استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی مُحرِمہ کے بال چھوٹے ہوں یعنی کندھوں سے کچھ نیچے تک ہوں تو اُسے تقصیر میں رُخصت دی جائے گی یا نہیں ؟
(السائل : ایک حاجی، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : حلق یا تقصیر حج و عمرہ کے واجبات سے ہیں ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن عبد اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ واجبات حج کے بیان میں لکھتے ہیں :
الحلقُ أو التّقصیر (1)
یعنی، حلق یا تقصیر واجبات حج سے ہیں ۔ اور ان کا حکم یہ ہے کہ ان سے حاجی یا عمرہ کرنے والا احرام سے فارغ ہوتا ہے چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی اور ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
حکمُہ التّحلُّلُ : أی : حصولُ التَّحلُّلِ بہ و ہو صیرورتُہ حلالاً (2)
یعنی، اس کا حکم حلال ہونا ہے یعنی اس سے تحلُّل حاصل ہوتا ہے اور تحلُّل اس کا حلال ہونا ہے ۔ عورتوں کے لئے صرف تقصیر ہے چنانچہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
’’لَیْسَ عَلَی النِّسائِ حَلْقٌ وَ إِنَّمَا عَلَیْہِنَّ تَقْصِیْرٌ‘‘ (3)
یعنی، عورتوں پر حلق نہیں ہے اور اُن پر تقصیر ہے ۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ عورتوں کے لئے حلق ممنوع ہے چنانچہ اُمَّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ
’’أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ نَہَی الْمَرْأَۃَ أَنْ تَحْلِقَ رَأْسَہَا‘‘ (4)
یعنی، نبی کریم ﷺ نے عورت کو اپنے سر کا حلق کرانے سے منع فرمایا ہے ۔ اور پھر حلق عورتوں کے حق میں مُثلہ بھی قرار دیا گیا ہے اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی قصر ہی کروایا کرتی تھیں چنانچہ علامہ علاء الدین کاسانی حنفی متوفی 587ھ لکھتے ہیں :
و لأنَّ الحلقَ فی ا لنِّسائِ مُثلۃٌ، و ہذا لم تفعَلْہُ واحدۃٌ من نسائِ رسولِ اللہ ﷺ و لکنّہا تقصّر (5)
یعنی، حلق عورتوں کے حق میں مُثلہ ہے ، اسی لئے رسول اللہ ﷺ کے ازواج میں کسی نے حلق نہیں کروایا، لیکن عورت تقصیر کروائے گی۔ اسی لئے فقہاء کرام نے فرمایا کہ حلق مردوں کے حق میں مسنون ہے اور عورتوں کے حق میں مکروہ تحریمی ہے چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی اورمُلا علی قاری لکھتے ہیں :
و الحلقُ مسنونٌ للرّجالِ (أی : أفضلُ) و مکروہٌ للنِّسائِ و التّقصیر مباحٌ لہنّ و مسنونٌ بل واجبٌ لَہُنَّ، ملخصاً (6)
یعنی، حلق مردوں کے لئے مسنون ہے اور عورتوں کے لئے مکروہ ہے اور تقصیر اُن کے حق میں مباح ہے اور مسنون ہے بلکہ (تقصیر) اُن کے لئے واجب ہے ۔ لہٰذا عورتوں کے لئے تقصیر ہی واجب ہے چنانچہ ملاّ علی قاری ’’لباب‘‘ کی عبارت ’’بل واجبٌ لہُنَّ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں :
لکراہۃِ الحَلقِ کراہۃ تحریمٍ فی حقِّہنَّ إلاَّ لضرورۃٍ (7)
یعنی، کیونکہ حلق عورتوں کے حق میں مکروہ تحریمی ہے مگر یہ کہ کسی شرعی ضرورت کی وجہ سے ہو۔ اسی طرح ’’غُنیہ‘‘ میں ہے کہ
و الحلقُ أفضلُ للرِّجالِ، مکروہ للنِّسائِ کراہۃ تحریمٍ إِلاَّ لضرورۃٍ (8)
یعنی، حلق مردوں کے لئے افضل ہے عورتوں کے لئے مکروہ تحریمی ہے مگر یہ کہ کسی شرعی ضرورت کی وجہ سے ہو۔ اور عورت کے بال جب تقصیر کے قابل نہ ہوں تو تقصیر اس کے حق میں متعذّر قرار پائے گی، چنانچہ ملا علی قاری حنفی ’’لباب‘‘ کی عبارت تقصیر کے متعذّر ہونے کی شرح میں لکھتے ہیں :
أی تعذَّرَ لکونِ الشّعر قصیراً (9)
یعنی، بال چھوٹے ہونے کی وجہ سے تقصیر متعذّر ہو۔ اور شرع کا حکم یہ ہے کہ جب حلق متعذّر ہو تو تقصیر واجب ہوتی ہے اور تقصیر متعذّر ہو تو حلق چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
و لو تَعَذَّرَ الحَلقُ لعارضٍ تعیَّنَ التّقصیرُ، أو التّقصیرُ تعیَّنَ الحلقُ(10)
یعنی، اگر حلق کسی عارض کی وجہ سے متعذّر ہو گیا تو تقصیر متعین ہو گی یا تقصیر متعذّر ہو تو حلق متعین ہو گا۔ اور عورت کے حق میں حلق تو پہلے ہی متعذّر تھا کہ شرعاً ممنوع ہے باقی رہی تقصیر تو وہ اس وقت متعذّر ہو گی جب بال تقصیر کے قابل نہ ہوں عورت کے بال تقصیر کے قابل ہوں تو تقصیر لازم ہو گی کثرت سے عمرے کرنے کے لئے شرع مطہرہ نے مجبور نہیں کیا ہے ، عورت حج کے لئے آئی ہو تو اس کا حج قران یا افراد ہو گا تو ایک بار اور تمتع ہو گا تو دوبار تقصیر لازم ہو گی، اس کے علاوہ عمرے وہ اپنی جانب سے کرے گی تو اس پر شریعت کی پیروی لازم ہو گی کہ اُسے احرام سے نکلنے کے لئے تقصیر کروانی ہو گی کیونکہ جب تقصیر ہو سکتی ہو تو اس کے بغیر احرام نہیں کُھلے گا چنانچہ علامہ علاؤ الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی متوفی 587ھ لکھتے ہیں :
فالحلقُ أو التَّقصِیرُ واجبٌ عندنا، إذا کان علی رأسِہ شَعرٌ لا یَتَحلَّلُ بدُونِہ و لنا قولہ تعالیٰ : {ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَہُمْ} (11) و روی عن ابنِ عمرَ رضی اللہ عنہ : أنَّ التَّفَثَ حَلّاقُ الشّعرِ، و لَبْسُ الثِّیَاب، و ما یتبعُ ذلک (12)
یعنی، پس حلق یا تقصیر ہمارے نزدیک واجب ہے جب کہ اُس کے سر پر بال ہوں ، اُس کے بغیر وہ احرام سے نہیں نکلے گا اور ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَہُمْ} (13) اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’التّفث‘‘ بال منڈوانا، کپڑے پہننا وغیرہ ہے ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الإثنین، 6ذو الحجۃ 1430ھ، 23 نوفمبر 2009 م 486-F
حوالہ جات
1۔ لُباب المناسک مع شرحہ للقاری، باب فرائض الحج، فصل فی واجباتہ، ص71
2۔ لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسّط، باب منا سک منیً، فصل فی حکم الحلق، ص326
3۔ سُنَن أبی داؤد، کتاب المناسک، باب الحلقِ و التّقصیرِ، برقم : 1984، 1985، 2/344
أیضاً سُنَن الدّارمی، کتاب المناسک، باب من قال : لَیْسَ عَلَی النِّسَائِ حَلْقٌ، برقم : 1905، 2/55
أیضاً سُنَن الدّار قطنی، کتاب الحجّ، باب المواقیت، برقم : 40، 1۔2/239
أیضاً السُّنَن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الحجّ، باب من قال : لَیْسَ عَلَی النِّسَائِ حَلْقٌ و لٰکِنْ یَقَصِّرْنَ، برقم : 9404، 9405، 9406، 5/169
أیضاً المعجم الکبیر للطّبرانی، أُمِّ عثمان، عن ابن عباس، برقم : 13018، 12/194
4۔ کشف الأستار، کتاب الحج، باب النّہی عن الحلق للنّساء، برقم : 1137، 2/32
5۔ بدائع الصنائع، کتاب الحجّ، فصل فی أحکام الحلق و التّقصیر، 3/100
6۔ لُباب المناسک و شرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب مناسک منیً، فصل فی الحلق و التّقصیر، ص324
7۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب مناسک منیً، فصل فی الحلق و التّقصیر، ص326
8۔ غُنیۃ النّاسک، فصل فی الحلق، ص173
9۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب مناسک منیً ، فصل فی الحلق و التّقصیر، ص324
10۔ لباب المناسک المسلک المنقسط فی المنسک المتوسط، باب مناسک منیً، فصل فی الحلق و التّقصیر، ص154
11۔ الحج : 22/29
12۔ بدائع الصنائع، کتاب الحجّ، فصل فی أحکام الحلق و التّقصیر، 3/98
13۔ ترجمہ : پھر اپنا میل کچیل اُتاریں ۔