنے والدین و اساتذہ کے لئے جب کہ مسلمان ہوں اور تمام مومنین و مومنات کے لئے دُعا مانگے خاص اپنے ہی لئے نہ مانگے ۔(درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۴۸۶، عالمگیری ج ۱ ص ۷۶)
مسئلہ ۱۲۰ : ماں باپ اور اساتذہ کے لئے مغفرت کی دُعا حرام ہے جب کہ کافر ہوں اور مر گئے ہوں تو دُعائے مغفرت کو فقہاء نے کُفر تک لکھا ہے ہاں اگر زندہ ہوں تو ان کے لئے ہدایت و توفیق کی دُعاکرے ۔(درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۴۸۷)
مسئلہ ۱۲۱ : محالات عادیہ و محالات شرعیہ کی دُعا حرام ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۸۷)
مسئلہ ۱۲۲ : وہ دُعائیں کہ قرآن و حدیث میں ہیں ان کے ساتھ دُعا کرے مگر ادعیہ قرآنیہ بہ نیت قرآن اس موقع پر پڑھنا جائز نہیں بلکہ قیام کے علاوہ نماز میں کسی جگہ قرآن پڑھنے کی اجازت نہیں۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۴۸۸)
مسئلہ ۱۲۳ : نماز میں ایسی دُعائیں جائز نہیں جن میں ایسے الفاظ ہوں جو آدمی ایک دوسرے سے کہا کرتا ہے مثلاً اَللَّھُمَّ زوّجْنِیْ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۶)
مسئلہ ۱۲۴ : مناسب یہ ہے کہ نماز میں جو دُعا یاد ہو وہ پڑھے اور غیر نماز میں بہتر یہ ہے کہ جو دُعا کرے وہ حفظ سے نہ ہو بلکہ وہ جو قلب میں حاضر ہو۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۴۸۹)
مسئلہ ۱۲۵ : مستحب یہ ہے کہ آخر نماز میں بعد اذکار یہ دُعا پڑھے۔
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلوٰۃِ وَمِنْ ذُرِیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَّبَلْ دُعَآ ط رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُوْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ ط
(اے میرے پروردگار تو مجھ کو اور میری ذریت کو نماز قائم کرنے والا بنا اور اے رب تو میری دُعا قبول فرما اے رب تو میری اور میرے والدین اور ایمان والوں کی قیامت کے دن مغفرت فرما) (عالمگیری ج ۱ ص ۷۶)
(۸۳) مقتدی کے تمام انتقالات امام کے ساتھ ساتھ ہونا (۸۴،۸۵) اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ دو بار کہنا (۸۶) پہلے دہنی طرف پھر (۸۷) بائیں طرف۔
مسئلہ ۱۲۶ : دہنی طرف سلام میں منہ اتنا پھیرے کہ دہنا رخسار دکھائی دے اور بائیں میں بایاں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۶)
مسئلہ ۱۲۷ : علیکم السَّلام کہنا مکروہ ہے یوہیں آخر میں وَ بَرکاتُہ‘ ملانا بھی نہ چاہیے۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۹۱)
مسئلہ ۱۲۸ : (۸۸) سُنّت یہ ہے کہ امام دونوں سلام بلند آواز سے کہے (۸۹) مگر دوسرا بہ نسبت پہلے کے کم آواز سے ہو۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۹۱)
مسئلہ ۱۲۹ : اگر پہلے بائیں طرف سلام پھیر دے تو جب تک کلام نہ کیا ہو دوسرا دہنی طرف پھیر لے پھر بائیں طرف سلام کے اعادہ کی حاجت نہیں اور اگر پہلے میں کسی طرف منہ پھیرا تو دوسرے میں بائیں طرف منہ کرے اور اگر بائیں طرف سلام پھیرنا بھول گیا تو جب تک قبلہ کو پیٹھ نہ ہو یا کلام نہ کیا ہو کہہ لے۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۹۰، عالمگیری ردالمحتار ج ۱ ص ۴۹۰)
مسئلہ ۱۳۰ : امام نے جب سلام پھیرا تو وہ مقتدی بھی سلام پھیر دے جس کی کوئی رکعت نہ گئی ہو البتہ اگر اس نے تشہد پورا نہ کیا تھا کہ امام نے سلام پھیر دیا تو امام کا ساتھ نہ دے بلکہ واجب ہے کہ تشہد پورا کر کے سلام پھیرے۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۹۰)
مسئلہ ۱۳۱ : امام کے سلام پھیر دینے سے مقتدی نما زسے باہر نہ ہوا جب تک یہ خود بھی سلام نہ پھیرے یہاں تک کہ اگر اس نے امام کے سلام کے بعد اور اپنے سلام کے پیشتر قہقہہ لگایا وضو جاتا رہے گا۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۹۰)
مسئلہ ۱۳۲ : مقتدی کو امام سے پہلے سلام پھیرنا جائز نہیںمگر بضرورت مثلاً خوفِ حدث ہو یا اندیشہ ہو کہ آفتاب طلوع کر آئے گا یا جمعہ یا عیدین میں وقت ختم ہو جائے گا۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۴۹۰)
مسئلہ ۱۳۳: پہلی بار لفظ سلام کہتے ہی امام نماز سے باہر ہو گیا اگرچہ علیکم نہ کہا ہو اس وقت اگر کوئی شریکِ جماعت ہوا تو اقتدأ صحیح نہ ہوئی اگر سلام کے بعد سجدہ سہو کیا تو اقتدأ صحیح ہو گئی۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۴۹۰)
مسئلہ ۱۳۴ : امام داہنے سلام میں خطاب سے ان مقتدیوں کی نیت کرے جو داہنی طرف میں اور بائیں سے بائیں طرف والوں کی مگر عورت کی نیت نہ کرے اگرچہ شریکِ جماعت ہوں نیز دونوں سلاموں میں کراماً کاتبین اور ان ملائکہ کی نیت کرے جن کو اللہ عزوجل نے حفاظت کے لئے مقرر کیا ور نیت میں کوئی عدد معین نہ کرے۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۹۲)
مسئلہ ۱۳۵ : مقتدی بھی ہر طرف کے سلام میں اس طرف والے مقتدیوں اور ملائکہ کی نیت کرے نیز جس طرف امام ہو اس طرف کے سلام میں امام کی بھی نیت کرے اور امام اس کے محاذی ہو تو دونوں سلاموں میں امام کی بھی نیت کرے اور منفرد صرف اُن فرشتوں ہی کی نیت کرے۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۹۴)
مسئلہ ۱۳۶ : سلام کے بعد سُنّت یہ ہے کہ امام داہنے یا بائیں کو انحراف کرے اور داہنی طرف افضل ہے اور مقتدیوں کی طرف بھی منہ کر کے بیٹھ سکتا ہے جب کہ کوئی مقتدی اس کے سامنے نماز میں نہ ہو اگرچہ وہ کسی پچھلی صف میں نماز پڑھتا ہو ۔(حلیہ وغیرہ)
مسئلہ ۱۳۷ : منفر بغیر انحراف اگر وہیں دُعا مانگے تو جائز ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۷)
مسئلہ ۱۳۸ : ظہر، مغرب، عشاء کے بعد مختصر دُعائوں پر اکتفا کر کے سُنّت پڑھے زیادہ طویل دُعائوں میں مشغول نہ ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۷)
مسئلہ ۱۳۹ : فجر و عصر کے بعد اختیار ہے جس قدر اذکار اور اورادعیہ پڑھنا چاہے پڑھے مگر مقتدی اگر امام کے ساتھ مشغول بہ دُعا ہوں اور ختم کے منتظر ہوں تو امام اس قدر دُعا طویل نہ کرے کہ گھبرا جائیں۔ (فتاویٰ رضویہ)
مسئلہ ۱۴۰ : سنتیں وہیں نہ پڑھے بلکہ داہنے بائیں آگے پیچھے ہٹ کر پڑھے یا گھر جا کر پڑھے۔(عالمگیری ج ۱ ص ۷۷، درمختار ج ۱ ص ۴۹۶)
مسئلہ ۱۴۱ : جن فرضوں کے بعد سنتیں ہیں ان میں بعد فرض کلام نہ کرنا چاہیے اگرچہ سنتیں ہو جائیں گی مگر ثواب کم ہو گا اور سنتوں میں تاخیر بھی مکروہ ہے یوہیں بڑے بڑے وظائف و اوراد کی بھی اجازت نہیں۔ (غنیہ، ردالمحتار ج ۱ ص ۴۹۵)
مسئلہ ۱۴۲ : افضل یہ ہے کہ نماز فجر کے بعد بلندی آفتاب تک وہیں بیٹھا رہے۔ (عالمگیری)