ARTICLESشرعی سوالات

عمرہ میں حلق سے قبل مونچھیں منڈوانے کا حکم

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اِس مسئلہ میں کہ ہمارے گروپ میں ایک حاجی صاحب جو آج ہی پاکستان سے تشریف لائے تھے عمرہ کا طواف کر کے سعی کی اور حلق سے قبل اپنی مونچھیں منڈوا دیں بعد میں حلق کروایا اب اِس صورت میں اُس پر کیا لازم ہو گا۔

(السائل : محمد رضوان بکالی، لبیک حج گروپ، مکہ مکرمہ)

متعلقہ مضامین

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : عمرہ کرنے والا افعالِ عمرہ ادا کرنے کے بعد جب تک حلق یا قصر نہیں کروا لیتا احرام میں ہی رہتا ہے اور اُس شخص نے احرام سے نکلنے سے قبل مونچھیں منڈوا دیں تو یہ احرام پر جنایت قرار پائی اور مونچھیں داڑھی کے ساتھ شمار ہوتی ہیں چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :

و اللّحیۃُ مع الشَّاربِ عضوٌ واحدٌ۔ ’’فتح‘‘ (151)

یعنی، داڑھی مونچھوں کے ساتھ ایک عضو ہے ۔ ’’فتح القدیر‘‘ (152) اور داڑھی کم از کم چوتھائی منڈوانے پر دَم اور اس سے کم میں صدقہ ہے لازم ہوتا ہے چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی متوفی 1161ھ لکھتے ہیں :

و إذا حَلَقَ رُبعَ لحیَتہِ فصاعداً فعلیہ دمٌ وَ إ ن کا ن أقلّ مِن الرُّبُع فصدقۃٌ کذا فی ’’السّراج و الوہّاج‘‘ (153)

یعنی، جب اپنی داڑھی کے چوتھائی، پس زیادہ کا حلق کیا تو اُس پر دَم ہے اور اگر چوتھائی سے کم ہے تو صدقہ ہے اِسی طرح ’’السِّراج الوَھّاج‘‘ میں ہے ۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں کہ : سر یا داڑھی کے چہارم بال یا زیادہ کسی طرح دُور کئے تو دَم ہے اور کم میں صدقہ الخ (154) اور ظاہر ہے کہ صرف مونچھیں داڑھی کا چوتھائی نہیں اِس لئے مونچھوں میں صرف صدقہ لازم آئے گا چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :

لأنّہ تبعٌ للّحیۃ، ولا یبلغُ رُبعہا، و القولُ لوجوبِ الصّدقۃِ فیہ ہو المذہبُ المصحَّحُ (155)

یعنی، کیونکہ مونچھ داڑھی کے تابع ہے اور داڑھی کے چوتھائی حصے کو نہیں پہنچتی اور اِس میں صدقہ واجب ہونے کا قول صحیح مذہب ہے ۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی لکھتے ہیں : مونچھ اگرچہ پوری منڈوائے یا کتروائے صدقہ ہے ۔ (156) لہٰذا صورت مسؤلہ میں یہ شخص ایک صدقہ دے گا اور صدقہ سے مراد صدقہ فطر ہے چنانچہ علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :

تصدّق بنصفِ صاعٍ من بُرٍّ کالفطرۃِ (157)

یعنی، صدقہ دے آدھا صاع گندم مثل فطرانے کے ۔ اور حج میں صدقہ کو صدقہ فطر کے ساتھ مشابہت مقدار میں ہے چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں :

’’الظّاہرُ أنَّ التّشبِیہَ إنَّما ہو فی المقدورِ لا غیر (158)

یعنی، ظاہر ہے کہ تشبیہ صرف مقدار میں ہے نہ کہ اس کے غیر میں ۔ اور نصف صاع گندم سیر کے پیمانے کے مطابق تقریباً سوا دو سیر (دو کلو پیتالیس گرام تقریباً) ہے ۔ اور فقہاء کرام کا صدقہ کے ساتھ آدھا صاع گندم لکھنا اتفاقی ہے ورنہ صدقہ فطر جَو، کھجور، اور کشمش یا منقہ سے بھی ادا کیا جا سکتا ہے ، ہاں ان چیزوں سے اگر دے گا تو ایک صاع دے گا گندم سے دے گا تو آدھا صاع دے گا، چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں :

إنَّ التّقییدَ بنصفِ الصَّاع من التّمرِ أو الشَّعیرِ (159)

یعنی، بے شک گندم کے نصف صاع کی قید اتفاقی ہے پس کھجور یا جَو کا ایک صاع دینا جائز ہے ۔ کھجور اور جَو سے ایک صاع صدقہ فطر دینے کا ذکر حدیث شریف میں بھی ہے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ

’’فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ النَّاسَ زَکَاۃ الفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ أَوْ صَاعاً مِنْ شَعِیْرٍ۔ الحدیث (160)

یعنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر رمضان کا صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو مقرر فرمایا۔ إلخ اور فقہاء کرام نے بعض جگہ نصف صاع گندم کے ساتھ ایک صاع کھجور اور جَو کا بھی ذکر فرمایا، چنانچہ علامہ محمد بن عبداللہ بن احمد غزّی تمرتاشی حنفی متوفی 1004ھ لکھتے ہیں :

نصفَ صاعٍ من بُرٍّ أو صاعاً من تمرٍ أو شعیرٍ (161)

یعنی، نصف صاع گندم یا ایک صاع کھجور یا جوَ (مثل فطرانے کے )۔ اور صدقہ حرم میں دینا لازم نہیں بلکہ افضل ہے ، اور اس شخص پر اِس گُناہ سے توبہ لازم ہے کیونکہ گُناہ کی معافی بغیر سچی توبہ کے نہیں ہوتی اور ہمارے دیگر فتاویٰ میں اس کی تفصیل مذکور ہے ۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الثلثاء، 20 ذو القعدۃ 1429ھ، 18نوفمبر 2008 م 473-F

حوالہ جات

151۔ رَدُّ المحتار علی الدُّرِّ المختار، کتاب الحجّ، باب الجنایات، تحت قولہ : أو حلق رُبع رأسہ، 3/659

152۔ فتح القدیر، کتاب الحجّ، باب الجنایات، تحت قولہ : فعلیہ طعام ہو حکومۃ عدل، 2/446، و فیہ : و ہو مع اللّحیۃِ کعضوٍ واحدٍ

153۔ الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب المناسک، الباب الثّامن فی الجنایات، الفصل الثّالث فی حلق الشّعر و قلم الأظفار، 1/243

154۔ بہار شریعت، حصہ ششم، حج کا بیان، جرم اور ان کے کفارے کا بیان، ص1/1170

155۔ رَدُّ المحتار علی الدُّرِّ المختار، کتاب الحجّ، باب الجنایات، تحت قولہ : أو حلق شاربَہ، 3/669

156۔ بہار شریعت، حج کا بیان، جرم اور ان کے کفارے کا بیان، 1/1171

157۔ الدُّرُّ المختار، کتاب الحجّ، باب الجنایات، ص167

158۔ رَدُّ المحتار علی الدُّرِّ المختار، کتاب الحجّ، باب الجنایات، تحت قولہ : کالفطرۃ لا یجزیہ، 3/682

159۔ رَدُّ المحتار علی الدُّرِّ المختار، کتاب الحجّ، باب الجنایات، تحت قولہ : کالفطرۃ، 3/671

160۔ مشکل الآثار، باب (543) بیان مشکل ما روی عن رسول اللہ ﷺ فی صدقۃِ الفطر إلخ، برقم : 3751، 2/4/240

161۔ تنویر الأبصار مع شرحہ للحصکفی، کتاب الحجّ، باب الجنایات، ص168

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button