الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگرطواف کی نیت عین حجراسودکے سامنے سے کی،تو کوئی مسئلہ تونہیں یاپھر تھوڑا پہلے سے کرناضروری ہے ،برائے کرم رہنمائی فرماکرعنداللہ ماجورہوں ؟ (سائل : مولاناطارق نعیمی،فاضل جامعۃ النور،کراچی)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں بہتریہ ہے کہ حجراسود سے تھوڑاپہلے کھڑے ہوکرطواف کی نیت کرے پھر حجراسود کے سامنے ائے لیکن اگرکسی نے عین حجراسودکے سامنے کھڑے ہوکر نیت کی،جب بھی درست ہے ۔چنانچہ شیخ الاسلام مخدوم محمدہاشم ٹھٹوی حنفی متوفی 1174ھ مستحبات طواف کے بیان میں لکھتے ہیں : شروع کردن در طواف قبل از حجر اسود بمقداری کہ مرور کند جمیع بدن او بر حجر۔( ) یعنی،حجراسودسے اتناپہلے طواف شروع کرے کہ پورابدن اس کے سامنے سے گزر جائے ۔ اورعلامہ سیدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں : انه ينوي الطواف قبل الاستقبال انه يمر بجميع بدنه على جميع الحجر، ولهذا قال في اللباب : ثم يقف مستقبل البيت بجانب الحجر الاسود مما يلي الركن اليماني، بحيث يصير جميع الحجر عن يمينه، ويكون منكبه الايمن عند طرف الحجر فينوي الطواف، وهذه الكيفية مستحبة والنية فرض۔( ) یعنی،حجراسودکے مقابل ہونے سے پہلے طواف کی نیت کرے تاکہ اس کاپورابدن حجراسودکے سامنے سے گزرجائے ۔اسی وجہ سے ’’لباب‘‘( )میں کہا : پھروہ بیت اللہ شریف کے بالمقابل حجراسودکی اس جانب جورکن یمانی کی طرف ہے ،کھڑاہواس طرح کہ پوراپتھر اس کی دائیں جانب ہواوراس کادایاں کندھا حجراسود کے کنارے ہو،پس وہ طواف کی نیت کرے ۔اوریہ کیفیت مستحب ہے جبکہ نیت فرض ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب یوم الخمیس،9/ذو القعدہ،1443ھ۔8/جون،2022م