غسل کا بیان
اللہ عزّوجل فرماتا ہے:
وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا
(اگر تیم جنب ہو تو خوب پاک ہو جاؤ)
یعنی غسل کرو اور فرماتا ہے :
حَتّٰی یَطْھُرْنَ
(یہاں تک کہ وہ حیض والی عورتیں اچھی طرح پاک ہو جائیں)
اور فرماتا ہے :
یٰآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْلَاْ تَقْرَبُوْ الصَّلوٰۃَ وَ اَنْتُمْ سُکٰرٰیٰ حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَاْ جُنُبًااِلَّاعَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا
(اے ایمان والو نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ سمجھنے لگو جو کہتے ہیں اور نہ حالت جنابت میں جب تک غسل نہ کرلو مگر سفر کی حالت میں کہ وہاں پانی نہ ملے تو بجائے غسل تیمم ہے)
حدیث ۱ : صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ، رسول اللہ ﷺ جب جبابت کا غسل فرماتے تو ابتدا یوں کرتے کہ پہلے ہاتھ دھوتے پھر نماز کا سا وضو کرتے پھر انگلیاں پانی میں ڈال کر ان سے بالوں کی جڑیں تر فرماتے پھر سر پر تین لپ پانی ڈالتے پھر تمام جلد پر پانی بہاتے۔
حدیث ۲ : انہیں کتابوں میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ہے، ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے نہانے کے لئے میں نے پانی رکھا اور کپڑے سے پردہ کیا ، حضور نے ہاتھ پر پانی ڈالا اور ان کو دھویا پھر پانی ڈال کر ہاتھوں کو دھویا پھر داہنے ہاتھ سے پائیں پر پانی ڈالا پھر استنجا فرمایا پھر زمین پر مار کر ملا اور دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور منہ ہاتھ دھوئے پھر سر پر پانی ڈالا اور تمام بدن پر بہایا پھر اس جگہ سے الگ ہو کر پائے مبارک دھوئے اس کے بعد میں نے (بدن پونچھنے کے لئے) ایک کپڑا دیا تو حضور نے نہ لیا اور ہاتھوں کو جھاڑتے ہوئے تشریف لے گئے۔
حدیث ۳ : بخاری و مسلم میں بروایت اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی کہ انصار کی ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے حیض کے بعد نہانے کا سوال کیا اس کو کیفیت غسل کی تعلیم فرمائی پھر فرمایا کہ مشک آلودہ ایک ٹکڑا لے کر اس سے طہارت کر۔ عرض کی کیسے اس سے طہارت کروں فرمایا اس سے طہارت کر۔ عرض کی کیسے طہارت کروں، فرمایا سبحان اللہ اس سے طہارت کر ۔ ام المومنین فرماتی ہیں میں نے اسے اپنی طرف کھینچ کر کہا اس سے خون کے اثر کو صاف کرو۔
حدیث ۴ : امام مسلم نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی فرماتی ہیں میں نے عرض کی۔ یا رسول اللہ میں اپنے سر کی چوٹی مضبوط گوندھتی ہوں تو کیا غسلِ جنابت کے لئے اس کھول ڈالوں ۔ فرمایا نہیں تجھ کو صرف یہی کفایت کرتا ہے کہ سر پر تین لب پانی ڈالے پھر اپنے اوپر پانی بہالے پاک ہو جائے گی (یعنی جب کہ بالوں کی جڑیں تر ہو جائیں اور اگر اتنی سخت گوندھی ہو کہ جڑوں تک پانی نہ پہنچے تو کھولنا فرض ہے)۔
حدیث ۵ : ابو داؤد ترمذی و ابن ماجہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ ہر بال کے نیچے جنابت ہے تو بال دھوؤ اور جلد کو صاف کرو۔
حدیث ۶ : نیز ابو داؤد نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ ج و شخص غسل جنابت میں ایک بال کی جگہ بے دھوئے چھوڑ دے گا اس کے ساتھ آگ سے ایسا ایسا کیا جائے گا (یعنی عذاب دیا جائے گا) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اسی وجہ سے میں نے اپنے سر کے ساتھ دشمنی کر لی۔ تین بار یہی فرمایا (یعنی سر کے بال منڈوا ڈالے کہ بالوں کی وجہ سے کوئی جگہ نہ رہ جائے)۔
حدیث ۷ : اصحاب سنن اربعہ نے اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی ۔ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ غسل کے بعد وضو نہیں فرماتے۔
حدیث ۸ : ابو داؤد نے حضرت یَعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو میدان میں نہاتے ملاحظہ فرمایا پھر منبر پر تشریف لے جا کر حمد الہٰی و ثنا کے بعد فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ حیا فرمانے والا اور پردہ پوش ہے حیا اور پردہ کرنے والے کو دوست رکھتا ہے ، جب بھی تم میں کوئی نہائے تو اسے پردہ کرنا لازم ہے۔
حدیث ۹ : متعدد کتابوں میں بکثرت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی، حضور ﷺ فرماتے ہیں جو اللہ اور پچھلے دن (قیامت) پر ایمان لایا حمام میں بغیر تہبند کے نہ جائے اور جو اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لایا اپنی بی بی کو حمام میں نہ بھیجے۔
حدیث ۱۰ : ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حمام میں جانے کا سوال کیا۔ فرمایا، عورتوں کے لئے حمام میں خیر نہیں عرض کی تہبند باندھ کر جاتی ہیں فرمایا اگرچہ تہبند اور کُرتے اور اوڑھنی کے ساتھ جائیں۔
حدیث ۱۱ : صحیح بخاری و مسلم میں روایت ہے کہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ حق بیان کرنے سے حیا نہیں فرماتا تو کیا جب عورت کو احتلام ہوتو اس پر نہانا ہے فرمایا ہاں جب کہ پانی (منی) دیکھے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے منہ ڈھانک لیا اور عرض کی یا رسول اللہ کیا عورت کو احتلام ہوتا ہے فرمایا ہاں ایسا نہ ہو تو کسی وجہ سے بچہ ماں کیھ مشابہ ہوتا ہے۔
فائدہ ؛ امہات المومنین کو اللہ عزّوجل نے حاضری خدمت سے پیشتربھی احتلام سے محفوظ رکھا تھا اس لئے کہ احتلام میں شیطان کی مداخلت ہے اوسر شیطانی مداخلتوں سے ازواجِ مطہرات پاک ہیں اسی لئے ان کو حضرات اُمّ سلیم کے اس سوال کا تعجب ہوا۔
حدیث ۱۲ : ابو داؤد ترمذی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال ہو ا کہ مرد تری پائے اور احتلام یا نہ ہو فرمایا غسل کرے اور اس شخص کے بائے میں سوال ہوا کہ خواب کا یقین ہے اور تری (اثر) نہیں پاتا فرمایا اس پر غسل نہیں۔ ام سلیم نئے عرض کی عورت اس کو دیکھے تو اس پر غسل ہے ۔ فرمایا ہاں عورتیں مردوں کی مثل ہیں۔
حدیث ۱۳ : ترمذی میں انہیں سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب مرد کے ختنہ کی جگہ (حشفہ) عورت کے مقام میں غائب ہو جائے غسل واجب ہو جائے گا۔
حدیث ۱۴ : صحیح بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مردی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ ان کو رات میں نہانے کی ضرورت ہو جاتی ہے ۔ فرمایا، وضو کر لو اور عضو تناسل کو دھولو پھر سو رہو۔
حدیث ۱۵ : صحیینمیں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ، فرماتی ہیں، نبی ﷺ جب جنب ہوتے اور کھانے اور سونے کا ارادہ فرماتے تو نماز کا سا وضو فرماتے۔
حدیث ۱۶ : مسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مردی ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب تم میں کوئی اپنی بی بی کے پاس جا کر دوبارہ جانا چاہے تو وضو کرلے۔
حدیث ۱۷ : ترمذی ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حیض والی اور جنب قرآن سے کچھ نہ پڑھیں۔
حدیث ۱۸ : ابو داؤد نے ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ان گھروں کا رُخ مسجد سے پھیر دہ کہ میں مسجد کو حائض اور جنب کے لئے حلال نہیں کرتا۔
حدیث ۱۹ : ابو داؤد نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ملائکہ اس گھر میں نہیں جاتے جس گھرمیں تصویر اور کُتّا اور جنب ہو۔
حدیث ۲۰ : ابو داؤد عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، تین شخصوں سے قریب نہیں ہوتے:
۱) کافر کا مردہ اور
۲) خلوق میں لتھڑا ہوا اور
۳) جنب مگر یہ کہ وضو کرلے۔
حدیث ۲۱ : امام مالک نے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے جو خط عمر بن حزم کو لکھا تھا اس میں یہ تھا کہ قرآن نہ چھوئے مگر پاک شخص۔
حدیث ۲۲ : امام و بخاری و امام مسلم نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو جمعہ کو آئے اسے چاہیے کہ نہالے۔
ساتواں بیان : غسل کے مسائل غسل کے فرض ہونے کے اسباب بعد میں لکھے جائیں گے پہلے غسل کی حقیقت بیان کی جاتی ہے۔ غسل کے تین جز ہیں اگر ان میں ایک بھی کمی ہوئی غسل نہ ہو گا ، چاہے یوںکہو کہ غسل میں تین فرض ہیں۔
(۱) کُلّی کہ منہ کے ہر پرزے گوشت ہونٹ سے حلق کی جڑ تک ہر جگہ پانی بہہ جائے ۔ اکثر لوگ یہ جانتے ہیںکہ تھوڑا سا پانی منہ میں لے کر اُگل دینے کو کُلّی کہتے ہیں اگرچہ زبان کی جڑ اور حلق کے کنارے تک نہ پہنچے یوں غسل نہ ہو گا نہ اس طرح نہانے کے بعد نماز جائز بلکہ فرض ہے کہ داڑھوں کے پیچھے گالوں کی تہہ میں دانتوں کی جڑ اور کھڑکیوں میں زبان کی ہر کروٹ میں حلق کے کنارے تک پانی بہے۔
مسئلہ ۱ : دانتوں کی جڑوں یا کھڑکیوں میں کوئی ایسی چیز جو بہنے سیھ روکے جمی ہو تو اس کا چھڑانا ضروری ہے اور گر چھڑانے میں ضرر اور حرج نہ ہو جیسے چھالیا کے دانے گوشت کے ریشے اگر چھڑانے میں ضرر اور حرج ہو جیسے بہت پان کھانے سے دانتوں کی جڑوں میں چونا جم جاتا ہے یا عورتوں کے دانتوں میں مسی کی ریخیں کہ ان کے چھیلنے میں دانتوں یا مسوڑھوں کی مضرّت کا اندیشہ ہے تو معاف ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳)۔
مسئلہ ۲ : یونہی ہلتا ہوا دانت تار سے یا اکھڑا ہوا دانت کسی مصالحے وغیرہ سے جمایا گیا اور پانی تار یا مسالے کے نیچے نہ پہنچے تو معاف ہے یا کھانے یا پان کے ریزے دانتوں میں رہ گئے کہ اس کی نگہداشت میں حرج ہے۔ ہاں بعد معلوم ہونے کے اس کو جدا کرنا اور دھونا ضروری ہے جب کہ پانی پہنچنے سے مانع ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳)۔
(۲) ناک میں پانی ڈالنا یعنی دونوں نتھنوں کا جہاں تک نرم جگہ ہے دھلنا کہ پانی کو سونگھ کر اوپر چڑھائے بال برابر جگہ بھی دھلنے سے رہ جائے ورنہ غسل ہو گا۔ ناک کے اندر رینٹھ سوکھ تھی ہے تو اس کا چھڑانا فرض ہے۔نیز ناک کے بالوں کا دھونا بھی فرض ہے۔
مسئلہ ۳ : بلاق کا سوراخ اگر بند ہو تو اس میں پانی پہنچانا ضروری ہے پھر اگر تنگ ہے تو حرکت دینا ضروری ہے ورنہ نہیں۔
(۳) تمام ظاہر بدن یعنی سر کے بالوں سے پاؤں کے تلوؤں تک جسم کے ہر پُرزے ہیں اور سمھتے ہیں کہ غسل ہو گیا حالانکہ بعض ایسے ہیں کہ جب تک ان کی خاص طور پر احتیاط نہ کی جائے نہیں دھلیں گے اور غسل نہ ہوگا ان کو یہاں بھی لحاظ ضروری ہے اور ان کے علاوہ خاص غسل کی ضروریات یہ ہیں۔ سر کے بال گندھے نہ ہوں تو ہر بال پر جڑ سے نوک تک پانی بہنا اور گندھے ہرئے ہوں تو مرد پر فرض ہے کہ ان کو کھول کر جڑ سے نوک تک پانی بہائے اورعورت پر صرف جڑ تر کرنا ضروری ہے۔ ہاں اگر چوٹی اتنی سخت گندھی ہو کہ بے کھولے جڑین تر نہ ہوں گی تو کھولنا ضروری ہے ۔ کانوںمیں بالی وغیرہ زیوروں کے سوراخ کا بھی وہی حکم ہے جو ناک میں نتھ کے سوراخ کا حکم وضو کے بینا میں ہوا۔ بھوؤوں اورمونچھوں اور داڑھی کے بال کا جڑ سے نوک تک اور ان کے نیچے کھال کا دھلنا ۔ کان کا ہر پرزہ اور اس کے سوراخ کا منہ کا کانوں کے پیچھے کے بال ہٹا کر پانی بہائے ۔ ٹھوری اور گلے کا جوڑ کہ بے منہ اٹھائے نہ دھلے گا۔ بغلیں بے ہاتھ اٹھائے نہ دھلیں گی۔ بازو کا ہر پہلو پیٹھ کا ہرذرہ پیٹ بلٹیں اٹھا کر دھوئیں ناف کو انگلی ڈال کر دھوئیں جب کہ پانی بہنے میں شک ہو۔ جسم کا ہر ونگٹا جڑ سے نوک تک ران اور پیڑو کا جوڑ ران اور پنڈلی کا جوڑ جب بیٹھ کر نہائیں دونوں سریں کے ملنے کی جگہ خصوصاً جب کھڑے ہر کر نہائیں۔ رانوں کی گولائی پنڈلیوں کی کروٹیں ذکر و انثیین کے ملنے کی سطحیں بے جدا کئے نہ دھلیں گی۔ انثیین کی سطح زیریں جوڑ تک انثیین کے نیچے کی جگہ جڑ تک جس کا ختنہ نو ہوا ہو اگر کھال چڑھ سکتی ہو تو چرھا کر دھوئے اور کھال کے اند پانی چڑھائے ۔ عورتوں پر خاص یہ احتیاطیں ضروری ہیں۔ ڈھلکی پستان کو اٹھا کر دھونا۔ پستان و شکم کے جوڑ کی تحریر و فرج خارک کا ہر گوشہ ہر ٹکڑا نیچے اوپر خیال سے دھویا جائے۔ ہاں فرج م یں انگلی ڈال کر دھونا واجب نہیں مستحب ہے۔ یونہی اگر حیض و نفاس سے فارغ ہو کر غسل کرتی ہے تو ایک پرانے کپڑے سے فرج داخل کے اندر سے خون کا اثر صاف کر لیںا مستحب ہے۔ ماتھے پر افشاں چنی ہو تو چھڑانا ضروری ہے۔
مسئلہ ۴ : بال میں گرہ پڑ جائے تو گرہ کھول کر اس پر پانی بہانا ضروری نہیں۔
مسئلہ۵ : کسی زخم پر پٹی وغیرہ بندھی ہو کہ اس کے کھولنے میں ضرر یا حرج ہو یا کسی جگہ مرض یا درد سے سبب پانی بہنا ضرر کرے گا تو اس پوچے عضو کو مسح کریں اور نہ ہو دکے تو پٹی پر مسح مافی ہے اور پٹی موضع حاجت سے زیادہ نہ رکھی جائے ورنہ مسح کافی نہ ہوگا اور اگر پٹی موضع حاجت ہی پر بندھی ہے مثلاً بازو پر ایک طرف زخم ہے اور پٹی باندھنے کے لئے بازو کی اتگنی ساری گولائی پر ہونا اس کا ضرور ہے تو اس کے نیچے بدک کا وہ حصہ بھی آجائے گا جسے پانی ضرر نہیں کرتا تو اگر کھولنا ممکن ہو کھول کر اس حصہ کا دھونا فرض ہے اور اگر ناممکن ہے اگرچہ یونہی کھول کر پھر ویسی نہ باندھ سکے گا اور اس میں ضرر کا اندیشہ ہے تو ساری پٹی پر مسح کرلے گافی ہے۔ بدن کا وہ اچھا حصہ بھی دھونے سے معاف ہو جائے گا۔
مسئلہ ۶ : زکام یا آشوبِ چشم وغیرہ ہو اور یہ گمان صحیح ہو کہ سر سے نہانے میں مرض میں زیادتی یا اور مرض پیدا ہو جائیںگے تو کُلّی کرلے ناک میں پانی ڈالے اور اگر گردن سے نہالے اور سر کے ہر ذرّہ پر بھیگا ہاتھ پھرے، غسل ہو جائے گا بعدصحت سر دھو ڈالے باقی غسل کے اعادہ کی حاجت نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳)۔
مسئلہ ۷ : پکانے والے کے ناخن میں آٹا، لکھنے والے کے ناخن وغیرہ پر سیاہی کا جرم، عام لوگوں کے لئے مکّھی مچھر کی بیٹ اگر لگی ہو تو غسل ہو جائیگا ۔ ہاں بعد معلوم ہونے کے جدا کرنا اور اس جگہ دھونا ضروری ہے پہلے جو نماز پڑھی ہو گئی۔
غسل کی سنتیں :
(۱) غسل کی نیت کر کے پہلے
(۲) دونوں ہاتھ گٹوں تک تین مرتبہ دھوئے پھر
(۳) استنجے کی جگہ دھوئے ۔ خواہ نجاست ہو یا نہ ہو پھر
(۴) بدن پر جہاں نجاست ہو اس کو دور کرے پھر
(۵) نماز کا سا وضو کرے مگر پاؤں نہ دھوئے اگر چوکی یا تختے پر نہائے تو پاؤں بھی دھولے پھر
(۶) بدن پر تیل کی طرح پانی چپڑ لے خصوصا ً جاڑے میں پھر
(۷) تین مرتبہ داہنے مونڈے پر پانی بہائے پھر
(۸) بائیں مونڈھے پر تین مرتبہ پھر
(۹) سر پر اور تمام بدن پر تین بار پھر
(۱۰) جائے غسل سے الگ ہو کر وضو کرنے میں پاؤں نہیں دھوئے تھے تو اب دھولے اور
(۱۱) نہانے میں قبلہ رُخ نہ ہو اور
(۱۲) تمام بدن پر ہاتھ پھیرے او
(۱۳) اور ملے اور
(۱۴) ایسی جگہ نہائے کہ کوئی نہ دیکھے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو تو ناف سے گھٹنے گک کے اعضا کا ستر تو ضروری ہے اگر اتنا بھی ممکن نہ ہو تو تیمم کر لے مگر یہ احتمال بہت بعید ہے اور
(۱۵) کسی قسم کا کلام نہ کرے نہ کوئی دعا پڑھے
(۱۶) بعد نہانے کے رومال سے بدن پونچھ ڈالے تو حرج نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۴)۔
مسئلہ ۸ : اگر غسل خانہ کی چھت نہ ہو یا ننگے بدن نہائے بشرطیکہ موضع احتیاط ہو تو کوئی حرج نہیں۔ ہاں عورتوں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے اور
(۱۷) عورتوں کو بیٹھ کر نہانا بہتر ہے
(۱۸) نہانے کے فوراً کپڑے پہن لے اور وضو سنن و مستحبات غسل کے لئے سنن و مستحبات ہیں اگر ستر کھلا ہو تو قبلہ کو منہ کرنا نہ چاہئے اور تہبند باندھے تو حرج نہیں۔
مسئلہ ۹ : اگر بہتے پانی مثلاً دریا یا نہر میں نہایا تو تھوڑی دیر اس میں رکنے سے تین باد دھونے اور ترتیب اور وضو یہ سب سنتیں ادا ہو گئیں اس کی بھی ضرورت نہیںکہ اعضاء کو تین بار حرکت دے اور تالاب وغیرہ ٹھہرے پانی میں نہایا تو اعضاء کو تین بار حرکت دینے یا جگہ بدلنے سے تثلیث یعنی تین بار دھونے کی سنت ادا ہو جائے گی ۔ مینہ میں کھڑا ہو گیا تو یہ بہے پانی میں کھڑے ہونے کے حکم میں ہے۔ بہتے پانی میں وضو کیا تو وہی تھوڑی دیر اس وضو کو رہنے دینا اور ٹھرے پانی میں حرکت دینا تین بار دھونے کے قائم مقام ہے۔
مسئلہ ۱۰ : سب کے لئے غسل یا وضو میں پانی کی ایک مقدار معین نہیں جس طرح عوام میں مشہور ہے محض باطل ہے ایک لمبا چوڑا ،دوسرا دبل پتلا۔ایک کے تمام اعضا پر بال، دوسرے کا بدن صاف، ایک گھنی داڑھی والا، دوسرا بے ریش ، ایک کے سر پر بڑے بڑے بال، دوسرے کا سر منڈا، وعلی ہٰذا القیاس سب کے لئے ایک مقدار کیسے ممکن ہے۔
مسئلہ ۱۱ : عورت کو حمام میں جانا مکروہ ہے اور مرد جا سکتا ہے مگر ستر کا لحاظ ضروری ہے۔ لوگوں کے سامنے ستر کھول کر نہانا حرام ہے۔
مسئلہ ۱۲ : بغیر ضرورت صبح تڑکے کے حمام کو نہ جائے کہ ایک مخفی امر لوگوں پا ظاہر کرنا ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۱۴۱ عب)
آٹھواں بیان : غسل کن چیزوں سے فرض ہوتا ہے
(۱) منی کا اپنی جگہ سے شہوت کے ساتھ جدا ہوکر عضو سے نکلنا سبب فرضیت غسل ہے۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۴۸)۔
مسئلہ ۱۳ : اگر شہوت کے ساتھ اپنی جگہ سے جدا نہ ہوئی بلکہ بوجھ اٹھانے یا بلندی سے گرنے کے سبب نکلی تو غسل واجب نہیں۔ (شامی ج ۱ ص ۱۴۸)۔
مسئلہ ۱۴ : اگر اپنے ظرف سے شہوت کے ساتھ جدا ہوئی مگر اس شخص نے اپنے آلہ کو زور سے پکڑلیا کہ باہر نہ ہو سکی پھر جب شہوت جاتی رہی چھوڑدیا اب منی باہر ہوئی تو اگرچہ باہر نکلنا شہوت سے نہ ہوا مگر چونکہ اپنی جگہ سے شہوت کے ساتھ جدا ہوئی لہٰذا غسل واجب ہوا اسی پر عمل ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۴)
مسئلہ ۱۵ : اگر منی کچھ نگلی اور قبل پیشاب کرنے یا سونے یا چالیس قدم چلنے کے نہا لیا اور نماز پڑھ لی اب بقیہ منی خارج ہوئی تو غسل کرے کہ یہ اس منی کا حصہ ہے جو اپنے محل سے شہوت کے ساتھ جدا ہوئی تھی اور پہلے جو نماز پڑھی تھی ہو گئی اس کے اعادہ کی حاجت نہیں اور اگر چالیس قدم چلنے یا پیشاب کرنے یا سونے کے بعد غسل کیا پھر منی بلا شہوت نکلی تو غسل ضروری نہیں اور یہ پہلی کابقیہ نہیں کہی جائے گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۴)۔
مسئلہ ۱۶ : اگر منی پتلی پڑ گئی کہ پیشاب کے وقت یا ویسے ہی کچھ قطرے بلا شہوت نکل آئیں تو غسل وانب نہیں البتہ وضو ٹوٹ جائے گا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۴)
(۲) احتلام یعنی سوتے سے اٹھا اور بدن یا کپڑے پر تری پائی اور اس تری کے منی یا مذی ہونے کا یقین یا احتمال ہو تو غسل واجب ہے اگرچہ خواب یاد نہ ہو اور اگریقین ہے کہ یہ نہ منی ہے نہ مذی بلکہ پسینہ یا پیشاب یا ودی یا کچھ اورہے تو اگرچہ احتلام یاد ہو اور لذّتِ انزال خیال میں ہو غسل واجب نہیں اور اگر منہ نہ ہونے پر یقین کرتا ہے اور مذی کا شک ہے تو اگر خواب مین احتلام ہونا یاد نہیں تو غسل نہیں ورنہ ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۵)۔
مسئلہ ۱۷ : اگر احتلام یا ہے مگر اس کا کوئی اثر کپڑے وغیرہ پر نہیں غسل واجب نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۵)۔
مسئلہ ۱۸ : اگر سونے سے پہلے شہوت تھی آلہ قائم تھا اب جاگا اور اس کا اثر پایا اور مذی ہونا غالب گمان ہے اور احتلام یا نہیں تو غسل واجب نہیں جب تک اس کے کنی ہونے کا ظن غالب نہ ہو اور اگرسونے سے پہلے شہوت ہی نہ تھی مگر سونے سے قبل دب چکی تھی اور جو خارج ہوا تھا صاف کر چکا تھا تو منی کے ظن غالب کی ضرورت نہیں بلکہ محض احتمال منی سے غسل واجب ہو جائے گا۔ یہ مسئلہ کثیر الوقوع ہے اور لوگ اسے سے غافل ہیں ۔اس کا خیال ضرور چاہئے۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۵۲، عالمگیری ج ۱ ص ۱۵)۔
مسئلہ ۱۹ : بیماری وغیرہ سے آیا یا نشہ میں بیہوش ہوا۔ ہوش آنے کے بعد کپڑے یا بند پر مذی ملی تو وضو واجب ہو جائے گا غسل نہیں اور سونے کے بعد ایسا دیکھے تو غسل واجب مگر اسی شرط پر کہ سونے سے پہلے شہوت نہ تھی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۵)۔
مسئلہ ۲۰ : کسی کو خواب ہوا اور منی باہر نکلی تھی کہ آنکھ کُھل گئی اور آلہ کو پکڑ لیا کہ منی باہر نہ ہو پھر جب تندی جاتی رہی چھوڑ دیا اب نکلی تو غسل واجب ہو گیا۔
مسئلہ ۲۱ : نماز میں شہوت تھی اور منی اترتی ہوئی معلو م ہوئی مگر ابھی باہر نہ نکلی تھی کہ نماز پوری کرلی اب خارج ہوئی غسل واجب ہو گا مگر نماز ہو گئی۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۵)۔
مسئلہ ۲۲ : کھڑے یا بیٹھے یا چلتے ہوئے سو گیا آنکھ کھلی تو مذی پائی ، غسل واجب ہے۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۵)۔
مسئلہ ۲۳ : رات کو احتلام ہوا جاگا تو کوئی اثر نہ پایا وضو کے نماز پڑھ لی اب اس کے بعد منی نکلی غسل اب واجب ہوا اور وہ نماز ہو گئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۵)۔
مسئلہ ۲۴ : عورت کو خواب ہوا تو جب تک منی فرج داخل سے نہ نکلے غسل واجب نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۵)۔
مسئلہ ۲۵ : مرد عورت کایک چارپائی پر سوئے بعد بیداری بستر پر منی پائی گئی اور ان میں ہر ایک احتلام کا منکرہے ۔ احتیاط یہ ہے بہرحال دونوں غسل کریں اور یہی صحیح ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۵، درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۵۲)۔
مسئلہ ۲۶ : لڑکے کا بلوغ اور احتلام کے ساتھ ہوا س پر غسل واجب ہے۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۶)۔
(۳) حشفہ یعنی سر ذکر کا عورت کے آگے یا پیچھے یا مرد کے پیچھے داخل ہونا دونوں پر غسل واجب کر تا ہے شہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت انزال ہو یا نہ ہو بشرطیکہ دونوں مکلّف ہوں اور اگر ایک بالغ ہے تو اس پر بالغ کا فرض ہے اور نابالغ پر اگرچہ غسل فرض نہیں مگر غسل کا حکم دیا جائے گا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۵)۔
مسئلہ ۲۷ : اگر حشفہ کاٹ ڈالا ہے تو باقی عضو تناسل میں کا اگر حشفہ کی قدر داخل ہو گیا جب بھی وہی حکم ہے جو حشفہ میں داخل ہونے کا ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۵)۔
مسئلہ ۲۸ : اگرچہ چوپایہ یا مردہ ایسی چھوٹی لڑکی ہے جس کی مثل سے صحبت نہ کی جا سکتی ہو وطی کی تو جب تک انزال نہ ہو غسل واجب نہیں ۔ (درمختار ج ۱ ص ۱۵۴، عالمگیری ج ۱ ص ۱۵)۔
مسئلہ ۲۹ : عورت کی ران میں جماع کیا اور انزال کے بعد منی فرج میں گئی یا کنواری سے جماع کیا اور انزال بھی ہو گیا مگر بکارت زائل یہ ہوئی تو عورت پر غسل واجب نہیں۔ ہاں اگر عورت کے حمل رہ جائے تو اب غسل واجب ہونے کا حکم دیا جائے گا اور عقت مجامعت سے جب تک غسل نہیں کیا ہے تمام نمازوں کا اعادہ کرے۔ (درمختار ج ۱ ص ۱۵۴، عالمگیری ج ۱ ص ۱۵)۔
مسئلہ ۳۰ : عورت نے اپنی فرج میں انگلی یا جانور یا مردے کا ذکر یا کوئی چیز یا ربڑ یا مٹی وغیرہ کی مثل ذکر کے بنا کر داخل کی تو جب تک انزال نہ ہو غسل واجب نہیں۔ اگر جن آدمی کی شکل بن کر آیا اور عورت سے جماع کیا تو حشفہ کے غائب ہونے ہی سے غسل واجب ہو گیا ۔ آدمی کی شکل نہ نہ ہو تو جب تک عورت کو انزال نہ ہو غسل واجب نہیں۔ یونہی اگر مرد نے پری سے جماع کیا اور وہ اس وقت انسانی شکل میں نہیں بغیر انزال وجوب غسل نہ ہو گا اور شکل انسنی میں ہے تو صرف غیبت حشفہ سے واجب ہو جائے گا۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۳)۔
مسئلہ ۳۱ : غسل جماع کے بعد عورت کے بدن سے مرد کی بقیہ منی نکلی تو اس سے غسل واجب نہ ہو گا البتہ وضو جاتا رہے گا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۴)۔
فائدہ : ان تینوں وجوہ سے جس پر نہانا فرض ہو اس کو جنب اور ان اسباب کو جنابت کہتے ہیں۔
(۴) حیض سے فارغ ہونا۔
(۵) نفاس کا ختم ہونا۔
مسئلہ ۳۲ : بچہ پیدا ہوا اور خون بالکل نہ آیا تو صحیح ہے کہ غسل واجب ہے۔ (شامی ج ۱ ص ۱۵۵، ہندیہ ج ۱ ص ۱۶) حیض و نفاس کی کافی تفصیل انشاء اللہ الجلیل حیض کے بیان میں آئے گی۔
مسئلہ ۳۳ : کافر مرد یا عورت جنب ہے یا حیض و نفاس والی کافرہ اب عورت اب مسلمان ہوئی اگرچہ اسلام سے پہلے حیض و نفاس سے فراغت ہو چکی صحیح یہ ہے کہ ان پر غسل واجب ہے ۔ ہاں اگر اسلام لانے سے پہلے غسل کر چکے ہوں یا کسی طرح تمام بدن پر پانی بہہ گیا ہو تو صرف ناک میں نرم بانسے تک پانی چڑھانا کافی ہو گا کہ یہی وہ چیز ہے جو کفار سے ادا نہیں ہوتی۔ پانی کے بڑے بڑے گھونٹ پینے سے کُلّی کا فرض ادا ہو جاتا ہے اور اگر یہ بھی باقی رہ گیا تو اسے بھی بجالائیں غرض جتنے بھی اعضاء کا دھلنا غسل میں فرض ہے ۔ جماع وغیرہ اسباب کے بعد اگر وہ سب بحالبِ کفر ہی دھل چکے تھا تو بعد اسلام اعادہ ضرور نہیں ورنہ جتنا حصہ باقی ہوا اتنے کا دھولینا فرض ہے اور مستحب تو یہ ہے کہ بعد اسلام پورا غسل کرے۔
مسئلہ ۳۴ : مسلمان میت کو نہلانا مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے اگر ایک نے نہلا دیا سب کے سر سے اُتر گیا اور اگر کسی نے نہیں نہلایا سب گنہگار ہوں گے۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۵۵)۔
مسئلہ ۳۵ : پانی میں مسلمان کا مردہ ملا اس کا بھی نہلانا فرض ہے پھر اگر نکالنے والے نے غسل کے ارادے سے نکالتے وقت اس کو غوطہ دے دیا غسل ہو گیا ورنہ اب نہلائیں۔
مسئلہ ۳۶ : جمہ، عید، بقرعید، عرفہ کے دن اور احرام باندھتے وقت نہانا سنت ہے اور وقوف عرفات و وقوف مزدلفہ و حاضری حرم و حاضری سرکا ر اعظم و طوافِ دوخول ، منیٰ اور جمروں پر کنکریاں مارنے کے لئے تینوں اور شب برات اور شب قدر اور عرفہ کی رات اور مجلس میلاد شریف اور دیگر مجالس خیر کی حاضری کے لئے اور مردہ نہلانے کے بعد اور مجنون کی جنون جانے کے بعد اور غشی سے افاقہ کے بعد اور نشہ جاتے رہنے کے بعد اور گناہ سے توبہ کرنے اور نیا کپڑا پہننے کے لئے اور سفر سے آنے والے کے لئے استحاضہ کا خون بند ہونے کے بعد، نماز کسوف و خسوف و استسقا اور خوف و تاریکی اور سخت آندھی کے لئے اور بدن پر نجاست لگی اور یہ معلوم نہ ہوا کہ کس جگہ سے ہے ان سب کے لئے غسل مستحب ہے۔ (درمختاروشامی ج ۱ ص ۱۵۷،۱۵۸)۔
مسئلہ ۳۷ : حج کرنے والے پر دسویں ذی الحجہ کو پانچ غسل ہیں :۔
(۱) وقوف مزدلفہ
(۲) و خول
(۳) منیٰ جمرہ پر کنکریاں مارنا۔
(۴) وخول مکّہ
(۵) طواف جب کہ یہ تین پچھلی باتیں بھی دسویں ہی کو کرے اور جمعہ کا دن ہے تو غسل بھی یونہی اگر عرفہ یا عید جمعہ کے دن پڑھے تو یہاں والوں پر دو غسل ہوں گے۔ (شامی ج ۱ ص ۱۵۷)۔
مسئلہ ۳۸ : جس پر چند غسل ہوں سب کی نیت سے ایک غسل کرلیا سب ادا ہوگئے اور سب کا ثواب ملے گا۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۵۷)۔
مسئلہ۳۹ : عورت جنب ہوئی اور ابھی غسل نہیں کیا تھا کہ حیض شروع ہو گیا تو چاہیے کہ اب نہالے یا بعد حیض ختم ہونے کے۔
مسئلہ ۴۰ : جنب نے جمعہ یا عید کے دن غسل جنابت کیا اور جمہ یا عید وغیرہ کی نیت بھی کرلی سب ادا ہو گئے اگر اُسی غسل سے جمعہ اور عید کی نماز ادا کرے۔
مسئلہ ۴۱ : عورت کو نہانے یا وضو کے لئے پانی مول لینا پڑے تو اس کی قیمت شوہر کے ذمے ہے بشرطیکہ غسل و وضو واجب ہوں یا بدن سے میل دور کرنے کے لئے نہائے۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۵۸)۔
مسئلہ ۴۲ : جس پر غسل وجب ہے اسے چاہئے کہ نہانے میں تاخیر نہ کرے ۔ حدیث میں ہے جس گھر مین جنب ہو اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے اور اگر اتنی دیر کر چکا کہ نماز کا آخر وقت آگیا تو اب فوراً نہانا فرض ہے اب تاخیر کرے گا گناہگار ہو گا اور کھانا کھانا یا عورت سے جماع کرنا چاہتا ہے تو وضو کرلے یا ہاتھ منہ دھولے کلی کرلے اور اگر ویسے ہی کھا پی لیا تو گناہ نہیں مگر مکروہ ہے اور محتاجی لاتا ہے اور بے نہائے یا بے وضو کئے جماع کر لیا تو بھی کچھ گناہ نہیں مگرجس کو احتلام ہوا بے نہائے اس عورت کے پاس جانا نہ چاہئیے۔ (شامی ج ۱ ص ۱۶۳)۔
مسئلہ ۴۳ : رمضان میں اگر جنب ہوا تو یہی بہتر ہے کہ قبل طلوع فجر نہالے کہ روزے کا ہر حصہ ہی جنابت سے خالی ہو اور اگر نہیں نہایا تو بھی روزہ میں کچھ نقصان نہیں مگر مناسب یہ ہے کہ غرغرہ اور ناک میں جڑ تک پانی چڑھانا یہ دو کام طلوع فجر سے پہلے کر لے کہ پھر روزے میں نہ ہو سکیں گے اور اگر نہانے میں اتنی تاخیر کی کہ دن نکل آیا اور نماز قضا کر دی تو یہ اور دِنوں میں بھی گناہ ہے اور رمضان میں زیادہ۔
مسئلہ ۴۴ : جس کو نہانے کی ضرورت ہو اس کو مسجد میں جانا، طواف کرنا، قرآن مجید چھونا اگرچہ اس کا سادہ حاشیہ یا جلد یا چولی چُھوئے یا بے چُھوئے دیکھ کر یا زبانی پڑھنا یا کسی آیت کا لکھنا یا آیت کا تعویز لکھنا یا ایسا تعویز چھونا یا ایسی انگوٹھی چھونا یا پہننا جیسے مقطعات کی انگوٹھی حرام ہے۔
مسئلہ ۴۵ : اگر قران عطیم جزدان میں ہو تو جزدان پر ہاتھ لگانے میں حرج نہیں یونہی رومال وغیرہ کسی ایسے کپڑے سے پکڑنا جو نہ اپنا تابع ہو نہ قرآن مجید کا تو جائز ہے، کُرتے کی آستین دوپٹے کے آنچل سے یہاں تک کہ چادر کا ایک کونا اس کے مونڈھے پر ہے دوسرے کونے سے چھُونا حرام ہے کہ سب اس کے تابع ہیں جیسے چولی قرآن مجید کے تابع تھی۔ (شامی ج ۱ ص ۱۶۱)۔
مسئلہ ۴۶ : اگر قرآن کی آیت دُعا کی نیت سے یا تبرّک کے لئے جیسے بِسْمِ اللّٰہِ الَّرحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یا ادائے شکر کو یا چھینک کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یا خبر ِ پریشان پر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اَلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا کہ بہ نیت ثنا پوری سورہ فاتحہ یا آیۃ الکرسی یا سورہ حشر کی پچھلی تین آیتیں ھُوَاللّٰہُ الَّذِیْ لآّ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سے آخر تک پڑھیں اور ان سب صورتوں میں قرآن کی نیت نہ ہو تو کچھ حرج نہیں یونہی تینوں قل بلا لفظ قل بہ نیت ثنا پڑھ سکتا ہے اور لفظ قل کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا اگرچہ بہ نیت ثنا ہی کو کہ اس صورت میں ان کا قرآن ہونا متعین ہے۔ نیت کو کچھ دخل نہیں۔
مسئلہ ۴۷ : بے وضو قرآن مجید یا اس کی کسی آیت کو چھونا حرام ہے۔ بے چھوئے زبانی دیکھ کر پڑھے تو کوئی حرج نہیں۔
مسئلہ ۴۸ : روپیہ پر آیت لکھی ہو تو ان سب کو (یعنی بے وضو اور جنب اور حیض و نفاس والی کو) اس کا چھونا حرام ہے ہاں اگر تھیلی میں ہو تھیلی اٹھانا جائز ہے۔ یونہی جس برتن یا گلاس پر سورہ یا آیت لکھی ہو تو اس کا چھونا بھی ان کو حرام ہے اور اس کا استعمال سب کو مکروہ مگر جب کہ خاص بہ نیت شفا ہو۔
مسئلہ ۴۹ : قرآن کا ترجمہ فارسی یا اردو یا کسی اور زبان میں ہو اس کے چھونے اور پڑھنے میں قرآن مجید ہی کا سا حکم ہے۔
مسئلہ ۵۰ : قرآن مجید دیکھنے میں اب سب پر کچھ حرج نہیں اگرچہ حروف پر نظر پڑے اور الفاظ سمجھ میں آئیں اور خیال میں پڑھتے جائیں۔ (درمختار ج ۱ ص ۱۶۱)۔
مسئلہ ۵۱ : ان سب کو فقہ و حدیث و تفسیر کی کتابوں کا چھونا مکروہ ہے اور اگر ان کو کسی کپڑے سے چُھوا اگرچہ اس کو پہنے یا اوڑھے ہوئے ہو تو حرج نہیں مگر موضع آیت پر ان کتابوں میں ہاتھ رکھنا حرام ہے۔ (شامی ص ۱۶۳)۔
مسئلہ ۵۲ : ان سب کو تورات، انجیل، زبور کو چھونا مکروہ ہے۔
مسئلہ ۵۳ : درود شریف اور دعاؤں کے پڑھنے میں انہیں حرج نہیں مگر بہتر یہ ہے کہ وضو یا کُلی کرکے پڑھیں۔
مسئلہ ۵۴ : ان سب کو اذان کا جواب دینا جائز ہے۔
مسئلہ ۵۵ : مصحف شریف اگر ایسا ہو جائے کہ پڑھنے کے کام میں نہ آئے تو اسے کفنا کر لحد کھود کر اسی جگہ دفن کر دیں جہاں پاؤں پڑنے کا احتمال نہ ہو۔ (درمختارو شامی ج ۱ ص ۱۶۴)۔
مسئلہ ۵۶ : کافر کو مصحف چُھونے نہ دیا جائے بلکہ مطلقاً حروف اس سے بچائیں۔ (درمختار ج ۱ ص ۱۶۴)۔
مسئلہ ۵۷ : قرآن سب کتابوں کے اوپر رکھیں پھر تفسیر پھر حدیث پھر باقی دینیات علیٰ حسب مراتب۔ (درمختار ص ۱۶۴)۔
مسئلہ ۵۸ : کتاب پر کوئی دوسری چیز نہ رکھی جائے حتیٰ کہ قلم دوات حتیٰ کہ وہ صندوق جس میں کتاب ہو اس پر کوئی چیز نہ رکھی جائے۔ (درمختار ج ۱ ص ۱۶۴)۔
مسئلہ ۵۹ : مسائل یا دینیات کے اوراق میں پُڑیا یا باندھنا، جس دسترخوان پر اشعار وغیرہ کچھ تحریر ہو اس کو کام میں لانا یا بچھونے پر لکھا ہوا اس کا استعمال منع ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۱۶۵)۔