استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص افاقی عمرہ کو ایا اور اس نے پہلے سعی کی بعد میں طواف کیا اور حلق کروادیا، اب اس صورت میں اس کا عمرہ درست ہو گیا یا نہیں اور اس پر کیا لازم ائے گا ؟ تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں ۔
(السائل : ایک حاجی، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : یاد رہے کہ عمرہ میں ایک فرض اور دو واجب ہیں چنانچہ شمس الائمہ سرخسی متوفی 400ھ (86) اور ان سے ’’ہندیہ‘‘ (87) میں مذکور ہے :
امارکنہا فالطواف، و اما واجباتہا فالسعی بین الصفا و المروۃ و الحلق او التقصیر
یعنی، مگر عمرہ کا رکن پس طواف ہے اور مگر اس کے واجبات پس صفا و مروہ کے مابین سعی اور حلق یا تقصیر ہے ۔ اور بعض نے نیت کو بھی شمار کرتے ہوئے دو رکن قرار دئیے ہیں ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبد اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
اما فرائضہا فالطواف و النیۃ، و واجباتہا السعی و الحلق او التقصیر (88)
یعنی، مگر عمرہ کے فرائض، پس طواف اور نیت ہیں اور اس کے واجبات سعی اور حلق یا تقصیر ہیں ۔ اور طواف سعی پر مقدم ہے چنانچہ علامہ ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :
فان اللٰہ تعالٰی شرع السعی عقیب الطواف لا قبلہٗ (99)
یعنی، پس بے شک اللہ تعالیٰ نے سعی کو طواف کے بعد مشروع کیا ہے نہ کہ اس سے قبل۔ قران کریم میں ہے :
{فمن حج البیت او اعتمر فـلا جناح علیہ ان یطوف بہما} الایۃ (100)
ترجمہ : تو جو اس کے گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے ۔ اس ایہ کریمہ کے تحت علامہ کرمانی لکھتے ہیں :
ذکر بحرف الفائ، و انہا للتعقیب، فکان تبعا، و التبع لا یتقدم علی المتبوع (101)
یعنی، اللہ تعالیٰ نے سعی کو حرف ’’فاء‘‘ کے ساتھ ذکر فرمایا اور ’’فاء‘‘ تعقیب کے لئے ہے پس سعی تبعا ہے اور تابع متبوع پر مقدم نہیں ہوتا۔ لہٰذا طواف کا سعی پر مقدم ہونا صحت سعی کے لئے شرط ہے چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شا می حنفی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :
و صرح فی ’’المحیط‘‘ : بان تقدیم الطواف شرط لصحۃ السعی (102)
یعنی، ’’محیط‘‘ (103) میں تصریح فرمائی کہ تقدیم طواف صحت سعی کے لے شرط ہے ۔ اور علامہ کرمانی لکھتے ہیں :
الترتیب بین الطواف و السعی شرط لصحتہا (104)
یعنی، طواف اور سعی کے مابین ترتیب اس کی صحت کے لئے شرط ہے ۔ اور ملا علی قاری حنفی متوفی 1004ھ لکھتے ہیں :
قال المصنف فی ’’الکبیر‘‘ : و تقدیم الطواف علی السعی شرط لصحۃ السعی بالاتفاق (105)
یعنی، مصنف (علامہ رحمت اللہ سندھی) نے (اپنی دوسری کتاب) ’’الکبیر‘‘ (106) میں فرمایا کہ سعی پر طواف کی تقدیم صحت سعی کی بالاتفاق شرط ہے ۔ اسی لئے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ طواف سے قبل سعی جائز نہیں ہے چنانچہ علامہ ابو منصور کرمانی لکھتے ہیں :
لا یجوز السعی قبل الطواف، لانہ شرع لکمال الطواف، و انہ تبع (107)
یعنی، طواف سے قبل سعی جائز نہیں کیونکہ اسے کمال طواف کے لئے مشروع کیا گیا ہے اور یہ کہ (طواف کے ) تابع ہے ۔ اور عمرہ میں طواف سے قبل کی گئی سعی معتبر نہیں ہوتی چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبد اللہ سندھی حنفی اور ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :
و لو سعی قبل الطواف ای : جنسہ او قبل الطواف الصحیح لم یعتد بہ ای : بذلک السعی، فان سعیہ حینئذٍ کا لمعدوم (108)
یعنی، اگر طواف سے قبل سعی کی یعنی جنس طواف یا طواف صحیح سے قبل تو وہ سعی شمار نہ کی جائے گی، بے شک اس وقت سعی مثل معدوم کے ہے ۔ پورا طواف چھوڑ کر سعی کرے یا اکثر دونوں صورتوں میں حکم یہی ہو گا، چنانچہ علامہ ابو منصور کرمانی لکھتے ہیں :
حتی لو ترک اکثر الطواف منہا و اتی باقلہ، ثم سعی بین الصفا و المروۃ لا یجوز، و لا یحل ما لم یعدہا او یکملہا، لانہ ترک الاکثر، و للاکثر حکم الکل علی ما مر، فاذا اکمل الطواف اعاد السعی بین الصفا و المروۃ (109)
یعنی، یہاں تک کہ اگر عمرہ کا اکثر طواف چھوڑ دیا اور کم پھیرے کئے پھر صفا و مروہ کے مابین سعی کی تو جائز نہ ہوئی، اوراحرام سے نہ نکلے گا جب تک اس کا اعادہ نہ کرے یا اسے مکمل نہ کرے ، کیونکہ اس نے اکثر کو ترک کیا اور اکثر کے لئے کل کا حکم ہے ، پس جب طواف مکمل کر لیا تو صفا و مروہ کے مابین سعی کا اعادہ کرے گا۔ علامہ عالم بن العلاء انصاری حنفی متوفی 786ھ لکھتے ہیں :
و فی ’’الظہیریۃ‘‘ و لو ترک طواف العمرۃ اکثرہ او کلہ و سعی بین الصفا و المروۃ و رجع الی اہلہ فہو محرم ابدًا، و لا یجزی عنہ البدل و علیہ ان یعود الی مکۃ بذلک الاحرام و لا یجب علیہ احرام جدید لاجل مجاوزۃ المیقات (110)
یعنی، اور ’’ظہیریہ‘‘ (111) میں ہے کہ اگر عمرہ کا اکثر یا کل طواف چھوڑ دیا اور صفا اور مروہ کے مابین سعی کر لی اور اپنے اہل کو لوٹ گیا تو وہ ہمیشہ محرم ہے اور طواف کا بدل جائز نہ ہو گا اور اس پر لازم ہے کہ اسی احرام کے ساتھ مکہ لوٹے ، اور اس پر میقات سے گزرنے کی وجہ سے نیا احرام لازم نہ ہو گا۔ اور جب عمرہ کا طواف کرے گا تو سعی بھی کرنی ہو گی پہلی سعی کافی نہ ہو گی چنانچہ علامہ عالم بن العلاء انصاری لکھتے ہیں :
و فی ’’شرح الطحاوی‘‘ : و یطوف لہا او یکمل الطواف و یسعی بین الصفا و المروۃ، و سعیہ الاول غیر جائزٍ (112)
یعنی، اور ’’شرح الطحاوی‘‘ میں ہے کہ اور عمرہ کا طواف کرے یا طواف کو مکمل کرے اور صفا و مروہ کے مابین سعی کرے اور اس کی پہلی سعی جائز نہیں ہے ۔ اور اگر وہ اعادہ نہیں کرتا تو اس پر دم لازم ائے گا کہ سعی عمرہ کے واجبات سے ہے اور اسے اس نے بلا عذر شرعی ترک کیا ہے ۔
واللٰہ تعالی اعلم بالصواب
یوم الثلاثاء، 3 ذوالحجۃ 1431ھ، 9 نوفمبر 2010 م 681-F
حوالہ جات
86۔ المحیط السرخسی، کتاب الحج، ص216، مخطوط مصور
87۔ الفتاوی الہندیۃ، کتاب المناسک، الباب السادس : فی العمرۃ، 1/237
88۔ لباب المناسک ، باب العمرۃ، ص278
89۔ المسالک فی المناسک، فصل فی الترتیب فیہ بعد فصل : فی السعی بین الصفا و المروۃ، 1/472
90۔ البقرہ : 2/158
91۔ المسالک فی المناسک، فصل فی الترتیب فیہ بعد فصل : فی السعی بین الصفا و المروۃ، 1/472
102۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، مطلب : فی السعی بین الصفا و المروۃ، تحت قولہ : ان اراد السعی، 3/587
103۔ یہاں ’’محیط‘‘ سے مراد ’’محیط برھانی‘‘ ہے اور اس کی عبارت یہ ہے کہ ان السعی تابع للطواف، مرتب علیہ (المحیط البرھانی، کتاب المناسک، الفصل الثامن : فی الطواف و السعی، طواف الصدر، 3/454)
104۔ المسالک فی المناسک، فصل بعد فصل : فی العمرۃ علی الانفراد الخ، 1/619
105۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب العمرۃ، تحت قولہ : و الحلق او التقصیر، ص654
106۔ جمع المناسک، باب العمرۃ، ص591
107۔ المسالک فی المناسک، فصل فی الترتیب فیہ بعد فصل فی السعی بین الصفا و المروۃ، 1/472
108۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات وانواعھا، النوع الخامس : الجنایات فی افعال الحج، فصل : الجنایۃ فی السعی، ص503۔504
109۔ المسالک فی المناسک، فصل بعد فصل فی العمرۃ علی الانفراد الخ، 1/619
110۔ الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الحج، الفصل السابع : فی الطواف و السعی، م جئنا الی طواف العمرۃ، 3/610
111۔ الفتاوی الظہیریۃ، کتاب الحج، الفصل السابع : فی الطواف و السعی، ص144
112۔ الفتاویٰ التاتارخانیۃ، کتاب الحج، الفصل السابع : فی الطواف و السعی، م جئنا الی طواف العمرۃ، 3/610