استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بعض لوگ عرفات میں جمع بین الصلاتین کو واجب سے بھی بڑھ کر جانتے ہیں اس جمع کی شرائط اور صحتِ اقتداء کی شرطیں بھی نظر انداز کر دیتے ہیں ، آپ بتائیے کہ یہ جمع ہمارے فقہ میں کیا ہے واجب ہے یا مستحب؟
(السائل : محمد سہیل قادری)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : عرفات میں یوم عرفہ نماز ظہر و عصر کو ظہر کے وقت میں جمع کرنا ہمارے نزدیک مستحب ہے جب کہ یہ جمع ان شرائط کے مطابق ہو جن کا پایا جانا اس وقت اور اس مقام پر جمع بین الصلاتین کے لئے ضروری ہے ، چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
و از انہا ست جمع کردن میان نماز ظہر و عصر در وقت بشروطی کہ ذکر آنہا ہم در باب مذکور خواہد آمد (101)
یعنی، حج کے مستحبات میں سے ظہر اور عصر کی نمازوں کا ظہر کے وقت ان شرائط کے مطابق جمع کرنا جو باب مذکور (یعنی بابِ وقوف) میں ذکر کی جائیں گی۔ اور علامہ محمد سلیمان اشرف لکھتے ہیں : ظہر اور عصر جمع کرنے کی اجازت آج چند شرائط کے ساتھ ہیں ، نو (9) ذی الحج ہو، مقام عرفات ہو، نماز جماعت کے ساتھ ہو، جماعت کا امام امیر المؤمنین یا اس کا نائب ہو، اگر کسی نے امام کے ساتھ نہیں پڑھی تنہا پڑھی یا اپنی جماعت علیحدہ قائم کی تو اس کے لئے جمع کرنا ہرگز جائز نہیں ۔ (101) اور لکھتے ہیں : آج عصر کی نماز قبل از وقت پڑھنا اس وقت جائز ہے جب کہ جمع کی ساری شرطیں پائی جائیں ۔ (102) لہٰذا اس تاریخ کو اس مقام پر جمع بین الصلاتین تب مستحب ہے جب جمع کی شرائط پائی جائیں اور مستحب کا حکم کیا ہے چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی لکھتے ہیں :
حکم مستحبات آنست کہ حاصل شود مر فاعل آنہا را اجر زائد بفعل آنہا اگرچہ اجر او فرو ترست از اجر فعل سنّت موکدہ و فوت می شود اجر بترک آن و لازم نمی آید تبرک آن اسائت و کراہت بخلاف سنّت مؤکدہ کہ کراہۃ و اسائت در ترک آن لازم است (103)
یعنی، مستحبات کا حکم یہ ہے کہ ان کے کرنے والے کو ان کی ادائیگی پر زائد اجر و ثواب ملتا ہے گو کہ وہ اجر سنّت مؤکدہ کے ثواب سے کم ہے اور ان (یعنی مستحبات) کے ترک کر دینے پر زائد اجر نہیں ملتا اور ان کے ترک پر کراہت و اسائت بھی لازم نہیں آتی بخلاف سنّت مؤکدہ کے کہ ان کے ترک پر کراہت اور اسائت لازم آتی ہے ۔ یہ تو اس صورت میں ہے جب جمع بین الصلاتین کی شرائط پائی جائیں اور فی زمانہ شرائطِ جمع کا تحقّق مشکل ہے اور شرائط کے تحقّق کی صورت میں بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ خیمے اکثر اوقات مسجد سے بہت دُور ہوتے ہیں ، کچھ حاجیوں کو بسیں رات میں ہی خیمے تک پہنچا دیتی ہیں اور دن میں ازدحام کی وجہ سے بمشکل خیموں تک پہنچا پاتی ہیں ، بسا اوقات ایسے بھی دیکھنے میں آیا کہ حاجی راستوں میں ہی بسوں میں مقید ہوتا ہے اور وہ اگر خیمہ میں ہے تو وہاں سے نکل کر اقتداء امام کے لئے جانا دشوار اور وہیں پر مائک کی آواز پر اقتداء درست نہیں ہو گی، اور پھر خیمہ دُور ہے توشرائط صحت ِ اقتداء کے متحقق نہ ہونے کے سبب نماز ہی نہ ہوگی۔ تو ایک مستحب عمل کے حصول کے لئے عرفہ کے روز میدان عرفات میں فرض نماز کا ترک حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔ اور یہی لوگ جو ایک مستحب کے حصول کے لئے بحث و مباحثہ کرتے ہیں سمجھانے پر بھی ماننے کو تیار نہیں ہوتے ان کو دیکھو گے تو ان متعدد سنّتوں کو بھی ترک کر دیتے ہیں جو مؤکدہ ہیں اور واجب کے ترک کے لئے بھی بہانے تلاش کرتے ہیں اور لوگوں کی دیکھا دیکھی کئی ایسے کام کرتے ہیں جو ممنوع ہوتے ہیں اور کئی ایسے کام چھوڑ دیتے ہیں جو سنّت یا واجب ہوتے ہیں اور دلیل ان کی عوام الناس ہوتے ہیں حالانکہ وہ کسی فعل کے جواز و عدم جواز کی دلیل نہیں ہیں ، معیارِ اسلام نہیں ، معیارِ اسلام قرآن و سنّت ہیں اور قرآن و سنّت سے مقصود ہدایت ہے اور ہدایت کا حصول اَوامر پر عمل اور منہیات سے اجتناب کے ذریعے ہے اور فقہ کے نام سے ان کو مرتَّب کیا گیا ہے ، لہٰذا ہمیں اپنی فقہ کو دیکھنا ہے نہ کہ کسی اور کو۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم السبت،3 ذوالحجۃ 1427ھ، 23دیسمبر 2006 م (317-F)
حوالہ جات
100۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، مقدمۃ الرسالہ، فصل سیوم، مستحبات حج، ص48
101۔ رسالہ الحج، عرفات اور وہاں کی عبادت، ص121
102۔ رسالہ الحج، عرفات اور وہاں کی عبادت، ص121
103۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، مقدمۃ الرسالہ، فصل سیوم، مستحبات حج، ص49