استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ عورت احرام باندھنے کے بعد تلبیہ اور دعائیں کتنی آواز کے ساتھ پڑھے ، بعض عورتوں کو دیکھا ہے خصوصاً طواف میں بآواز بلند دعائیں پڑھتی ہیں ، بسا اوقات تو ایک آگے زور سے پڑھ رہی ہوتی ہے باقی اس سے سُن کر پڑھتی ہیں او رکبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ عورت و مرد طواف کر رہے ہوتے ہیں عورت آگے پڑھ رہی ہوتی ہے اورمرد اس سے سُن کر اس کے ساتھ پڑھ رہا ہوتا ہے ؟
(السائل : محمد سلیم گھانچی، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : ان کا یہ فعل شرعاً ممنوع و حرام ہے کیونکہ عورت کی آواز بھی عورت ہے ، چنانچہ علامہ ابو منصور محمد بن مکرم بن سفیان کرمانی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :
أن لا ترفع صوتہا بالتلبیۃ، لما روی أن النبی ﷺ سمع صوت امرأۃ فقال : ’’عَقْریٰ حَلْقٰی‘‘ أی عقر اللہ، فأصابھا وجع فی حلقہا، و المعنی فیہ، و ہو أن صوتہا سبب الفتنۃ (220)
یعنی، عورت تلبیہ کہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند نہ کرے ، کیونکہ مروی ہے کہ نبی ا نے ایک عورت کی آواز سُنی تو ارشاد فرمایا : ’’ حلق میں درد ہو‘‘، یعنی درد پیدا کر دے اللہ، تو اس عورت کے حلق میں درد ہو گیا، اور اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ عورت کی آواز فتنہ کا سبب ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
سویم آنکہ رفع نہ نکند زن صوت خود را بتلبیہ بخلاف مرد (221)
یعنی، تیسرا یہ کہ عورت تلبیہ کہتے ہوئے اپنی آواز بلند نہ کرے گی بخلاف مرد کے ۔ تو ثابت ہوا کہ عورت کو تلبیہ اتنی آواز سے کہنی ہے کہ اس کی آواز خود اس کے اپنے کانوں تک آئے بشرطیکہ فضاء میں شور نہ ہو ، اور دیگر اذکار اور دعاؤں میں بھی عورت کے لئے یہی حکم ہے ، اس کا خلاف کرنے والی خواتین اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی بجائے اسے ناراض کرنے والا کام کرتی ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے ، آمین
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الأحد، 4ذوالحجۃ 1427ھ، 24دیسمبر 2006 م (326-F)
حوالہ جات
220۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی، فصل فی إحرام المرأۃ و الأفعال فیہ، 1/351
221۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اول، فصل پنجم، ص82