ARTICLES

عمرے کاحلق جدہ میں کروانے کاحکم حرم سے باہردم اداکرنے کاحکم دم کی ادائیگی فوراہی ضروری ہے

الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زیدعمرہ کرنے کیلئے گیاعمرہ کیالیکن حلق کروانابھول گیا،اورجدہ میں اکرحلق کروایا اوراحرام کھول دیا،اب زیدکے لئے کیاحکم ہے دم واجب ہے یاصدقہ،اوراگر دم ہے تواسے فورادینا ضروری ہے اوراگردم یوپی(انڈیا)میں دلوادے تو کیاحکم ہے ؟

(سائل : محمدقمرالدین اسمٰعیلی)

متعلقہ مضامین

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں شخص مذکورپردم واجب ہے ۔چنانچہ شیخ الاسلام مخدوم محمدہاشم ٹھٹوی حنفی متوفی1174ھ لکھتے ہیں :

اگر حلق نمود در خارج حرم حلال گردد از احرام ولیکن لازم اید دم بروے برابر است کہ محرم بحج باشد یا بعمرہ وبرابر است کہ مفرد باشد یا قارن یا متمتع۔()

یعنی،اگرکسی نے حرم سے باہرحلق کیاتووہ احرام سے نکل جائے گالیکن اس پردم لازم ہوگاخواہ وہ حج کے احرام میں ہویا عمرہ کے ،اورخواہ وہ مفردہویاقارن یامتمتع۔ اورعلامہ سیدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں :

يجب دم لو حلق للحج او العمرة في الحل۔()

یعنی،کسی نے حج یاعمرے کاحلق حل میں کیاتواس پردم واجب ہوگا۔
اورصدرالشریعہ محمدامجدعلی اعظمی حنفی متوفی1367ھ لکھتے ہیں : عمرہ کا حلق بھی حرم ہی میں ہونا ضرور ہے ، اس کا حلق بھی حرم سے باہر ہوا تو دم ہے مگر اس میں وقت کی شرط نہیں ۔() اوردم کی ادائیگی فوراہی ضروری نہیں ،لیکن بہتریہی ہے کہ اسے ادا کرنے میں جلدی کی جائے ۔چنانچہ علامہ علاء الدين ابوبكربن مسعودكاسانی حنفی متوفى587ھ لکھتے ہیں :

الكفارات كلها واجبة على التراخي حتى لا ياثم بالتاخير ويكون مؤديًا لا قاضيًا۔()

یعنی،تمام کفارے فی الفورواجب نہیں ہوتے ہیں حتی کہ تاخیرکے سبب وہ گنہگارنہیں ہوگااورنہ ہی وہ قضاکرنے والاہوگابلکہ ادا کرنے والاہوگا ۔ اورعلامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993ھ اورملاعلی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

(اعلم ان الكفارات كلها واجبة على التراخي)وانما الفور بالمسارعۃ الی الطاعۃ والمسابقۃ الی اسقاط الکفارۃ افضل (فلا یاثم بالتاخیر) ای بتاخیر اداء الکفارۃ (ویکون) ای المکفر (مؤدیا لا قاضیا فی ای وقت ادی وانما یتضیق علیہ الوجوب فی اخر عمرہ فی وقتٍ یغلب علی ظنہ انہ لم یؤدہ لفات) ای وقتہ او اداؤہ (فان لم یؤد فیہ) فی ذلک الوقت (فمات اثم ویجب علیہ الوصیۃ بالاداء والافضل تعجیل اداء الکفارات)۔ ()

یعنی،توجان کہ بے شک تمام کفارے فی الفورواجب نہیں ہوتے ہیں ، اور فوراطاعت کی طرف جلدی کرنااورکفارہ کوساقط کرنے کی جانب سبقت لے جانا افضل ہے ،پس وہ اسے مؤخرکرنے یعنی کفارے کی ادائیگی میں تاخیر کے سبب گنہگارنہیں ہوگااور جس وقت بھی کفارہ اداکرے گاتووہ اداہی کرنے والا ہوگا نہ کہ قضاکرنے والا،اوراس پرعمرکے اخری حصے میں ایسے وقت وجوب تنگ ہوجائے گاکہ جب اسے غالب گمان ہوکہ وہ اسے ادانہ کرے گاتواس کاوقت نکل جائے گایا اس کی ادائیگی فوت ہوجائے گی پھراگر ایسے وقت میں اس نے ادانہ
کیااورانتقال کرگیاتووہ گنہگارہوا،اوراس پر کفارہ اداکرنے کی وصیت کرناواجب ہوگااورکفاروں کی ادائیگی میں جلدی کرنا افضل ہے ۔ اوردم سرزمین حرم پراداکرناضروری ہے ۔چنانچہ امام برہان الدین ابو الحسن علی بن ابی بکرمرغینانی حنفی متوفی593ھ لکھتے ہیں :

(ولا يجوز ذبح الهدايا الا في الحرم) لقوله تعالى في جزاء الصيد{هدیًۢا بٰلغ الكعبة}() فصار اصلًا في كل دمٍ هو كفارة، ولان الهدي اسم لما يهدى الى مكان ومكانه الحرم. قال عليه الصلوۃ والسلام : «منًى كلها منحر، وفجاج مكة كلها منحر»۔()

یعنی،اورہدایاغیرحرم میں ادانہیں ہوں گے ،کیونکہ شکارمارنے کی جزاء کے بارے میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے کہ یہ قربانی ہو کعبہ کو
پہنچتی،لہٰذاہروہ قربانی جوکفارے کے طورپرہو،یہ قول اس کیلئے اصل ہے اوراس لئے کہ ہدی وہ چیزہے جومکان کی طرف بھیجی جائے ،اوراس کی جگہ حرم ہے ،کیونکہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ ’’پورا منیٰ قربانی کی جگہ ہے اورمکہ کی راہیں ساری قربانی کی جگہیں ہیں ۔‘‘ اورعلامہ رحمت اللہ سندھی اورملاعلی قاری لکھتے ہیں :

(واما شرائط جواز الدماء۔۔۔ذبحہ فی الحرم) بالاتفاق، سواء وجب شکرا او جبرا۔()

یعنی،دم اداہونے کی شرائط میں سے ایک شرط بالاتفاق یہ ہے کہ اسے حرم میں ذبح کیاجائے خواہ دم شکر ہویادم جبر۔ اورامام اہلسنت امام احمدرضاخان حنفی متوفی1340ھ لکھتے ہیں : کفارہ کی قربانی یاقارن ومتمتع کے شکرانہ کی،غیرحرم میں نہیں ہوسکتی۔() لہٰذامعلوم ہواکہ شخص مذکورپرحرم سے باہرحلق کروانے کے سبب دم لازم ہے جس کوفوراہی اداکرناضروری نہیں ،اس لئے تاخیرکے سبب وہ گنہگارنہ ہوگالیکن بہتریہی ہے کہ اس کی ادائیگی میں جلدی کی جائے ،اوریہ بھی معلوم ہوا کہ دم سرزمین حرم پراداکرناضروری ہے کیونکہ کفارے کی قربانی غیرحرم میں نہیں ہوسکتی،لہٰذاوہ شخص یوپی(انڈیا)میں دم نہیں دے سکتا،بلکہ اسے حرم ہی میں ادا کرناضروری ہے ،اب چاہے وہ خودجاکردم دے یاپھرکسی کووکیل بناکراس کے ذریعے دم دلوائے ۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب جمعرات،7ربیع الاول1443ھ۔13،اکتوبر2021م

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button