کیا غیبت سے توبہ کے لیے بندے سے معافی مانگنا ضروری ہے یعنی اگر کسی شخص نے کسی کی غیبت کی ہو اور بعد میں اسے احساس ہو جائے تو وہ اس کی توبہ کیسے کرے؟ کیا اس کے لیے فقط اللہ تعالی سے معافی مانگ لی جائے یا اس بندے سے بھی معافی مانگی جائے؟
جواب:
اس سوال کی دو صورتیں ہیں اور دونوں کے احکام الگ الگ ہیں:
(1) ایک صورت تو یہ ہے کہ جس کی غیبت کی گئی اسے معلوم ہو گیا کہ فلاں شخص نے میری غیبت کی ہے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ جس کی غیبت کی گئی اسے معلوم ہونے سے پہلے ہی غیبت کرنے والے کو احساس ہو گیا۔
پہلی صورت میں غیبت سے توبہ کے لیے اس بندے سے معافی مانگنا ضروری ہے کیونکہ اس کی غیبت کی وجہ سے اسے بلا وجہ تکلیف ہوئی ہے لہذا اس گناہ کی معافی کے لیے اس کا معاف کرنا ضروری ہے۔
دوسری صورت میں غیبت سے توبہ کے لیے اس بندے سے معافی مانگنا ضروری نہیں ہے کیونکہ غیبت اس وقت تک حق العبد نہیں بنتی جب تک غیبت کرنے والے تک پہنچ نہ جائے لہذا جس کی غیبت کی گئی اس کو معلوم نہ ہوا تو فقط اللہ تعالی سے توبہ کر لی جائے۔ اللہ تعالی کی رحمت سے امید ہے کہ اس کی بخشش ہو جائے گی اور اگر بعد میں جس کی غیبت کی گئی تھی اسے پتا چل بھی گیا تو بھی اس سے معافی مانگنا ضروری نہیں ہے۔
دلائل:
(1) فقیہ ابو اللیث رحمہ اللہ نے غیبت کی توبہ کے حوالے سے دو اقسام بیان فرمائی ہیں:
(۱) وہ بات اُس شخص تک پہنچ گئی جس کی غیبت کی گئی تھی تو اس کی توبہ یہ ہے کہ اس شخص سے معافی مانگے۔
(۲) اور اگر غیبت اس شخص تک نہیں پہنچی تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا مانگے اور اپنے دل میں یہ عہد کرے کہ پھر غیبت نہیں کروں گا۔
عبارت:
قد قال في ”المنح” نفسہ: ما نصّہ قال الفقیہ أبو اللیث: ھو عندنا علی وجھین أحدھما إن کان ذلک القول قد بلغ إلی الذي اغتابہ فتوبتہ أن یستحل منہ وإن لم یبلغ إلیہ فلیستغفر اللہ سبحانہ ویضمر أن لا یعود إلی مثلہ
(2) اعلی حضرت رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وفي جریان الخلاف المذکور ھاھنا نظر فإنّ الغیبۃ لا تصیر من حقوق العبد ما لم تبلغہ وإذا بلغتہ لم تکن من الحقوق المجھولۃ “
ترجمہ: یہاں گزشتہ اختلاف کے جاری ہونے میں کلام ہے؛ کیونکہ غیبت اس وقت تک بندے کا حق نہیں بنتی جب تک اسے نہ پہنچ جائے، جب پہنچ جائے تو نا معلوم حقوق میں سے نہ رہے گی۔
(3) ”روضۃ العلماء” میں ہے کہ میں نے ابو محمد رحمہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا:اگر غیبت اس شخص تک نہیں پہنچی جس کی غیبت کی گئی تھی تو غیبت کرنے والے کے لئے توبہ فائدہ مند ہوگی؟ انھوں نے فرمایا: ہاں! کیونکہ اس نے بندے کے حق کے متعلق ہونے سے پہلے توبہ کرلی ہے، غیبت بندے کا حق اس وقت ہوگی جب اس تک پہنچ جائیگی،
میں نے کہا: اگر توبہ کے بعد اس شخص تک غیبت پہنچ جائے فرمایا کہ اس کی توبہ باطل نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ دونوں کو بخش دے گا غیبت کرنے والے کو توبہ کی و جہ سے اور جس کی غیبت کی گئی اسے اس تکلیف کی و جہ سے جو اسے غیبت سُن کر ہوئی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کریم ہے اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی کی توبہ قبول فرماکر رد فرمائے بلکہ دونوں کو بخش دے گا۔
عبارت:
في ”روضۃ العلمائ” سألت أبا محمد -رحمہ اللہ تعالٰی- فقلت لہ إذا تاب صاحب الغیبۃ قبل وصولہا إلی المغتاب عنہ: ہل تنفعہ توبۃ؟ قال: نعم! فإنّہ تاب قبل أن یصیر الذنب ذنباً أي: ذنباً یتعلّق بہ حقّ العبد؛ لأنّھا أنّھا تصیر ذنباً إذا بلغت إلیہ، قلت: فإن بلغت إلیہ بعد توبتہ؟ قال: لا تبطل توبتہ بل یغفر اللہ تعالٰی لھما جمیعاً المغتاب بالتوبۃ والمغتاب عنہ بما یلحقہ من المشقّۃ؛ لأنّہ تعالٰی کریم ولایحمل من کرمہ ردّ توبتہ بعد قبولھا بل یعفو عنھا جمیعاً ((ملخصاً من الرسالہ : الحقوق لطرح العقوق، للامام احمد رضا خان))