سوال:
ڈاکخانہ اور بینک سے ملنے والا زائد روپیہ جائز ہے یا ناجائز؟ اسے اپنے مصرف میں لینا کیسا؟ نوٹ: ایک کتابچے میں اپنے سنی علماء نے اس کو جائز لکھا ہے کہ یہ سود نہیں ہے۔ ذہن کام نہیں کرتا کہ ایک طرف یہ مسئلہ ہے اور دوسری طرف ایسی بزرگ ہستیاں۔ ملخصا
جواب:
کافروں کی تین قسمیں ہیں۔ ذمی، مستامن اور حربی۔ ذمی وہ کافر ہیں جو دارالاسلام میں رہتے ہوں اور بادشاہ اسلام نے ان کی جان و مال کی حفاظت اپنے ذمے لیا ہو اور مستامن وہ کافر ہیں کہ کچھ دنوں کے لیے امان لے کر دارالاسلام میں آگئے ہوں۔ اور ظاہر ہے کہ ہندوستان کے کفار نہ تو ذمی ہیں اور نہ مستامن بلکہ تیسری قسم یعنی کافر حربی ہیں اور کافر حربی و مسلمان کے درمیان سود نہیں۔ لہذا وہ بینک جو خالص یہاں کے غیرمسلموں کے ہوں ان سے جو زائد روپیہ ملتا ہے اسے لینا اور اپنے ہر کام میں اسے صرف کرنا جائز ہے۔ اور وہ بینک جو مسلمانوں کے ہوں یا مسلم و غیر مسلم دونوں کے مشترکہ ہوں ان سے جو زائد روپیہ ملے وہ یقینا سود ہے حرام ہے۔ رہے ڈاکخانے اور حکومت کے بینک کے منافع تو یہاں کی حکومت غیرمسلموں کی ہے تو اس کے ڈاکخانے اور بینک کے منافع بھی شرعا سود نہیں۔
بریلی شریف کے کتابچہ صفحہ 13 میں جو صدرالشریعہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تحریر فرمایا ہے کہ سلطنت یا کوئی بینک جس کے پاس روپیہ رکھا گیا اگر اصل سے زائد کر کے کچھ رقم دے اس کا لینا حلال و طیب ۔ یہ حکم حدیث شریف لا ربا بین المسلم و الحربی اور فقہائے کرام کی تصریحات کے بالکل مطابق ہے۔ اس لئے کہ وہ فتوی انگریزوں کے زمانہ کا ہے اور انگریز کافر حربی ہیں اس لئے ان کی حکومت اور ان کے بینک سے جو نفع ملے وہ سود نہیں اور کتابچہ کے صفحہ 26 پر جو قاضی مفتی عبدالرحیم صاحب نے لکھا ہے کہ وہ ڈاکخانے اور بینک جو خالص غیرمسلموں کے ہوں ان میں روپیہ جمع کرنے پر جو زیادتی ملے اس کا لینا جائز ہے۔ اس عبارت کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ ڈاکخانے اور بینک جو مسلم و غیرمسلم دونوں کے ہوں اس کی زیادتی لینا جائز نہیں اور یہی صحیح ہے۔
(فتاوی فیض الرسول،کتاب الربا،جلد2،صفحہ385، 386،شبیر برادرز لاہور)
سوال:
بکر کا کہنا کہ ہندی حکومت کے بینک سے سود لینا جائز ہے کہ وہ سود نہیں نفع ہے۔ اس کو لینا جائز ہے۔ دینا جائز نہیں سود مسلمان مسلمان کے درمیان ہوتا ہے، درست ہے یا نہیں؟ ملخصا
جواب:
بکر کا قول صحیح ہے وہ رقم جائز ہے اس کا لینا جائز ہے وہ شرعا سود نہیں کہ سود کے لئے مال کا معصوم ہونا شرط ہے۔ اور ہندوستان کے تمام کفار حربی ہیں۔ اس لئے کہ کفار کی تین قسمیں ہیں ذمی ، مستامن، حربی اور یہاں کے کفار یقینا نہ تو ذمی ہیں اور نہ مستامن بلکہ حربی ہیں اس لئے کہ ذمی اور مستامن ہونے کے لئے بادشاہ اسلام کا ذمہ اور امن دینا ضروری ہے۔ تو جب یہاں کے کفار حربی ٹھہرے تو ان کا مال مباح ہے بشرطیکہ ان کی رضا سے ہو غدر اور بدعہدی نہ ہو لہذا وہ بینک جو خالص غیر مسلموں کے ہیں ان میں روپیہ جمع کرنے پر جو زیادتی ملتی ہے اس کا لینا جائز ہے کہ وہ اپنی خوشی سے دیتے ہیں اور لینے میں اپنی عزت و آبرو کا کوئی خطرہ بھی نہیں وہ رقم کسی کے سود کہہ دینے سے سود نہ ہو گی اسے اپنے ہر جائز کام میں استعمال کر سکتا ہے۔
(فتاوی فیض الرسول،کتاب الربا،جلد2،صفحہ 402، 403،شبیر برادرز لاہور)