شرط کے متعلق عمومی حکم:
عقد میں شرط لگانا منع ہے اور اس سے عقد فاسد ہو جاتا ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عقد میں شرط لگانے سے منع فرمایا ہے اور کسی کام سے مطلقاً (یعنی ساتھ کوئی دوسرا قرینہ نہ ہو،)منع کرنا اس کے ناجائز و فاسد ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔
المبسوط میں امام سرخسی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ”حكي عن عبد الوارث بن سعيد قال حججت فدخلت بمكة على أبي حنيفة وسألته عن البيع بالشرط فقال: باطل ۔۔۔ فدخلت على أبي حنيفة فأعدت السؤال عليه فأعاد جوابه فقلت: إن صاحبيك يخالفانك فقال لا أدري ما قالا حدثني عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي – صلى الله عليه وسلم – نهى عن بيع وشرط “ترجمہ: عبد الوارث بن سعید رحمہ اللہ کہتے ہیں میں حج کرنے گیا : وہاں میں مکہ میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حلقہ درس میں بھی حاضر ہوا اور ان سے سوال کیا: ”بیع بالشرط“(عقد میں شرط لگانا) کیسا ہے؟
امام اعظم رحمہ اللہ نے فرمایا: ”بیع بالشرط باطل ہے۔“ پھر میں اس مسئلے کی دلیل پوچھنے کے لئے دوبارہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پاس گیا اور یہی سوال کیا۔ انہوں نے بھی وہی جواب دیا۔ میں نے فوراً کہا: ”آپ کے ہم عصر امام ابن ابو لیلی اور امام ابن سیرین کا موقف تو کچھ اور ہے۔“
یہ سن کر امام اعظم رحمہ اللہ نے فرمایا: ”ان دونوں کا موقف کس وجہ سے مختلف ہے یہ تو مجھے معلوم نہیں البتہ میں نے یہ جواب اس لئے دیا ہے کیونکہ حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے۔“
حدیث: مجھے عمرو بن شعیب نے حدیث بیان کی، انہیں ان کے والد شعیب نے اپنے والد حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرط کے ساتھ بیع کرنے کے منع فرمایا۔ [1]
یہ حدیث بیان کرنے کے بعد امام سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:” الصحيح ما استدل به أبو حنيفة فإنه حديث مشهور، ومطلق النهي يوجب فساد المنهي عنه “[2]
مستثنی شرائط:
لہذا عمومی حکم تو یہی ہے کہ عقد کسی بھی شرط سے خالی ہو، البتہ اس حکم سے چند شرائط مستثنی ہیں :
- عقد میں جو شرط لگائی جا رہی ہے وہ شرط ایسی ہو کہ عقد اس کا تقاضا کر رہا ہو، یعنی اگر وہ شرط ذکر نہ بھی کرتو بھی عقد میں وہ چیز لازم ہی ہوتی۔ اسی کی ایک قسم عقد میں ایسے وصف مرغوب فیہ کی شرط لگانا بھی ہے جو کہ بوقت عقد محل میں موجود ہو[3]۔ اس شرط کے جواز پر فقہائے اربعہ کا اتفاق ہے۔[4]
ہدایہ میں علامہ المرغینانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ” كل شرط يقتضيه العقد كشرط الملك للمشتري لا يفسد العقد لثبوته بدون الشرط “[5]
بدائع الصنائع میں ہے: ” لو اشترى جارية على أنها بكر أو طباخة أو خبازة، أو غلاما على أنه كاتب أو خياط، أو باع عبدا بألف درهم على أنها صحاح أو على أنها جياد نقد بيت المال أو اشترى على أنها مؤجلة فالبيع جائز؛ لأن المشروط صفة للمبيع أو الثمن صفة محضة لا يتصور انقلابها أصلا ولا يكون لها حصة من الثمن بحال، ولو كان موجودا عند العقد يدخل فيه من غير تسمية وإنها صفة مرغوب فيها لا على وجه التلهي ، والمشروط إذا كان هذا سبيله؛ كان من مقتضيات العقد، واشتراط شرط يقتضيه العقد لا يوجب فساد العقد كما إذا اشترى بشرط التسليم وتملك المبيع والانتفاع به ونحو ذلك بخلاف ما إذا اشترى ناقة على أنها حامل أن البيع يفسد في ظاهر الرواية؛ لأن الشرط هناك عين وهو الحمل فلا يصلح شرطا. وكون الناقة حاملا وإن كان صفة لها لكن لا تحقق له إلا بالحمل وهو عين في وجوده غرر، ومع ذلك مجهول فأوجب ذلك فساد البيع “[6]
مثال:
- میں یہ سامان اس شرط پر خریدتا ہوں کہ اگر کوئی عیب نکلا تو تمہیں واپس کر دوں گا۔
- میں یہ سامان اس شرط پر خریدتا ہوں کہ تم مجھے سامان سپرد کرو گے۔
- میں نے یہ غلام اس شرط پر خریدا کہ وہ کتابت جانتا ہو۔
- عقد میں جو شرط لگائی جا رہی ہے وہ شرط عقد کے تقاضے کے مناسب ہو یعنی وہ معناً عقد کے حکم کو ثابت کرنے والی اور اس کی تائید و توثیق کرنے والی ہو، لہذا یہ بھی گویا عقد کے تقاضے کی طرح ہے۔ اس شرط کے جواز پر بھی فقہائے اربعہ کا اتفاق ہے۔[7]
مثال:
میں نے تمہیں یہ سامان اس شرط پر فروخت کیا کہ تم مجھے ثمن کے عوض رہن دو گے اور رہن معلوم ہو؛ یا تم مجھے ثمن کے عوض کفیل دو گے اور کفیل حاضر ہو۔
بدائع الصنائع میں ہے: ” الشرط الذي لا يقتضيه العقد لكنه ملائم للعقد لا يوجب فساد العقد أيضا لأنه مقرر لحكم العقد من حيث المعنى مؤكدا إياه ، فيلحق بالشرط الذي هو من مقتضيات العقد وذلك نحو ما إذا باع على أن يعطيه المشتري بالثمن رهنا أو كفيلا والرهن معلوم والكفيل حاضر فقبل. “[8]
- عقد میں جو شرط لگائی جا رہی ہے اس پر عرف جاری ہو چکا ہو۔ بدائع الصنائع میں علامہ کاسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”كذلك إن كان مما لا يقتضيه العقد ولا يلائم العقد أيضا لكن للناس فيه تعامل فالبيع جائز كما إذا اشترى نعلا على أن يحدوه البائع أو جرابا على أن يخرزه له خفا أو ينعل خفه والقياس أن لا يجوز، وهو قول زفر۔۔۔(ولنا) أن الناس تعاملوا هذا الشرط في البيع كما تعاملوا الاستصناع فسقط القياس بتعامل الناس كما سقط في الاستصناع“[9]
مثال:
میں نے تم سے چمڑا اس شرط پر خریدا کہ تم مجھے اس کا موزہ بنا کر دو گے۔
میں نے تم سے جوتے کا تلا(سول) اس شرط پر خریدا کہ تم مجھے اس کو جوتے میں سی کر دو گے۔
- عقد میں جو شرط لگائی جا رہی ہے وہ شرط ایسی ہو کہ خود شریعت نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی ہو۔ علامہ حصکفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ” لو ورد الشرع بجوازہ كخيار شرط فلا فساد “ملخصاً[10]
[1] : السرخسی، المبسوط ، دار المعرفہ، بیروت ، جلد13، صفحۃ 14
[2] : مصدر السابق
[3] : کہ جب بوقت عقد وہ محل میں موجود ہے تو اس کی شرط ذکر نہ بھی کی جائے تو بھی عقد میں وہ چیز لازم ہی ہوتی ہے۔
[4] : الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ، جلد26، صفحۃ 12، طبع الوزارۃ، کویت
[5] : فتح القدیر مع الھدایہ، جلد6، صفحۃ 443، دار الفکر، بیروت
[6] : بدائع الصنائع، جلد5، صفحۃ 175، دار الکتب العلمیہ بیروت
[7] : الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ، جلد26، صفحۃ 12، طبع الوزارۃ، کویت
[8] : بدائع الصنائع، جلد5، صفحۃ 171، دار الکتب العلمیہ بیروت
[9] : مصدر السابق، صفحہ 172
[10] : شامی، ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، دار الفکر، بیروت ، جلد5، صفحہ 85