شرعی سوالات

عقد کرتے ہوئے قیمت کو معلق نہ چھوڑاجائے بلکہ معین کیا جائے

سوال:

ہم مارکیٹ سے آئل ٹینکر خریدتے ہیں ،نقد خریدنے کی صورت میں اگر 124 روپے کلو ملتا ہے تو ادھار کی صورت میں فی کلو ایک روپے زائد طے پاتا ہے ،ادائیگی کی مدت 30 يوم مقرر ہوتی ہے ،ادھار خریدنے کی صورت میں جو رقم زائد ادا کی جا رہی ہے ، وہ جائز ہے؟

جواب:

آپ کے سوال کا براہ راست جواب یہ ہے کہ آپ سودے کو معلق (Hung) نہ چھوڑیں کہ نقد قیمت دی تو اتنے روپے اور ادھار دی تو اتنے روپے بلکہ پہلے سے طے کر لیں ، نقد لینا ہو تو نقد طے کر لیں اور ادھار لینا ہے تو اس کے حساب سے قیمت اور مدت ادائیگی طے کر لیں تا کہ بعد میں کوئی تنازع پیدا نہ ہو۔ بیع کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ:

  • لین دین باہمی رضا مندی سے ہو ۔

( ب ) مبیع معلوم ہو۔

( ج ) عقد بیع کے وقت ثمن ( قیمت)  متعین ہو۔

 البتہ ثمن کی ادائیگی معلوم مدت کے لیے مؤثر ہو سکتی ہے ،اسے’’بیع بثمن مؤجل‘‘ (Deferred Payment) کہتے ہیں ۔ کیونکہ یہاں ایک ثمن متعین نہیں ہے بلکہ مدت کے عوض قیمت بڑھ جاتی ہے ، جو سود ہے ۔ آپ کی بیان کردہ صورت میں دو بیع اس طرح ہیں کہ ادھار اتنے روپے کی اور نقد اتنے روپے کی ، اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ ثمن ( قیمت ) اور مدت کا تعین کر لیں اور ادائیگی میں تاخیر کے سبب قیمت میں اضافہ نہ ہو۔

(تفہیم المسائل، جلد8، صفحہ356،ضیا القران پبلی کیشنز، لاہور)

سوال:

ایک شخص دھان اس طرح فروخت کرتا ہے کہ اگر نقد روپیہ ہو تو بازار کے بھاؤ یعنی سولہ سیر کے اور اگر قرض ہو تو 10 سیر کے ، آیا اس قسم کی بیع جائز ہے یا نہیں؟

جواب:

            اگر نفس عقد میں یہ شرط لگائی کہ نقداً اتنے اور نسیتہً اتنے کو تو فاسد ہے کہ بیع ہرگز ایسی جہالت ثمن کا تحمل نہیں کر سکتی۔       ہاں  اگر نفس عقد میں کوئی شرط نہ کی اور مشتری کو قرض لیتا دیکھ کر دبایا اور نقد قیمت سے زائد بیع کیا تو اگرچہ بیع صحیح ہوئی لیکن خلاف اولیٰ ہوئی۔رد المحتار میں ذکر بیع عینہ میں زیر قول وھو مکروہ فتح سے نقل کیا: ان لم یعد کما اذا باعہ المدیون فی السوق فلا کراھۃ فیہ بل خلاف الاولی۔

(فتاوی حامدیہ،صفحہ 421،شبیر برادرز، لاہور)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button