فتوی دینے کے متعلق احتیاط و مسائل
مسئلہ ۱: فتوی دینا حقیقۃً مجتہد کا کام ہے کہ مسائل کے سٔوال کا جواب کتاب و سنت و اجماع و قیاس سے وہی دے سکتاہے۔ افتا کا دوسرا مرتبہ نقل ہے یعنی صاحب مذہب سے جو بات ثابت ہے سائل کے جواب میں اسے بیان کر دینا اس کا کام ہے اور یہ حقیقۃً فتوی دینا نہ ہوا بلکہ مستفتی کے لئے کے لئے مفتی (مجتہد) کا قول نقل کر دینا ہوا کہ وہ اس پر عمل کرے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۲: مفتی ناقل کے لئے یہ امر ضروری ہے کہ قول مجتہد کو مشہور و متد اول و معتبر کتابوں سے اخذ کرے غیر مشہور کتاب سے نقل نہ کرے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۳: فاسق مفتی ہو سکتا ہے یا نہیں اکثر متأخرین کی رائے یہ ہے کہ نہیں ہو سکتا کیوں کہ فتوی امور دین سے ہے اور فاسق کی بات دیانات میں نامعتبر۔ فاسق سے فتوی پوچھنا ناجائزاور اس کے جواب پر اعتماد نہ کرے کہ علم شریعت ایک نور ہے جو تقوی کرنے والوں پر فائض ہوتا ہے جو فسق و فجور میں مبتلا ہوتا ہے اس سے محروم رہتا ہے۔ (درمختار ج ۴ ص ۳۰۱)
مسئلہ ۴: ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ اس سے دینی سوالات کرتے ہیں اور وہ جواب دیتا ہے اور لوگ اسے عظمت کی نظر سے دیکھتے ہیں اگرچہ اس کو یہ معلوم نہیں کہ یہ کون ہیں اور کیسے ہیں اس کو فتوی پوچھنا جائز ہے کہ مسلمانوں کو ان کے ساتھ ایسا برتائو کرنا اس کی دلیل ہے کہ یہ قابل اعتماد شخص ہیں ۔ (ردالمحتار ص ۳۰۱)
مسئلہ ۵: مفتی کو بیدار مغز ہوشیار ہونا چاہئے غفلت برتنا اس کے لئے درست نہیں کیوں کہ اس زمانہ میں اکثر حیلہ سازی اور ترکیبوں سے واقعات کی صورت بدل کر فتوی حاصل کر لیتے ہیں اور لوگوں کے سامنے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ فلاں مفتی نے مجھے فتوی دیا ہے محض فتوی ہاتھ میں ہونا ہی اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں بلکہ مخالف پر اس کی وجہ سے غالب آجاتے ہیں اس کو کون دیکھے کہ واقعہ کیا تھا اور اس نے سوال میں کیا ظاہر کیا۔ (ردالمحتار ص ۳۰۵)
مسئلہ ۶: مفتی پر یہ بھی لازم ہے کہ سائل سے واقعہ کی تحقیق کر لے اپنی طرف سے شقوق نکال کر سائل کے سامنے بیان نہ کرے مثلاً یہ صورت ہے تو یہ حکم ہے اور یہ ہے تو یہ حکم ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو صورت سائل کے موافق ہوتی ہے اسے اختیار کر لیتا ہے اور گواہوں سے ثابت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو گواہ بھی بنا لیتا ہے بلکہ بہتر یہ کہ نزاع معاملات میں اس وقت فتوی دے جب فریقین کو طلب کرے اور ہر ایک کے متعلق مسائل دوسرے کی موجودگی میں سنے اور جس کے ساتھ حق دیکھے اسے فتوی دے دوسرے کو نہ دے۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۷: استفتا کا جواب اشارہ سے بھی دیا جا سکتا ہے مثلاً سر یا ہاتھ سے ہاں کا اشارہ کر سکتا ہے اور قاضی کسی معاملہ کے متعلق اشارہ سے فیصلہ نہیں کر سکتا۔ (درمختار)
مسئلہ۸: قاضی بھی لوگوں کو فتوی دے سکتا ہے کچہری میں بھی اور بیرون اجلاس میں بھی مگر متخاصمین (مدعی ، مدعی علیہ) کو ان کے دعوے کے متعلق فتوی نہیں دے سکتا دوسرے امور میں انھیں بھی فتوی دے سکتا ہے۔ (درمختار ، ردالمحتار ص ۳۰۲)
مسئلہ ۹: مفتی اگر اونچا سنتا ہے اس کے پاس تحریری سوال پیش ہوا اس نے لکھ کر جواب دے دیا اس پر عمل درست ہے مگر جو شخص کار افتا پر مقرر ہو اس کے پاس دیہاتی اور عورتیں ہر قسم کے لوگ فتوی پوچھنے آتے ہیں اس کی سماعت ٹھیک ہو نی چاہئیے کیوں ہر شخص تحریر پیش کرے دشوار ہے اور جب سماعت ٹھیک نہیں ہے تو بہت ممکن ہے کہ پوری بات نہ سنے اور فتوی دے دے یہ فتوی قابل اعتبار نہ ہوگا۔ (ردالمحتار)
مسئلہ۰ ۱: امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا قول سب پر مقد م ہے پھر قول امام ابو یوسف پھر قول امام محمد پھر امام زفرو حسن بن زیادکا قول البتہ جہاں اصحاب فتوی اور اصحاب ترجیح نے امام اعظم کے علاوہ دوسرے قول پر فتوی دیا ہو یا ترجیح دی ہو تو جس پر فتوی یا ترجیح ہے اس کے موافق فتوی دیا جائے۔ (درمختار ، ردالمحتار ص ۳۰۲)
مسئلہ ۱۱: جو شخص فتوی دینے کا اہل ہو اس کے لئے فتوی دینے میں کوئی حرج نہیں ۔ (عالمگیری) بلکہ فتوی دینا لوگوں کو دین کی بات بتانا ہے اور یہ خود ایک ضروری چیز ہے کیوں کہ کتمان علم حرام ہے۔
مسئلہ ۱۲: حاکم اسلام پر یہ لازم ہے کہ اس کا تجسس کرے کون فتوی دینے کے قابل ہے اور کون نہیں ہے جو نا اہل ہو اسے کام سے روک دے کہ ایسوں کے فتوے سے طرح طرح کی خرابیاں واقع ہوتی ہیں جن کا اس زمانہ میں پوری طور پرمشاہدہ ہو رہا ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۳: فتوے کے شرائط سے یہ بھی ہے کہ سائلین کی ترتیب کا لحاظ رکھے امیر و غریب کا خیال نہ کرے یہ نہ ہو کہ کوئی مالدار یا حکومت کا ملازم ہو تو اس کو پہلے جواب دے دے اور پیشتر سے جو غریب لوگ بیٹھے ہوئے ہیں انھیں بٹھائے رکھے بلکہ جو پہلے آیا اسے پہلے جواب دے اور جو پیچھے آیا اسے پیچھے کسے باشد۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۴: مفتی کو یہ چاہیئے کہ کتاب کو عزت و حرمت کے ساتھ لے کتاب کی بے حرمتی نہ کرے اور جو سوال اس کے سامنے پیش ہو اسے غور سے پڑھے پہلے سوال کو خوب اچھی طرح سمجھ لے اس کے بعد جواب دے۔ (عالمگیری) بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ سوال میں پیچیدگیاں ہوتی ہیں جب تک مستفتی سے دریافت نہ کیا جائے سمجھ میں نہیں آتا ایسے سوال کو مستفتی سے سمجھنے کی ضرورت ہے اس کی ظاہر عبارت پر ہرگز جواب نہ دیا جائے۔ اور یہ بھی ہوتا ہے کہ سوال میں بعض ضروری باتیں مستفتی ذکر نہیں کرتا اگرچہ اس کا ذکر نہ کرنا بددیانتی کی بنا پر نہ ہو بلکہ اس نے اپنے نزدیک اس کو ضروری نہیں سمجھا تھا مفتی پر لازم ہے کہ ایسی ضروری باتیں سائل سے دریافت کر لے تاکہ جواب واقعہ کے مطابق ہو سکے اور جو کچھ سائل نے بیان کر دیا ہے مفتی اس کو جواب میں ظاہر کر دے تاکہ یہ شبہہ نہ ہو کہ جواب و سؤال میں مطابقت نہیں ہے۔
مسئلہ۵ ۱: سوال کا کاغذ ہاتھ میں لیا جائے اور جواب لکھ کر ہاتھ میں دیا جائے اسے سائل کی طرف پھینکا نہ جائے کیوں کہ ایسے کاغذت میں اکثر اللہ عزوجل کا نام ہوتا ہے قرآن کی آیات ہوتی ہیں حدیثیں ہوتی ہیں ان کی تعظیم ضروری ہے اور یہ چیزیں نہ بھی ہوں تو فتوی خود تعظیم کی چیز ہے کہ اس میں حکم شریعت تحریر ہے حکم شرع کا احترام لازم ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۶: جواب کو ختم کرنے کے بعد واللہ تعالی اعلم یا اس کے مثل دوسرے الفاظ تحریر کر دینا چاہیئے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۷: مفتی کے لئے یہ ضروری ہے کہ بردبار خوش خلق ہنس مکھ ہو نرمی کے ساتھ بات کرے غلطی ہو جائے تو واپس لے اپنی غلطی سے رجوع کرنے میں کبھی دریغ نہ کرے یہ نہ سمجھے کہ مجھے لوگ کیا کہیں گے کہ غلط فتوی دے کر رجوع نہ کرنا حیا سے ہو یا تکبر سے بہرحال حرام ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۸: ایسے وقت میں فتوی نہ دے جب مزاج صحیح نہ ہو مثلاً غصہ یا غم یا خوشی کی حالت میں طبیعت ٹھیک نہ ہو تو فتوی نہ دے۔ یونہی پاخانہ پیشاب کی ضرورت کے وقت فتوی نہ دے ہاں اگر اسے یقین ہے کہ اس حالت میں بھی صحیح جواب ہو گا تو فتوی دینا صحیح ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۹: بہتر یہ ہے کہ فتوی پر سائل سے اجرت نہ لے مفت جواب لکھے اور وہاں والوں نے اگر اس کی ضروریات کا لحاظ کر کے گزارہ کے لائق مقرر کر رکھا ہو کہ عالم دین دین کی خدمت میں مشغول رہے اور اس کی ضروریات لوگ اپنے طور پر پورے کریں یہ درست ہے۔ (بحرالرائق)
مسئلہ ۲۰: مفتی کو ہدیہ قبول کرنا اور دعوت خاص میں جانا جائز ہے۔ (عالمگیری) یعنی جب اسے اطمینان ہو کہ ہدیہ یا دعوت کی وجہ سے فتوی میں کسی قسم کی رعایت نہ ہو گی بلکہ حکم شرع بلا کم و کاست ظاہر کرے گا۔
مسئلہ ۲۱: امام ابو یوست رحمۃ اللہ تعالی سے فتوی پوچھا گیا وہ سیدھے بیٹھ گئے اور چادر اوڑھ کر عمامہ باندھ کر فتوی دیا یعنی افتا کی عظمت کا لحاظ کیا جائے گا۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۲۲: اس زمانہ میں کہ علم دین کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بہت کم باقی ہے اہل علم کو اس قسم کی باتوں کی طرف توجہ کی بہت ضرورت ہے جن سے علم کی عظمت پیدا ہو اس طرح ہرگز تواضع نہ کی جائے کہ علم و اہل علم کی وقعت میں کمی پیدا ہو۔ سب سے بڑھ کر جو چیز تجربہ سے ثابت ہوئی وہ احتیاج ہے جب اہل دنیا کو یہ معلوم ہوا کہ ان کو ہماری طرف احتیاج ہے وہیں وقعت کا خاتمہ ہے۔
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔