ARTICLES

فاسد تاویل سے ممنوعات احرام کے مرتکب میں مذاہب

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اپ کے فتاویٰ میں مذکور ہے کہ اگر کوئی شخص عمرہ حلق یا تقصیر کے بغیر احرام کھول دے اور ممنوعات احرام کا ارتکاب شروع کر دے اور اس کا گمان یہ ہو کہ وہ احرام سے باہر ہو گیا ہے تو اس پر حلق یا تقصیر اور جملہ ممنوعات کے ارتکاب پر صرف ایک دم لازم ہو گا اور اگر وہ جانتا ہے کہ اس طرح وہ احرام سے نہ نکلے گا یا اسے اس مسئلہ میں شک ہو تو جتنے جرم اتنی ہی جزائیں لازم ہوں گی، اور اس میں اپ نے مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی کی کتاب ’’حیات القلوب فی زیارت المحبوب‘‘ کا حوالہ پیش فرمایا ہے ، اب پوچھنا یہ ہے کہ اسے مخدوم علیہ الرحمہ کے علاوہ کسی اور نے بھی ذکر کیا ہے یا نہیں ؟

(السائل : حافظ محمد بلال قادری، مکہ مکرمہ)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : مخدوم محمد ہاشم بن عبد الغفور ٹھٹوی حنفی متوفی 1174ھ نے اس باب میں جو لکھا ہے وہ یہ ہے کہ :

پس چنیں خارج نگردد بہ نیت رفض و احلال و واجب اید بر این شخص دم واحد برائے جمیع انچہ ارتکاب کرد ہر چند کہ ارتکاب کرد جمیع محظورات را متعدد نشود بروے جزاء، بہ تعدد جنایات چون نیت کردہ است رفض احرام را زیرانکہ او ارتکاب نمودہ است محظورات را بتاویل اگرچہ فاسد است، معتبر باشد در رفع ضمانات دنیویہ، پس گویا کہ موجود شدند این ہمہ محظورات از جہۃ واحدہ بسببے واحد، پس متعدد نگردد جزاء بروے این مذہب ماست، و نزد امام شافعی لازم اید بروے برائے ہر محظورے جزاء علیحدہ (48)

یعنی، اور اس طرح احرام توڑنے اور حلال ہونے کی نیت سے بھی احرام سے خار ج نہ ہو گا اور اس شخص پر تمام ممنوعات کے ارتکاب کا ایک ہی دم واجب ہو گا چاہے تمام ممنوعات کا مرتکب ہوا ہو اور جب اس نے احرام توڑنے کی نیت کر لی تو متعدد جنایات پر متعدد جزائیں اس لئے واجب نہ ہوں گی کہ ان ممنوعات کا ارتکاب اس نے تاویل سے کیا ہے ، اور وہ تاویل گو کہ فاسد ہے مگر وہ دنیوی ضمانتوں کے اٹھ جانے کے بارے میں معتبر ہو گی، پس گویا کہ یہ تمام ممنوعات ایک ہی جہت سے ایک ہی سبب کے باعث واقع ہوئے اس لئے جزائیں بھی اس پر متعدد واجب نہ ہوں گی یہ ہمارا مذہب ہے ، مگر امام شافعی کے نزدیک ہر ممنوع پر جزاء علیحدہ ہو گی۔ یہ مسئلہ صرف مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی علیہ الرحمہ نے ہی ذکر نہیں کیا بلکہ اسے متعدد فقہاء کرام نے ذکر کیا ہے چنانچہ امام سرخسی حنفی لکھتے ہیں :

و کذلک بنیۃ الرفض و ارتکاب المحظورات فھو محرم علی حالہ الا ان علیہ بجمیع ما صنع دم واحد، لما بینا ان ارتکاب المحظورات استند الی قصدٍ واحدٍ و ھو تعجیل الاحلال، فیکفیہ دم واحد (49)

یعنی، اسی طرح احرام توڑنے کی نیت سے اور ممنوعات (احرام ) کاارتکاب توبحالت احرام ہے مگر یہ کہ اس نے جو کچھ کیاسب کاایک دم ہوگااس وجہ سے جو ہم نے بیان کیا کہ ممنوعات کاارتکاب ایک قصد کی طرف منسوب ہوا اور وہ ہے احرام کھولنے میں جلدی کرنا ۔ پس اسے ایک دم کافی ہے ۔ اور علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبد اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ نے ’’اللباب‘‘ (50) میں اور ان کے حوالے سے علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252ھ نے ’’رد المحتار‘‘ (51) ،اور ’’منحۃ الخالق‘‘ (52) میں ذکر کیا ہے چنانچہ ’’اللباب‘‘ کی عبارت یہ ہے :

اعلم انہ اذا نوی رفض الاحرام فجعل یصنع ما یصنعہ الحلال من لبس الثیاب و التطیب و الحلق و الجماع و قتل الصید، فانہ لا یخرج بذلک من الاحرام، و علیہ ان یعود کما کان محرما، و یجب دم واحد لجمیع ما ارتکب، و لو کل المحظورات، و انما یتعدد الجزائ بتعدد الجنایات اذا لم ینو الرفض، ثم نیہ الرفض انما تعتبر ممن زعم انہ یخرج منہ بہذا القصد لجہلہ مسالۃ عدم الخروج

یعنی، جان لیجئے کہ محرم نے جب احرام توڑنے کی نیت کرلی اور وہ ان کاموں میں شروع ہو گیا جو غیر محرم کرتا ہے جیسے سلے ہوئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، حلق کروانا، جماع کرنا اور شکار کو مارنا تو وہ اس (نیت) سے احرام سے نہیں نکلے گا اور اس پر لازم ہے وہ لوٹ ائے جیسا کہ محرم تھا (یعنی احرام کی پابندیاں شروع کر دے ) اور اس نے جن (ممنوعات احرام) کا ارتکاب کیا سب کا ایک دم لازم ہے اگرچہ ہر ممنوع (کا مرتکب ہوا) ہو، جنایات کے تعدد سے جزاء متعدد صرف تب ہو گی جب اس نے احرام توڑنے کی نیت نہ کی، پھر احرام توڑنے کی نیت صرف اس سے معتبر ہے جو عدم خروج کے مسئلہ سے لا علمی کی وجہ سے یہ گمان رکھتا ہو کہ وہ اس نیت سے احرام سے نکل گیا۔ اور اس کی تائید شکار کے باب میں ذکر کردہ اس مسئلہ سے بھی ہوتی ہے جب محرم نے احرام توڑنے کی نیت سے متعدد شکار کئے تو اس پر صرف ایک دم لازم ہو گا چنانچہ امام حاکم شہید محمد بن محمد مروزی حنفی متوفی 344ھ (53)، فقیہ ابو اللیث نصر بن محمد سمرقندی حنفی متوفی 373ھ (54)، شمس الائمہ محمد بن احمد بن سہل سرخسی حنفی (55)، علامہ علاؤ الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی متوفی 587 (56)، امام ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی 593ھ (57)، امام کمال الدین محمد بن عبد الواحد ابن ہمام حنفی متوفی 861ھ (58) اور ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ (59) لکھتے ہیں :

و لو اصاب المحرم صیودا کثیرۃً ینوی بذلک رفض الاحرام متاولا فعلیہ جزائ واحد ۔ و اللفظ للقاری

یعنی، محرم نے اگر بہت سے شکار کئے اس سے وہ تاویل کرتے ہوئے احرام توڑنے کی نیت کرتا ہے تو اس پر ایک جزاء لازم ہے ۔ اور اس کی تائید جماع کے باب میں ذکر کردہ اس مسئلہ سے بھی ہوتی ہے کہ جب محرم نے اکثر طواف زیارت ترک کر دیا اور جہالت کی بنا پر سمجھ لیا کہ اب مجھ پر کوئی پابندی باقی نہیں اور اپنی بیوی سے متعدد بار جماع کر لے تو وہ عورتوں کے حق میں محرم ہی ہے اور اس پر ایک جزاء لازم ائے گی چنانچہ امام کمال الدین محمد بن عبد الواحد ابن ہمام حنفی متوفی 861ھ لکھتے ہیں :

و کذا اذا رجع الی اہلہ و قد ترک منہ اربعۃ اشواطٍ یعود بذلک الاحرام، و ہو محرم ابدا فی حق النسائ کلما جامع لزمہ دم اذا تعددت المجالس الا ان یقصد رفض الاحرام بالجماع الثانی (60)

یعنی، اسی طرح جب اپنے اہل کو لوٹا اور اس نے طواف (زیارت) کے چار چکر چھوڑے تھے تو اسی احرام کے ساتھ لوٹے گا اور وہ عورتوں کے حق میں ہمیشہ محرم ہے جب جب جماع کرے گا اسے دم لازم ہو گا جب کہ مجالس متعدد ہوں مگر یہ کہ اس نے جماع ثانی سے احرام توڑنے کی نیت کی ہو۔ اور امام کمال الدین محمد بن عبد الواحد ابن ہمام حنفی متوفی 861ھ امام سرخسی کی ’’مبسوط‘‘ (61) میں مذکورہ عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

فکذا لو تعدد جماع بعد الاول لقصد الرفض فیہ دم واحد (62)

یعنی، پس اسی طرح اگر پہلے جماع کے بعد جماع متعدد بار ہو تو اس میں احرام کو چھوڑنے کے قصد کی وجہ سے ایک دم ہو گا۔ اور علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی 970ھ لکھتے ہیں :

لما کانت المحظورات مستندۃً الی قصدٍ واحدٍ و ھو تعجیل الاحلال کانت متحدۃً فکفاہ دم واحد، و لھذا نص فی ’’ظاہر الروایۃ‘‘ : ان المحرم اذا جامع النسائ و رفض احرامہ و اقام یصنع ما یصنعہ الحلال من الجماع و الطیب و قتل الصید علیہ ان یعود کما کان حرامًا و یلزمہ دم واحد کما ذکرہ فی ’’المبسوط‘‘ (63)

یعنی، جب محظورات ایک قصد کی طرف مستندہ ہیں اور وہ (قصد) احلال میں جلدی کرنا ہے تو وہ (محظورات) متحدہ ہیں لہٰذا اسے ایک دم کافی ہے اور اسی وجہ سے ’’ظاہر الروایہ‘‘ میں تصریح فرمائی ہے کہ محرم نے جب عورت سے جماع کر لیا اور اپنا احرام چھوڑ دیا اور وہ کام کرنے لگا جو بغیر احرام والا کرتا ہے جیسے جماع کرنا (یعنی ہمبستری کرنا) خوشبو لگانا اور شکار کرنا تو اس پر لازم ہے کہ لوٹ ائے جیسا کہ احرام تھا اور اسے ایک دم لازم ہے جیسا کہ اسے ’’مبسوط‘‘ (64) میں ذکر کیا ہے ۔ اور علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088ھ ’’فتح القدیر‘‘ (65) کے حوالے سے لکھتے ہیں :

فکلہا جامع لزمہ دم اذا تعدد المجلس، الا ان یقصد الرفض (66)

یعنی، پس جب جب جماع کرے گا اسے دم لازم ہو گا جب کہ مجلس متعدد ہو مگر یہ کہ اس نے احرام توڑنے کا قصد کر لیا ہو۔ (67) اس کے تحت علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :

ای : فلا یلزمہ شی و ان تعدد المجلس، مع ان نیۃ الرفض باطلۃ، لانہ لا یخرج عنہ الا بالاعمال، لکن لما کانت المحظورات مستندۃً الی قصدٍ واحدٍ و ہو تعجیل الاحلال کانت متحدۃً فکفاہ دم واحد۔ ’’بحر‘‘ (68)

یعنی، پس اسے دوسرے جماع سے کچھ لازم نہ ہو گا اگرچہ مجلس متعدد ہو باوجودیکہ احرام توڑنے کی نیت باطل ہے کیونکہ وہ احرام سے نہ نکلے گا مگر اعمال (کی ادائیگی) سے ، لیکن جب ممنوعات ایک قصد کی طرف مستندہ ہیں اور وہ (قصد) احرام سے فارغ ہونے کی جلدی ہے تو (جنایات) متحدہ ہو گئیں پس اسے ایک دم کافی ہے ۔ ’’بحر الرائق‘‘ (69) اور دوسری کتاب میں لکھتے ہیں :

انہ و ان اخطا فی تاویلہ یرتفع عنہ الضمان (70)

یعنی، تحقیق اس نے اس کی تاویل میں خطا کی اور اس سے تاوان اٹھ جائے گا۔ اور ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

و عندنا انہ اسند ارتکاب المحظورات الی قصدٍ واحدٍ، و ہو تعجیل الاحلال، فیکفیہ لذلک دم واحد، و سواء نوی الرفض قبل الوقوف او بعدہ، الا ان احرامہ یفسد بالجماع قبل الوقوف، و مع ہذا یجب علیہ ان یعود کما کان حراما، لانہ بالافساد لم یصر خارجا منہ قبل الاعمال، و فکذا بنیۃ الرفض و الاحلال و اللٰہ اعلم بالاحوال (71)

یعنی، ہمارے نزدیک اس نے ارتکاب ممنوعات کو ایک قصد کی طرف منسوب کیا اور وہ قصد جلد احرام سے نکلنا ہے پس اسے اس کے لئے ایک دم کافی ہو گا، چاہے احرام توڑنے کی نیت وقوف عرفات سے قبل کی ہو یا وقوف کے بعد، مگر (دونوں میں فرق یہ ہے کہ) و قوف سے قبل جماع سے احرام فاسد ہو جائے گا، اس کے باوجود (کہ اس کا احرام فاسد ہو گیا) اس پر واجب ہو گا کہ لوٹ ائے جیسا کہ احرام میں تھا کیونکہ (حج کو) فاسد کرنے سے ( حج کے بقیہ) اعمال( کی ادائیگی) سے قبل وہ احرام سے خارج نہ ہوا، اس طرح احرام توڑنے اور اس سے باہر نکلنے کی نیت سے (وہ احرام سے باہر نہ ہو گا) اور اللہ تعالیٰ احوال کو بہتر جاننے والا ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی نے لکھا ہے کہ ممنوعات احرام کا ارتکاب اس نے تاویل سے کیا ہے اور اس کی تاویل گو کہ فاسد ہے دنیوی ضمانتوں سے اٹھ جانے میں معتبر ہے (72)، اس بارے میں علامہ ابو منصور محمد بن مکرم کرمانی (73) اور ان کے حوالے سے ملا علی قاری حنفی (74) نقل کرتے ہیں :

لنا : ان التاویل الفاسد معتبر فی دفع الضمانات ا لدنیاویۃ، کالباغی اذا اتلف مال العادل و اراق دمہ لا یضمن لما ذکرنا، و اذا ثبت ہذا فصار کانہ وجد من جہۃٍ واحدۃٍ بسببٍ واحدٍ فلا یتعدد بہ فصار کالوطئ الواحد۔ و اللفظ للکرمانی

یعنی، ہماری دلیل یہ ہے کہ تاویل فاسد دنیوی ضمانات کے دفع کرنے میں معتبر ہے جیسے باغی جب عادل کا مال تلف کر دے اور اس کا خون بہا دے تو ضامن نہ ہو گا اس واسطے جو ہم نے ذکر کیا، پس جب یہ ثابت ہو گیا، تو گویا کہ وہ ایک جہت سے ایک سبب کے باعث پایا گیا لہٰذا اس سے (جزاء) متعدد نہ ہو گی پس وہ ایک ہمبستری کی مثل ہو گیا ۔ اور علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی متوفی 1069ھ لکھتے ہیں :

و التاویل الفاسد معتبر فی رفع الضمان کالباغی ادا اتلف مال العادل فانہ لا یضمن لانہ اتلف عن تاویلٍ کذا فی ’’الکافی‘‘ (75)

یعنی، فاسد تاویل رفع ضمان میں معتبر ہے جیسے باغی جب عادل کا مال تلف کر دے تو وہ ضامن نہ ہو گا کیونکہ اس نے تاویل سے تلف کیا ہے جیسا کہ ’’کافی‘‘ میں ہے ۔ لہٰذا یہ مسئلہ صرف مخدوم علیہ الرحمہ نے ہی بیان نہیں کیا بلکہ دوسرے فقہاء کرام نے بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں ہے ، اور اس مسئلہ میں قیاس کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہر جنایت پر علیحدہ دم لازم ائے ہمارے نزدیک ایک دم کا حکم استحسنانا ہے چنانچہ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

ای : استحسانا عندنا (76)

یعنی، یہ حکم ہمارے نزدیک استحسانا ہے ۔ اور اس مسئلہ میں امام مالک کا مذہب احناف کے مذہب کے موافق ہے البتہ شکار کے معاملے میں امام مالک کا مذہب احناف کے مذہب سے الگ ہے چنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں :

و بہ قال مالک الا فی الصید فانہ لا یتداخل عنہ (77)

یعنی، یہی امام مالک نے فرمایا مگر شکار میں ، پس (متعدد شکار کی صورت میں جنایتیں ) متداخل نہ ہوں گی۔ اور اس مسئلہ میں امام شافعی اور امام احمد کا مذہب یہ ہے کہ جتنی جنایتیں اتنے ہی کفارے لازم ہوں گے چنانچہ امام کرمانی لکھتے ہیں :

و قال الشافعی رحمہ اللہ : لا یعتبر تاویلہ، و یلزمہ لکل محظورٍ و کل صیدٍ کفارۃ علی حدۃ، لان الاحرام لا یرتفع بالتاویل الفاسد، فوجودہ و عدمہ بمنزلۃٍ واحدۃٍ، فتعدد الجنایات فی الاحرام (78)

یعنی، امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا، اس کی (اس) تاویل (کہ وہ ممنوعات کے ارتکاب سے احرام سے نکل گیا ہے ) کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، اور ہر ممنوع کے ارتکاب اور ہر شکار کے لئے اسے علیحدہ کفارہ لازم ہو گا، (79) کیونکہ فاسد تاویل سے احرام نہیں اٹھے گا، پس اس کا (یعنی تاویل کا) وجود اور عدم ایک ہی مرتبے میں ہے پس احرام میں جنایات متعدد ہوں گی۔ اور ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

و قال الشافعی و احمد : علیہ لکل شیئٍ فعلہ دم (80)

یعنی، امام شافعی اور امام احمد نے فرمایا کہ اس پر ہر شئے کے لئے جواس نے کی دم ہے ۔ اور اگر جو شخص یہ جانتا ہو کہ وہ اس ارادے سے احرام سے باہر نہ ہو گا تو اس سے احرام توڑنے کا قصد معتبر نہ ہو گا اور اس پر جتنے جرم کئے اتنی جزائیں لازم ائیں گی جیسا کہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی نے ’’حیات القلوب‘‘ (81) میں لکھا ہے اور علامہ رحمت اللہ سندھی (82) اور ان سے علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی (83) نقل کرتے ہیں کہ : اما من علم انہ لا یخرج منہ بہذا القصد فانہا لا تعتبر منہ یعنی، مگر جو شخص یہ جانتا ہے کہ وہ اس قصد کے ساتھ احرام سے نہ نکلے گا تو اسے سے یہ قصد معتبر نہ ہو گا۔ اور اسی طرح وہ شخص کہ جسے شک ہو کہ میں اس قصد کے ذریعے احرام سے نکلوں گا یا نہیں تو اس کا قصد بھی معتبر نہ ہوگا اور اس پر بھی جتنے جرم کئے اتنی جزائیں لازم ائیں گی چنانچہ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

و کذا ینبغی ان لا تعتبر منہ اذا کان شاکا فی المسالۃ او ناسیا لہا (84)

یعنی، اسی طرح چاہئے کہ اس سے نیت کا اعتبار نہ کیا جائے جب وہ مسئلہ میں شک کرنے والا ہو یا اسے بھولنے والا ہو۔

واللٰہ تعالی اعلم بالصواب

یوم السبت، 7 ذوالحجۃ 1431ھ، 13 نوفمبر 2010 م 685-F

حوالہ جات

48۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اول در بیان احرام، فصل دہم دربیان کیفیت خروج از احرام، تنبیہ حسن، ص103

49۔ المبسوط للسرخسی، کتاب المناسک، باب الجماع، 2/4/100

50۔ لباب المناسک، باب الجنایات، فصل : فی ارتکاب المحرم المحظور…الخ، ص253

51۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قول التنویر : حتی یطوف، تحت قول الدر : الا یقصد الرفض، 3/665

52۔ منحۃ الخالق علی البحر الرائق، باب الجنایات، فصل : و لا شی اذا نظر الخ، تحت قولہ الکنز : او افسد حجہ، و تحت قول البحر : لھذا نص الخ، 3/27

53۔ الکافی للحاکم الشھید مع شرحہ کتاب المبسوط، کتاب المناسک، باب جزاء الصید، 4/112، و فیہ : محرم اصاب صیدا کثیرًا علی قصد الاحلال و الرفض لاحرامہ، فعلیہ لذلک کلہ دم فندنا، یعنی، محرم نے علی قصد الاحلال اور احرام کو چھوڑنے کے لئے بہت سے شکار کئے ، فرمایا، اس پر تمام کے لئے ایک دم لازم ہے ۔

54۔ مختلف الروایۃ، کتاب المناسک، باب قول الشافعی علی خلاف اصحابنا، برقم : 647،2/795، و فیہ : قال الشافعی : محرم اصاب صیودا کثیرا علی وجہ الاحلال، و رفض الاحرام متاولا، لا یعتبر تاویلہ، و یلزمہ بکل محظورٍ کفارۃ علی حدۃ، و عندنا لا یلزمہ الا جزائ واحد، یعنی، امام شافعی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ محرم نے علی وجہ الاحلال اور احرام کو چھوڑنے کے لئے تاویل کرتے ہوئے بہت سے شکار کئے تو اس کی تاویل معتبر نہیں اور اس پر ہر محظور کے ئے علیحدہ کفارہ لازم ہے ، اور ہمارے نزدیک اس پر صرف ایک جزاء لازم ہے ۔

55۔ المبسوط للسرخسی، کتاب المناسک، باب جزاء الصید، 2/4/92 و فیہ : محرم اصاب صیدا کثیرا علی قصد الاحلال و الرفض لاحرامہ، فعلیہ لذلک کلہ دم عندنا، یعنی، محرم نے علی وجہ الاحلال اور احرام کو چھوڑنے کے لئے بہت سے شکار کئے تو اس پر تمام کے لئے ایک دم لازم ہے ۔

56۔ بدائع الصنائع، کتاب الحج، فصل : فی بیان حکم ما یحرم علی الحرم اصطیادہ، 3/239، و فیہ : ھذا اذا لم یکن ان یلزمہ لکل واحدٍ منھا دم، لان الموجود لیس الا نیۃ الرفض، و نیۃ الرفض لا یتعلق بہ حکم، لانہ لایصیر حلالا بذلک، فکان وجودھاو العدم بمنزلۃٍ واحدۃٍ، الا انھم استحسنوا، و قالوا : لا یجب الا جزائ واحد، لان الکل وقع علی وجہٍ واحدٍ، فاشبہ الایلاجات فی الجماع، یعنی، یہ اس وقت ہے جب اسے ہر ایک کا ایک دم لازم نہ ہو، کیونکہ موجود تو احرام چھوڑنے کی نیت ہے اور احرام چھوڑنے کی نیت کے ساتھ کوئی حکم متعلق نہیں ہوتا کیونکہ اس سے وہ احرام سے باہر نہ ائے گا لہٰذا اس نیت کا وجود اور عدم ایک ہی مرتبے میں ہے مگر یہ کہ فقہاء کرام نے استحسسان کیا اور فرمایا کہ (اس صورت میں ) صرف ایک جزاء لازم ہو گی، کیونکہ تمام ایک وجہ پر واقع ہوا ہے تو یہ جماع میں دخولوں کے مشابہ ہو گیا (کیونکہ ایک جماع میں دخول و خروج متعدد بار پایا جائے تو جزاء ایک ہی لازم اتی ہے )

57۔ المسالک فی المناسک، فصل بعد فصل : فی معرفۃ ما یجب بقتل الصید و ما یجب من الجزاء، 3/69

58۔ فتح القدیر، کتاب الحج، باب الجنایات، فصل : اعلم ان صید البر، 4/37

59۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، با ب الجنایات، فصل : فی ارتکاب المحرم المحظور….الخ، ص579

60۔ فتح القدیر، کتاب الحج، باب الجنایات، فصل : و من طاف طواف القدوم الخ، تحت قولہ : و لم یطف طواف الزیارۃ اصلا، 2/463

61۔ ’’مسبوط سرخسی‘‘ کی عبارت فتوی کی ابتداء میں گزر چکی۔

62۔ فتح القدیر، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قولہ : فسد حجہ و علیہ شاۃ، 2/454

63۔ البحر الرائق شرح کنز الدقائق، کتاب الحج، باب الجنایات، فصل : و لا شی ان نظر الخ، تحت قولہ : او افسد حجہ بجماعٍ الخ، 4/27

64۔ ’’مسبوط سرخسی‘‘ کی عبارت فتوی کی ابتداء میں گزر چکی۔

65۔ فتح القدیر، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قولہ : فسد حجہ الخ، 2/454

66۔ الدر المختار، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قولہ : حتی یطوف، ص167

67۔ یعنی، جب اس نے ہمبستری سے احرام چھوڑنے کا قصد کر لیا تو جب جب ہمبستری کرے گا اسے علیحدہ دم لازم نہ ہو گا اگرچہ مجالس متعددہ کیوں نہ ہوں بلکہ ایک ہی دم کفایت کرے گا۔

68۔ رد المحتار علی الدر المختار، باب الجنایات، تحت قولہ : الا ان یقصد الرفض، 3/665

69۔ البحر الرائق، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قولہ : او افسد حجہ بجماع الخ، 3/27

70۔ منحۃ الخالق علی البحر الرائق، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قول الکنز : او افسد حجہ بجماع الخ و تحت قول البحر : لکن لما کانت الخ، 3/27

71۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، فصل : فی ارتکاب المحرم المحظور، تحت قولہ : و یجب دم واحد الخ، ص579

72۔ جیسا کہ اسی فتوی کے شروع میں مذکور ہے ۔

73۔ المسالک فی المناسک، فصل بعد فصلٍ : فی معرفۃ ما یجب بقتل الصید و ما یجب الجزاء، 2/821

74۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، فصل فی ارتکاب المحرم المحظور، تحت قولہ : اما من علم الخ، ص579

75۔ غنیۃ ذوی الاحکام فی بغیۃ درر الحکام، کتاب الحج، باب الجنایات، تحت قول الغرر : و وطوہ و لو ناسیا، 1/1/246

76۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، فصل : فی ارتکاب المحرم المحظورات، تحت قولہ : ویجب دم واحد بجمیع ما ارتکب…الخ، ص578۔579

77۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، فصل : فی ارتکاب المحرم المحظور، ص579

78۔ المسالک فی المناسک، فصل بعد فصلٍ : فی معرفۃ ما یجب بقتل الصید و ما یجب من الجزاء، 2/821

79۔ امام عز الدین ابن جماعۃ متوفی 767ھ امام شافعی کا صحیح مذہب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں و ان اختلف النوع بان لبس و تطیب تعددت الفدیۃ علی الاصح (ہدایۃ السالک، الباب الثامن : فی محرمات الاحرام الخ، فصل : المحظورات المتقدمۃ، 2/696) یعنی، اور اگر نوع مختلف ہو اس طرح کہ سلا ہوا لباس پہنا، خوشبو لگائی تو اصح قول کے مطابق فدیہ متعدد ہو گا۔

80۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، فصل فی ارتکاب المحرم المحظور، تحت قولہ : ویجب دم واحد بجمیع ما ارتک….الخ، ص579

81۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اول : در بیان احرام، فصل : در بیان کیفیت خروج از احرام، ص103

82۔ لباب المناسک، باب الجنایات، فصل : فی ارتکاب المحرم المحظور، ص253

83۔ رد المحتار علی الدر المختار، باب الجنایات، تحت قولہ : الا ان یقصد الرفض، 3/665

84۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، فصل : فی ارتکاب المحرم المحظور، تحت قولہ : واما من علم انہ لا یخرج…الخ، ص579

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button