سوال :
اور جو لوگ اپنے مال کی حفاظت کے لیے بینک میں جمع کر دیتے ہیں پھر اس کو نکالتے وقت اس کا سود بھی ہو جا تا ہے اس کو کھانا چاہیے ، یا کیا کرنا چاہیے اور بعض جگہ سرکاری کاموں میں ضمانت کی شکل میں کچھ رو پیہ بھی زبردستی جمع کروایا جا تا ہے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد اس کے مال کی ضمانت دو گنی ہو جاتی ہے۔ اس رو پیہ کا کیا کرنا چاہیے ؟بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہندوستانی بینکوں سے سود لینا جائز ہے ۔ان کا کہنا درست ہے یا نہیں؟ اور چونکہ رشوت لینا دینا حرام ہے اور آج کل ایسا زمانہ بھی ہے کہ سرکاری کاموں میں بغیر رشوت کے کوئی کام بھی نہیں بنتا ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے ۔
جواب:
جس طرح سود دینا حرام ہے اسی طرح سود لینا بھی حرام ہے لیکن اگر کوئی غیر مسلم اپنی مرضی سے کوئی زائد رقم دے اگرچہ وہ اس کا نام سود ہی رکھے مگر ہم اس کو ایک مال مباح سمجھیں جو اپنی مرضی سے دیتا ہے اس کو لینے میں حرج نہیں۔
ہندوستان کے سرکاری بینک اس زمرے میں آتے ہیں یا نہیں اس میں علما کا اختلاف ہے اس لیے احتیاط یہی ہے کہ اسے بینک سے وصول کر لیا جائے اور اپنے کسی ضرورت مند عزیز و اقارب یا پڑوسی غریب مسلمانوں کو دے دیا جائے۔ ضمانت والی زائد رقم کا بھی یہی حکم ہے۔
بہار شریعت میں ہے جان آبرو بچانے کے لیے رشوت دیتا ہے یا کسی کے ذمے اپنا حق ہے جو بے رشوت دئے وصول نہیں ہو گا، اور اس لیے رشوت دیتا ہے کہ میرا حق وصول ہو جائے یہ دینا جائز ہے یعنی دینے والا گناہ گار نہ ہو گا مگر لینے والا ضرور گناہ گار ہے اس کو لینا جائز نہیں۔
(فتاوی بحر العلوم، جلد4، صفحہ65، شبیر برادرز، لاہور)
(فتاوی بحر العلوم، جلد4، صفحہ70، شبیر برادرز، لاہور)
(فتاوی بحر العلوم، جلد4، صفحہ72، شبیر برادرز، لاہور)
(فتاوی بحر العلوم، جلد4، صفحہ73، شبیر برادرز، لاہور)
فقیر کا موقف یہ ہے کہ سرکاری بینک مسلم غیر مسلم سب کا مشترکہ سرمایہ ہے۔
(فتاوی بحر العلوم، جلد4، صفحہ92، شبیر برادرز، لاہور)