عصبات کے متعلق مسائل
مسئلہ ۱: عصبات سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے مقرر شدہ حصے نہیں البتہ اصحاب فرائض سے جوبچتا ہے انہیں ملتا ہے اور اگر اصحاب فرائض نہ ہوں تو تمام مال انہی میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ (عالمگیری ج ۶ ص ۴۵۱، الاختیار شرح المختار بحوالہ عالمگیری، درمختار ج ۵ ص ۶۷۷) عصبات کی دو قسمیں ہیں ۔ (۱) عصبہ نسبی (۲) عصبہ سببی۔
مسئلہ ۲: عصبہ نسبی سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن کے مقررہ حصے نہیں ہیں بلکہ اصحاب فرائض سے اگر کچھ بچتا ہے تو انہیں ملتا ہے عصبہ نسبی کی تین قسمیں ہیں ۔ (۱) عصبہ بنفسہٖ (۲) عصبہ بغیرہ (۳) عصبہ مع غیرہ۔ (شریفیہ ص ۴۵)
مسئلہ ۳: عصبہ بنفسہٖ سے مراد وہ مرد ہے کہ جب اس کی نسبت میت کی طرف کی جائے تو درمیان میں کوئی عورت نہ آئے۔ عصبہ بنفسہٖ کی چار قسمیں ہیں ۔
پہلی قسم : جز و میت ، یعنی بیٹے پوتے (نیچے تک)
دوسری قسم : اصل میت ، یعنی میت کاباپ دادا (اوپر تک)
تیسری قسم : میت کے باپ کا جزو ، یعنی بھائی پھر ان کی مذکر اولاد ۔در۔ اولاد (نیچے تک)
چوتھی قسم : میت کے دادا کا جزو ، یعنی چچا پھر انکی مذکر اولاد ۔در۔ اولاد (نیچے تک)
مسئلہ ۴: ان چاروں قسموں میں وراثت بالترتیب جاری ہو گی اور ترتیب وہی ہے جو ہم نے تقسیم میں اختیار کی ہے یعنی اگر پہلی قسم کے لوگ موجود ہیں تو دوسری قسم کے لوگ عصبہ نہیں بنیں گے اور دوسری قسم کے ہوتے ہوئے تیسرے قسم کے عصبہ نہیں بنیں گے اور تیسری قسم کے ہوتے ہوئے چوتھی قسم کے نہیں بنیں گے۔ (درمختار ج ۵ ص ۶۷۷)
مذکورہ صورت میں باپ کو بطور عصوبت کچھ نہیں ملا ہے ۱/۶ بطور فرضیت دیا گیا ہے۔
مسئلہ ۵: عصبات میں ترتیب و ترجیح کا ایک اصول تو ہم نے ذکر کر دیا کہ ر شتہ داری کا قرب دیکھا جائے گا اس کے بعد دوسرا اصول یہ ہے کہ قوۃ قرابت کو دیکھا جائے گا یعنی دوہری رشتہ داری والے کو اکہری رشتہ داری والے پر ترجیح ہو گی اس میں مرد و عورت کی بھی تفریق نہیں ۔
مسئلہ ۶: عصبہ بغیرہٖ چار عورتیں ہیں یہ وہ عورتیں ہیں جن کا مقررہ حصہ نصف یا دو تہائی ہے یہ عورتیں اپنے بھائیوں کو موجودگی میں عصبہ بن جائیں گی اور بجائے فرض کے صرف بطور عصوبت جو ملے گا وہ لیں گی وہ عورتیں یہ ہیں ۔ (۱) بیٹی (۲) پوتی (۳) حقیقی بہن (۴) باپ شریک بہن۔ (درمختار ج ۵ ص ۶۷۹)
مسئلہ ۷: وہ عورتیں جن کا فرض حصہ نہیں ہے مگر ان کا بھائی عصبہ ہے وہ اپنے بھائی کے ساتھ عصبہ نہیں ہوں گی۔ کیونکہ قرآن کریم میں صرف بیٹیوں اور بہنوں کو ہی اپنے بھائیوں کے ساتھ عصبہ قرار دیا گیا ہے۔ (درمختار ج ۵ ص ۶۷۹)
اس صورت میں باقی کل مال چچا کو ملے گا اور اس کی بہن جو میت کی پھوپھی ہے محروم رہے گی۔
مسئلہ ۸: عصبہ مع غیرہ سے مراد وہ عورت ہے جو دوسری عورت کے ساتھ مل کر عصبہ بن جاتی ہے جیسے حقیقی بہن یا باپ شریک بہن بیٹی کے ہوتے ہوئے عصبہ بن جاتی ہے۔
مسئلہ ۹: سببی عصبہ مولی العتاقہ ہے۔ اگر ہمیں کتاب کے نا مکمل رہ جانے کا خطرہ نہ ہوتا تو ہم مولی العتاقہ کی بحث کو حذف کر دیتے کیونکہ اب در حقیقت اس کا کوئی وجود نہیں بہرحال اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے کوئی غلام آزاد کیا ہو اور وہ غلام مر گیا ہو اور غلام کا کوئی رشتہ دار نہ ہو صرف اس کو آزاد کرنے والا شخص ہو اب اس کا آقا اس کو آزاد کرنے کے سبب اس کی میراث کا مستحق ہو گا کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے: الولا ئ لحمۃ کلحمۃ النسب ۔ولا کا تعلق نسبی تعلق ہی کی طرح ہے۔ (درمختار ج ۵ ص ۶۸۰)
مسئلہ ۱۰: اگر آزاد کرنے والا بھی زندہ نہ ہو تو مال اس کے عصبات کو اسی ترتیب کے مطابق ملے گا جو ہم عصبات کی ترتیب میں بیان کر آئے ہیں ۔ البتہ فرق یہ ہے کہ آزاد کرنے والے کے عصبات میں اگر عورتیں ہیں تو ان کو کچھ نہ ملے گا۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے لیس للنساء من الولاء ۔ عورتوں کے لئے ولاء نہیں یعنی انہیں اس سبب سے میراث نہ ملے گی کہ ان کے کسی رشتہ دار نے کسی شخص کو آزاد کیا تھا۔ اور اگر کسی عورت نے خود غلام آزاد کیا تھا تو وہ اس کی میراث لے لے گی۔ (شریفیہ ص ۵۱، درالمختار ج ۵ ص ۶۸۱)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔