علم الوقف والابتداء کا تعارف:
یہ اسم دو ناموں سے مرکب ہے۔ وقف اور ابتداء۔ لہذا اس علم کے تعارف کے لیے ان دونوں کا جانا ضروری ہے۔
وقف کا لغوی معنی:
لغت میں وقف کا لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کبھی وقف کا لفظ حبس یعنی روکنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے کہا جاتا ہے: وقف ارضه على المساكين اى حبسها – کبھی وقف کا لفظ سکوت یعنی خاموشی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، کہا جاتا ہے: وقف القاری علی الكلمة ای سکت ۔ اسی طرح وقف کا لفظ قیام و سکوت یعنی کھڑے ہونے اور رکنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، کہا جاتا ہے: وقف ای قام او سکن[1]
وقف کا اصطلاحی معنی:
اصطلاحی طور پر وقف کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں۔ ان میں چند یہ ہیں۔ (1) علامہ ابن حاجب رحمہ اللہ (المتوفی: 630 ھ) نے وقف کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
قطع الكلمة عما بعدها یعنی کلمے کو اس کے مابعد سے جدا کر دیتا۔
(2) ابو حیان اندلسی (المتوفی : 745ھ) اپنی کتاب شرح التسہیل میں وقف کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
قطع النطق عند آخر اللفظ یعنی لفظ کے آخر میں بولنا ختم کر دینا۔ [2]
(3) اس سلسلے میں علامہ جزری (المتولی : 833ھ) نے وقف کی جو تعریف کی ہے وہ نہایت مناسب ہے۔ فرماتے ہیں:
الوقف : عبارة عن قطع الصوت زمناً يتنفس فيه عادة بنية استئناف القراءة ، إما بما يلي الحرف الموقوف عليه، أو بما قبله لا بنية الإعراض ترجمہ: وقف کہتے کسی کلمہ کے آخر پر اس قدر آواز کاٹنا، جس قدر عادتاً آدمی سانس لیتا ہے، اور یہ انقطاع مزید قراءت کی غرض سے ہو نہ کہ اختتام کی وجہ سے[3]
قاری عبد الرحمن مہاجر مکی رحمہ اللہ (المتوفی:1329 ھ) نے فوائد کہ میں وقف کی جو تعریف بیان کی ہے اور بھی بڑی جامع ہے:
کلمہ غیر موصولہ کے آخر پر سانس تو نا وقف کہلاتا ہے۔[4]
ابتداء کا لغوی معنی:
لغت میں ابتداء کا معنی فعل الشئی اول ہے یعنی کس چیز کو پہلے کرنا ہیے
ابتداء کا اصطلاحی معنی:
حقد مین کے ہاں اگر ہم دیکھیں تو ابتداء کی با قاعدہ کوئی اصطلاحی تعریف نہیں ملتی البتہ وقف کی تعریف میں ضمنا ابتداء کی تعریف بھی موجود ہوتی ہے۔ مثلاً علامہ جزری کے ہاں وقف کی تعریف یہ ہے:
الوقف عبارة عن قطع الصوت زمنا يتنفس فيه عادة بنية استئناف القراءة : إما بما يلي الحرف الموقوف عليه ، أو بما قبله لا بنية الإعراض
اب اس تعریف میں سے ابتداء کی تعریف بھی اخذ کی جا سکتی ہے، لہذا ابتداء کی تعریف ان الفاظ میں ہو گی:
هو استئناف القراءة بعد الوقف
یعنی وقف کے بعد قرائت شروع کرنا ابتداء کہلاتا ہے۔
علامہ جرجانی (المتوفی : 816ھ) نے ابتداء کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:الابتداء هو أول جزء من المصراع الثاني[5]
وقف، سکتہ، سکوت اور قطع میں فرق:
قراء کے ہاں وقف کے ساتھ ساتھ سکتہ ، سکوت اور قطع کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ متقدمین کے ہاں ان الفاظ کے استعمال میں کوئی فرق نہیں تھا اور وہ تینوں الفاظ کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے تھے۔ البتہ متاخرین ان کے استعمال میں فرق کرتے ہیں۔ اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ قاری کسی لفظ کے آخر میں رکے تو اگر وہاں سانس نہیں توڑا تو وہ سکتہ ہے، اگر سانس توڑ دیا اور اب آگے تلاوت کا ارادہ ہے تو وہ وقف ہے، اگر متعلقہ قراءت کی وجہ سے وقف میں مزید تاخیر ہوئی تو سکوت ہے اور اگر اب آگے تلاوت کا ارادہ نہیں بلکہ تلاوت ختم کر دی تو وہ قطع ہے۔[6]