الإستفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کیا کوئی شخص شرعی عذر کے بغیر صرف ہجوم کی وجہ سے 10ذوالحجہ کی رمی غروبِ آفتاب کے بعد کرسکتا ہے ؟
(السائل : محمد افضال عطاری، برنس روڈ،کراچی)
جواب
بإسمہ سبحانہ و تعالیٰ و تقدس الجواب : رمی اپنے وقت میں کرنا واجب ہے اور دس تاریخ کی رمی کا آخری وقت 11 ذوالحجہ کی صبح صادق تک ہے اور رات میں رمی کرنا اس شخص کے لئے مکروہ تنزیہی ہے جو معذور نہ ہو اور جو معذور ہو اس کے لئے کراہت باقی نہیں رہتی۔ جیسے بیمار، کمزور اور خواتین وغیرہا۔ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ اورعلامہ سید محمدامین ابن عابدین شامی متوفی1252ھ لکھتے ہیں کہ
(ویکرہ للفجر) أی من الغروب إلی الفجر وکذا یکرہ قبل طلوع الشمس ’’بحر‘‘ وہذا عند عدم العذر الخ (73)
یعنی اور غروب آفتاب سے لیکر فجر تک رمی کرنامکروہ ہے اس طرح سورج نکلنے سے پہلے بھی مکروہ ہے ۔ ’’بحر الرائق‘‘ اور یہ کراہت اس وقت ہے جب کوئی عذر نہ ہو۔ اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد وقارالدین متوفی 1413ھ لکھتے ہیں کہ ’’رات میں رمی کرنا اگرچہ مکروہ ہے ، مگر عذر کی وجہ سے یہ کراہت باقی نہیں رہتی ۔‘‘ (74)
واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب
یوم الإثنین، 25 شوال المکرم 1423ھ/ 30 دسمبر 2002ء (392_JIA)
حوالہ جات
73۔ الدّرّالمختار وشرحہ رد المحتار، کتاب الحج، فصل فی الاحرام، وصفۃ المفرد بالحج، مطلب : فی رمی جمرۃ العقبۃ، 3/610۔611
74۔ وقار الفتاویٰ : کتاب المناسک، رمی کا بیان، رمی میں نائب بنانے کی شرعی حیثیت،2/461