سوال: حکومت کا ایک منصوبہ ہے جس کے تحت حکومت بنکروں کو قرضے دیتی ہے اس کی شکل یہ ہے کہ تیس آدمیوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور اسی کمیٹی کو قرض دینے کی اسکیم ہے اس طرح سے تیس آدمی اس سے مستفید ہوں اور ایک دوسرے کے ضامن بھی ہوں۔ لیکن لوگ یہ کرتے ہیں کہ ایک آدمی تیس فرضی ناموں کی فہرست مرتب کر لیتا ہے اور مجاز افسر کو رشوت دے کر تصدیق کروا لیتا ہے کہ کمیٹی بنی ہے اور تیس آدمیوں نے میرے سامنے دستخط کیے ہیں۔ اس طریقہ سے تنہا وہ آدمی لاکھوں لاکھ روپیہ حاصل کر لیتا ہے اور یہ قرض سودی ہوتا ہے ۔ حامد کا کہنا ہے کہ یہ قرض جائز نہیں۔ اس لیے کہ پہلی چیز دھوکا دے کر حاصل کیا گیا اور دوسری بات یہ ہے کہ سود دینا پڑتا ہے اور غلط کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قدم قدم پر رشوت دینی پڑتی ہے لیکن محمود کہتا ہے کہ قرض حکومت سے لیا جاتا ہے اس وجہ سے جائز ہے اور مرنے کے بعد قرض لینے والے سے خدا کے یہاں کوئی مواخذہ بھی نہ ہوگا ۔ لہذا قرض لینے والے کے بارے میں شریعت کیا حکم صادر فرماتی ہے اور جو لوگ اس قرض لینے والے کے یہاں دعوتیں کھاتے ہیں اور تقاریب میں شرکت کرتے ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور ان کی رقم بطور چندہ لے کر مدرسہ، مسجد اور قبرستان میں لگائی جا سکتی ہے یا نہیں ؟ اور رقم سے حج و قربانی کرنا جائز ہو گا یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح جواب عنایت فرمائیں۔
جواب: جب کہ حکومت کو نفع کم دینا پڑے اور مسلمان کا فائدہ زیادہ ہو تو اس سے نفع دینے کی شرط پر قرض لینا جائز ہے کہ حکومت حربیوں کی ہے اور مسلمان و حربی کے درمیان ایسا عقد فاسد کہ جس سے زیادتی مسلمان کو حاصل ہو جائز ہے۔اور جب حکومت سے اس صورت میں قرض لینا جائز ہے تو قرض لینے والے کے یہاں دعوتیں کھانا اور اس کی رقم بطور چندہ لے کر مسجد وغیرہ میں خرچ کرنا اور ایسی رقم سے حج و قربانی کرنا جائز ہے لیکن ازراہ فریب حکومت سے بھی روپیہ حاصل کرنا گناہ ہے یعنی حکومت سے بشرط مذکور قرض لینا جائز ہے اور پیسہ حلال ہے لیکن قرض لینے کا وہ طریقہ جو سوال میں مذکور ہے ناجائز و حرام ہے جیسے کہ غصب کی ہوئی چھری سے بکرا ذبح کرنا گناہ ہے مگر اس کا گوشت حلال ہے لہذا یہ سمجھنا غلط ہے کہ اس طرح قرض لینے سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا ۔ اور جب کہ ایک شخص کے تیس فرض ناموں پر قرض لینے کے سبب اس گاؤں یا محلہ کے دوسرے لوگ حکومت سے قرض لے کر فائدہ نہ اٹھا سکیں تو اس صورت میں دوسروں کی حق تلفی کے سبب فریب سے قرض لینے والا اور زیادہ گنہگار ہو گا۔
(فتاوی فیض الرسول،کتاب الربا،جلد2،صفحہ394،شبیر برادرز لاہور)