الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ عرفات اورمزدلفہ میں نمازکوجمع کرنے کاجومعاملہ ہے یہ صرف حاجی کے ساتھ خاص ہے یاغیرحاجی کیلئے بھی یہ حکم ہے ؟(سائل : c/oمفتی
شہزادنعیمی،کھارادر،کراچی)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں یہ صرف حاجی کے ساتھ خاص ہے کیونکہ عرفات اورمزدلفہ میں نمازوں کو جمع کرنے سے قبل احرام حج میں ہوناضروری ہے ۔چنانچہ شیخ الاسلام مخدوم محمدہاشم ٹھٹوی حنفی متوفی1174ھ لکھتے ہیں : جمع در عرفات بین الظہر والعصر جائز نشود الا بہ شش شرط یکے انکہ تقدیم کردہ باشد احرام حج را بر ظہر وعصر معا پس اگر ادا کرد ظہر بغیر احرام پس احرام بستہ عصر را باد جمع کند جائز نباشد۔( ) یعنی،جب تک چھ شرطیں نہ پائی جائیں عرفات میں ظہراورعصرجمع کرناجائزنہیں ہے ،ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ان دونوں نمازوں سے پہلے حج کااحرام باندھا ہوا ہو،پس اگرکسی نے نمازظہربلااحرام پڑھی،اس کے بعداحرام باندھاتواس کیلئے عصرکو ظہرکی نمازکے ساتھ جمع کرناجائزنہیں ہے ۔ اورمزدلفہ میں نمازمغرب اورعشاءکے جمع کرنے کی شرائط کے بیان میں اگے لکھتے ہیں : شرائط این جمع چہار چیز اند یکے تقدیم احرام بحج بر ہر دو نماز کما تقدم فی الجمع الاول۔( ) یعنی،نمازمغرب اورعشاءکے جمع کرنے کیلئے چارشرائط ہیں ،ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ان دونوں نمازوں سے پہلے احرام حج موجودہوجیساکہ ظہروعصرکوجمع کرنے کے بارے میں گزرا۔ لہٰذاغیرحاجی ہرنمازکواپنے وقت پرہی اداکرے گا،کیونکہ فرضیت نمازکا سبب وقت ہے ۔چنانچہ قران کریم میں ہے : ان الصلٰوة كانت على المؤمنین كتٰبًا موقوتًا۔( ) ترجمہ،بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے ۔(کنز الایمان) اس ایت کے تحت ملاعلی قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں : مفروضا محدود الاوقات لا یجوز اخراجھا عن اوقاتھا فی جمیع الحالات۔( ) یعنی،نمازمقررہ وقت پرفرض ہے ،پس اسے تمام حالات میں اس کے اوقات سے نکالنا جائزنہیں ہے ۔ اورصدرالافاضل سیدمحمدنعیم الدین مرادابادی حنفی متوفی1367ھ لکھتے ہیں : تو لازم ہے کہ اس کے اوقات کی رعایت کی جائے ۔( ) واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
منگل،29/شوال،1443ھ۔30/مئی،2022م