غزوۃ الاحزاب کا سبب اور بنو نضیر کو جلاوطن کرنا ۔ غزوہ بنو قریظہ
امام عبدالملک بن ہشام الحافری المتوفی ٢١٣ ھ لکھتے ہیں :۔
ربیع الاول ‘ ٤ ہجری میں بنو نضیر کو جلاوطن کرنے کا واقعہ پیش آیا ‘ اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنو عامر کے دوافراد جن کے ساتھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معدہدہ تھا ‘ مدینہ منورہ سے اپنے گھر والوں کی طرف جارہے تھے ‘ راستے میں ان کی حضرت عمر وبن امیہ ضمری سے مڈبھیڑ ہوئی ‘ ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ بنو عامر کے یہ دو فرد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے حلیفوں پر تھی اور بنو نضیر آپ کے حلیف تھے ‘ اس لیے آپ نے بنو نضیر سے دیت میں تعاون کا مطالبہ کیا ‘ انہوں (بنو نضیر) نے کہا آپ بیٹھیں ہم آپس میں مشورہ کرتے ہیں ‘ سو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب میں سے حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر ‘ حضرت علی وغیرہ ہم (رض) ایک دیوار کے نیچے بیٹھ گئے ‘ یہود (بنو نضیر) نے دیت میں تعاون کرنے کی بجائے یہ سازش کی کہ آپ کی بے خبری میں وہ دیوار کے اوپر سے آپ کے اوپر چکی کا پاٹ پھینک کر آپ کو ہلاک کردیں ‘ حضرت جبریل (علیہ السلام) نے آکر آپ کو ان کی اس سازش کی خبردی ۔ آپ فوراً مدینہ منور تشریف لائے ۔ آپ نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کو مدینہ کا عامل مقرر کیا اور بنو نضیر کی سرکوبی کے لیے روانہ کر دیا ‘ یہ ماہ ربیع الاول کا واقعہ ہے آپ نے چھ دن ان (بنو نضیر) کا محاصرہ کیا۔ بنو نضیر قلعہ میں محصور ہوگئے تھے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ان کے کھجوروں کے درختوں کو کاٹ کر جلادیا جائے ‘ منافقین نے بنو نضیر کو تسلی دی تھی کہ ہم تمہاری مدد کو پہنچیں گے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا وہ نہیں آئے پھر بنو نضیر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ وہ ان کو قتل نہ کریں بلکہ جلاوطن کردیں اور ان کو یہ اجازت دیں کہ وہ اپنے اونٹوں پر اپنا سامان لاد کرلے جائیں ‘ چنانچہ وہ مدینہ سے نکل گئے ‘ ان (بنو نضیر) کے سردار خیبر میں چلے گئے اور بعض شام کی طرف روانہ ہوگئے۔غزوۃ الاحزاب کا سبب اور بنو نضیر کو جلاوطن کرنا ، غزوہ بنو قریظہ
(السیرۃ النبویہ ج ٣ ص ٢١٢۔ ٢١٠‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
غزوۃ الا حزاب کا مختصر ذکر
امام ابن ہشام متوفی ٢١٣ ھ نے لکھا ہے غزوۃ الاحزاب شوال ٥ ہجری میں رونما ہوا۔
بنو نضیر کے جو افراد جلاوطن ہو کر خیبر جارہے تھے ‘ انہوں نے مکہ میں جا کر قریش کو مسلمانوں کیخلاف لڑنے پر برانگخۃ کیا ‘ اور انکے علاوہ دیگر عرب کے قبائل میں سے غطفان ‘ بنو سلم ‘ بنومرہ ‘ اشجع اور بنو اسد وغیرہ کو بھی اپنے ساتھ متفق کرلیا ‘ بنو قریظہ پہلے ان کے ساتھ نہیں تھے مگر حیی بن اخطب نے ان کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ‘ غرض قریش ‘ یہود اور دیگر قبائل عرب بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ‘ کفار کی تیاری کی خبریں سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا ‘ حضرت سلمان فارسی (رض) نے مشورہ دیا کہ کھلے میدان میں لڑنا مصلحت کیخلاف ہے ‘ مدینہ کے گرد خندق کھود کے دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے ‘ آپ نے اس رائے کو پسند فرمالیا ‘ خودرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنے اصحاب کے ساتھ شریک تھے ‘ کفار نے ایک ماہ تک محاصرہ برقرار رکھا ‘ وہ خندق کھود نے میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنے اصحاب کے ساتھ شریک تھے ‘ کفار نے ایک ماہ تک محاصرہ برقرار رکھا ‘ وہ خندق کو عبور نہیں کرسکتے تھے اس لیے دور سے پتھر اور تیر برساتے تھے ‘ ایک دن قریش کے چند سوار جن میں عمروبن عبدود بھی تھا خندق کو عبور کرکے آگئے ‘ عمرو نے مقابلہ کے لیے للکارا ‘ حضرت علی (رض) آگے بڑھے اور تلوار سے اس کا سر قلم کردیا ‘ اس کا یہ حشر دیکھ کر اس کے باقی ساتھ بھاگ گئے ‘ بالآخر بنو قریظہ اور قریش میں پھوٹ پڑگئی اور سردی کے موسم کے باوجود ایسی زبردست آندھی آئی جس سے خیموں کی طنا بیں اکھڑ گئیں اور گھوڑے رسیاں تڑا کر بھاگ گئے ‘ چولہوں پر رکھی ہوئی دیگچیاں بار بار الٹ جاتی تھیں ‘ محاصرہ طویل ہونے کی وجہ سے مشرکین کا سامان رسد بھی ختم ہوچکا تھا اس لیے کفار قریش اور دیگر قبائل محاصرہ اٹھا نے پر مجبور ہوگئے تھے ‘ اور بنو قریظہ اپنے قلعوں میں چلے گئے تھے۔
غزوہ احزاب میں شدت قتال کے وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی بعض نمازیں بھی قضا ہوگئیں تھیں ‘ چھ مسلمان شہید ہوگئے تھے اور ان میں قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعدبن معاذ بھی تھے ‘ تیر لگنے سے ان کے بازو کی ایک رگ کٹ گئی تھی ‘ مسجد نبوی میں حضرت رفیدہ انصار یہ کا خیمہ تھا جو زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علاج کے لیے حضرت سعد بن معاذ (رض) کو اس خیمہ میں بھیج دیا تھا ‘ مگر وہ اس زخم سے جانبز نہ ہوسکے اور ایک ماہ بعد ان کی وفات ہوگئی ‘ اس غزوہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعدد معجزات ظاہر ہوئے۔
(السیرۃ النبویہ ج ٣ ص ٢٥٦۔ ٢٣٦ ملخصا ‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
غزوۃ الاحزاب کا سبب اور بنو نضیر کو جلاوطن کرنا ، غزوہ بنو قریظہ
غزوہ بنو قریظہ کا مختصر ذکر
٥ ہجری میں غزوہ خندق کے فوراً بعد غزوہ بنوقریظہ برپا ہوا ‘ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ خندق سے واپس تشریف لائے تو نماز ظہر کے بعد بنو قریظہ سے جنگ کرنے کا حکم آیا ‘ بنو قریظہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے کفار کیساتھ جنگ میں شریک ہوگئے تھے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین ہزار صحابہ کیساتھ ان کے خلاف جہاد کرنے کے لیے روانہ ہوئے اور ان کو پچیس دن محاصرہ میں رکھا ‘ آخر کار انہوں نے یہ منظور کرلیا کہ حضرت سعد بن معاذ (رض) کو ان کے معاملہ میں حاکم بنادیا جائے۔غزوۃ الاحزاب کا سبب اور بنو نضیر کو جلاوطن کرنا ، غزوہ بنو قریظہ
حضرت سعد (رض) نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے مرد قتل کردیئے جائیں اور عورتیں اور بچے گرفتار کرلیے جائیں ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔غزوۃ الاحزاب کا سبب اور بنو نضیر کو جلاوطن کرنا ، غزوہ بنو قریظہ
سو ایسا ہی کیا گیا مردوں کی تعداد چھ سو یا سات سو تھی۔
(السیرۃ النبویہ ج ٣ ص ٢٦٠۔ ٧ ٢٥ ملخصا داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
غزوۃ الاحزاب کا سبب اور بنو نضیر کو جلاوطن کرنا ، غزوہ بنو قریظہ
4 تبصرے