بہار شریعت

عیدین کے متعلق مسائل

عیدین کے متعلق مسائل

اللہ عزوجل فرماتا ہے:

ولتکملوا العدۃ ولتکبرو اللہ علی ما ھدی کم

(روزوں کی گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو کہ اس نے تمہیں ہدایت فرمائی)

فصل لربک وانحر

(اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر)

حدیث ۱: ابن ماجہ ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو عیدین کی راتوں میں قیام کرے اس کا دل نہ مرے گا جس دن لوگو ں کے دل مریں گے۔

حدیث ۲: اصبہانی معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں جو پانچ راتوں میں شب بیداری کرے اس کے لئے جنت واجب ہے، ذی الحجہ کی آٹھویں ، نویں ، دسویں راتیں اور عیدالفطر کی رات اور شعبان کی پندرھویں یعنی شب برأت۔

حدیث ۳: ابودائود و انس رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور اقدس ﷺ جب مدینہ میں تشریف لائے اس زمانہ میں اہل مدینہ سال میں دو دن خوشی کرتے تھے (مہرگان دیروز) فرمایا یہ کیا دن ہیں لوگوں نے عرض کی جاہلیت میں ہم ان دنوں خوشی کرتے تھے فرمایا اللہ تعالی نے ان کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن تمہیں دیئے، عیدالضحی وعیدالفطر کے دن۔

حدیث ۴،۵: ترمذی و ابن ماجہ و دارمی بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور اقدس ﷺ عیدالفطر کے دن کچھ کھا کر نماز کے لئے تشریف لے جاتے اور عیدالضحی کو نہ کھاتے، جب تک نماز نہ پڑھ لیتے اور بخاری کی روایت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے کہ عیدالفطر کے دن تشریف نہ لے جاتے جب تک چند کھجوریں نہ تناول فرمالیتے اور طاق ہوتیں ۔

حدیث ۶: ترمذی و دارمی نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ عید کو ایک راستہ سے تشریف لے جاتے اور دوسرے سے واپس ہوتے۔

حدیث ۷: ابودائود و ابن ماجہ کی روایت انہیں سے ہے کہ ایک مرتبہ عید کے دن بارش ہوئی تو مسجد میں حضور نے عید کی نماز پڑھی۔

حدیث ۸: صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی کہ حضور ﷺ نے عید کی نماز دو رکعت پڑھی ، نہ اس کے قبل نماز پڑھی نہ بعد۔

حدیث ۹: صحیح مسلم شریف میں ہے جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے حضور ﷺ کے ساتھ عید کی نماز پڑھی ایک دو مرتبہ نہیں (بلکہ بارہا) نہ اذان ہوئی نہ اقامت۔

مسائل فقہیہ

مسئلہ ۱: عیدین کی نماز واجب ہے مگر سب پر نہیں بلکہ انہیں پر جن پر جمعہ واجب ہے اور اس کی ادا کی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لئے ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہوا اور اس میں نہ پڑھا تو نماز ہو گئی مگر برا کیا ، دوسرا فرق یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ قبل نماز ہے اور عیدین کا بعد نماز، اگر پہلے پڑھ لیا تو برا کیا، مگر نماز ہو گئی لوٹائی نہیں جائے گی اور خطبہ کا بھی اعادہ نہیں اور عیدین میں نہ اذان ہے نہ اقامت صرف دوبار اتنا کہنے کی اجازت ہے۔ الصلوۃ جامعہ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۵۰، درمختار ج ۱ ص ۷۷۵،۷۷۴ وغیرہما)

مسئلہ ۲: گائوں میں عیدین کی نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۷۵)

روز عید کے مستحبات

مسئلہ ۳: عیدکے دن یہ امور مستحب ہے:۔

(۱) حجامت بنوانا (۲) ناخن ترشوانا (۳) غسل کرنا (۴) مسواک کرنا (۵) اچھے کپڑے پہننا نیا ہو تو نیا ورنہ دھلا (۶) انگوٹھی پہننا (۷) خوشبو لگانا (۹) صبح کی نماز مسجد محلہ میں پڑھنا (۹) عیدگاہ جلد چلا جانا (۱۰) نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا (۱۱) عیدگاہ کو پیدل جانا (۱۲) دوسرے راستہ سے واپس آنا (۱۳) نماز کو جانے سے پیشتر چند کھجوریں کھا لینا۔ تین، پانچ، سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں ، کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھا لے، نماز سے پہلے کچھ نہ کھایا تو گنہگار نہ ہوا مگر عشاء تک نہ کھایا تو عتاب کیا جائے گا۔(کتب کثیرہ، عالمگیری ج ۱ ص ۱۴۹، ۱۵۰، درمختار ج ۱ ص ۷۷۶)

مسئلہ ۴: سواری پر جانے میں بھی حرج نہیں مگر جس کو پیدل جانے پر قدرت ہو اس کے لئے پیدل جانا افضل ہے اور واپسی پر سواری پر آنے میں حرج نہیں ۔ (جوہرہ، عالمگیری ج ۱ ص ۱۴۹)

مسئلہ ۵: عیدگاہ کو نماز کے لئے جانا سنت ہے اگرچہ مسجد میں گنجائش ہو اور عید گاہ میں منبر بنانے یا منبر لے جانے میں حرج نہیں ۔ (درمختار،ردالمحتار ج ۱ ص ۷۷۷،۷۷۶ وغیرہ)

مسئلہ ۶: (۱۴) خوشی ظاہر کرنا (۱۵) کثرت سے صدقہ کرنا (۱۶) عیدگاہ کو اطمنیان و وقار اور نیچی نگاہ کئے جانا (۱۷) آپس میں مبارک باد دینا مستحب ہے اور راستہ میں بلند آواز سے تکبیر نہ کہے۔ (درمختار،ر دالمحتار ج ۱ ص ۷۷۷)

مسئلہ ۷: نماز عید سے قبل نفل نماز مطلقاً مکروہ ہے عیدگاہ میں ہو یا گھر میں اس پر عید کی نماز واجب ہو یا نہیں یہاں تک کہ عورت اگر چاشت کی نماز گھر میں پڑھنا چاہے تو نماز ہو جانے کے بعد پڑھے اور نماز عید کے بعد عید گاہ میں نفل پڑھنا مکروہ ہے گھر میں پڑھ سکتا ہے بلکہ مستحب ہے کہ چار رکعتیں پڑھے یہ احکام خواص کے ہیں عوام اگر نفل پڑھیں اگرچہ نماز عید سے پہلے اگرچہ عیدگاہ میں انہیں منع نہ کیا جائے۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۷۷۷،۷۷۹)

مسئلہ ۸: نماز کا وقت بقدر ایک نیزہ آفتاب بلند ہونے سے ضحوۂ کبری یعنی نصف النہار شرعی تک ہے مگر عیدالفطر میں دیر کرنا اور عیدالضحی میں جلد پڑھ لینا مستحب ہے اور سلام پھیرنے کے پہلے زوال ہو گیا ہو تو نماز جاتی رہی۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۷۹ وغیرہ) زوال سے مراد نصف النہار شرعی ہے جس کے متعلق مسائل باب الاوقات میں گزرا۔

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button